مارچ: اپنی خواتین سے آزاد ہوئیے۔۔انعام رانا

پروفیسر کہنے لگا اب کے تم یہیں ہو تو ہمارے ساتھ عورت مارچ میں آؤ۔ عرض کی نہ  استاد جی، یہ نیو لبرلزم آپ کو ہی مبارک۔ اچھا اب اگر آپ مجھے پرانا پڑھتے ہیں تو میرے پروفیسر سے بھی واقف ہوں گے۔ میرا سرخا استاد کہ آج جو میرے “کالے” پر سرخ کے ٹاواں ٹاواں نشان ہیں، وہ اسی  کے ڈالے ہوئے ہیں۔ پروفیسر کے ساتھ میرا رشتہ باپ بیٹے، استاد شاگرد ، دوست، محبوب و محب کا ہے۔ البتہ ایک دوسرے کے بٹن دبانا ہمارا محبوب مشغلہ ہے کہ باپ کے بعد اب گالی دینے والا وہی تو بچا ہے ۔ بس بٹن دب گیا۔۔ پروفیسر نے نتھنے پھلائے، سگریٹ کا کش لمبا کھینچا اور ۔۔۔”اوئے ۔۔۔۔دیا، تو اینے سال ولایت رہ کے وی میسوجنسٹ ای ایں”۔ نہ استاد جی، میں تو میل ڈومیننس کے  سخت خلاف ہوں، البتہ مارکس کے اصولوں کے مطابق عورت کی مرد پہ ڈومیننس کے بھی خلاف ہی ہوں۔ دونوں کی برابری کا قائل ہوں۔ اب پروفیسر، جسے میرے اُسے اپنا استاد بتانے پر بہت غصہ چڑھتا ہے کہ “لوگ کیا سوچیں گے کہ ایسے کا استاد کیا ہو گا”، مزید بھڑکا اور اگلے دو تین گھنٹے خزانہ ہاتھ لگتا رہا۔ پرانے وقتوں میں بچے بالے بڈھوں کو چھیڑ کر  مینہہ  پاتے تھے، میں علم کی پھوار میں بھیگ لیتا ہوں۔

خیر یہ تو قصہ ہوا جو بات شروع کرنے کو تھا۔ سچ تو یہ ہے صاحبو! کہ میں عورت مارچ کیا ،عورت کے بارہ مہینوں کا قائل ہوں، تین سو پینسٹھ دن کا قائل ہوں، عورت مرد کی برابری کا قائل ہوں، بلکہ سوتر بھر برتری بھی لے لیں بھائی، اپنا کیا جاتا ہے۔ بس ہمیں آزاد کر دیں۔ حیرت تو مجھے ان مردوں پہ ہے جو اس سے خوفزدہ ہیں۔ بھائی سوچو تو سہی تمھارے ساتھ ہو کیا رہی ہے، اور تم ہو کہ پنجرے میں  رہنے  پر  مُصر ہو۔

تم پیدا ہوتے ہی  ماں کے کلِے سے بندھ جاتے ہو۔ چلو جی پیدا کیا پالا پوسا اس نے، اُسکی غلامی کرنا ہی چاہیے۔ مگر تم باپ کو ایک اضافی حیثیت دے کر ماں کے گرد ہی عمر بھر طواف کرتے رہتے ہو۔ پھر نصیب سے بہنیں ہوں تو سمجھو عمر بھر کے لیے  اب تمھاری لگ گئی ہے۔ انکی شادی ہونے سے پہلے وہ تمھاری ذمہ داری ہیں۔ خبردار جو ان کو بھاری کام کرنے دیا۔ ارے بے غیرت بہن اکیلی بازار جا رہی ہے، ساتھ جا بھلے ٹانگیں اپنے کام کر کر کے پتھر کی ہو چکی ہوں۔ خیر سے اب انکی شادی کرنی ہے۔ کہیں آپ بڑے ہیں تو چلیے چکی میں آٹا بنیے، بھائی ہی تو کرتے ہیں بہنوں کا۔ شادی ہوئی شکر الحمداللہ۔۔ مگر ابھی تو عمر باقی ہے۔ خیر سے انکے بچے ہونے سے بچوں کے بچے ہونے تک بطور ماموں آپ نے ہل میں ہی جُتنا ہے۔

قسمت اچھی ہوئی تو وقت پہ شادی بھی ہو جائے گی آپ کی۔ ۔مگر اپنی شادی اوّل تو اپ نے بہنوں کے بعد ہی کی ہو گی یا پھر اک مزید مہابھارت کو تیار رہیے۔ پہلے تو اپنی شادی کے لیے جوڑئیے، شادی اچھی ہونی چاہیے، ناک رہنی چاہیے، برادری میں بھی سسرال میں بھی۔ ویسے کبھی غور کیجیے گا “اچھی اور بڑی شادی” پہ اصرار کسی کمبخت مرد نے کیا تھا یا پھر گھر کی کسی عورت نے۔ جہیز جیسی لعنت کا شوق آپ کو زیادہ تھا یا آپ کی والدہ ماجدہ کو۔ اب وہ خوابوں کی ملکہ گھر آئی کہ جس کے آنے سے راحت آنی تھی، آئی؟۔۔۔۔ اک نوکری سے پوری نہیں پڑتی تو دوسری کی تلاش شروع کیجیے۔ شادی پہ لیا قرض  آپ ہی کو اُتارنا ہے، فرمائشیں بھی آپ ہی کو پوری کرنی ہیں ، ما،بہن اور بیوی میں توازن بھی آپ کے  ہی ذمہ ہے کہ “مرد اچھا ہو تو عورت کی کیا مجال” اور “بیٹا ہی نکما نکلا” یا “ماں کے گھٹنے سے لگا ہے ماما بوائے” جیسے جملے آپ ہی کیلئیے تو بنے ہیں۔ برے دھاڑے بانکے حال اپنے کپڑوں کو چاہے پیوند بھی نا لگا ہو، برانڈ کے کپڑے لائیے حضور۔ کام والی کی تنخواہ کہاں سے پوری کرنی ہے یہ آپکا پرابلم ہے، بیگم جان اب خود کام کریں کیا۔ لیجیے بچے ہوئے، کولہو کے بیل پہ کچھ بوجھ اور بڑھا، پتہ ہی نہیں چلا اب بیٹی بیاہنی ہے، چڑھ جا سولی بیٹا، رام بھلی کرے گا۔ گود سے جو سفر ماں نے شروع کرایا تھا گور پہ خیر سے بیٹی کے ہاتھوں پورا ہو گا۔

کبھی سوچا ہے یہ گھگھو گھوڑا بن کر آپ نے پایا کیا تھا؟

جی بیٹا لاکھوں میں ایک ہے جیسا جملہ؟

ہمارا بھائی ہمارا بہت کرتا ہے؟

میرے ابا جی میرے آئیڈیل ہیں؟

یا پھر بیگم کے ساتھ موجود ایک لو ہیٹ (محنت و نفرت کا ملغوبہ) اک رشتہ؟

ہاں یہ سب کچھ کر کے آپ “مرد” کے اعلیٰ  رتبے پہ فائز ہو گئے۔ “گرم کھانا” جیسی نعمت مل گئی۔ ویسے سچ کہو ں ،فقط دو گرم روٹی کیلئے یہ ذلت کتا  تو برداشت کر لے، تمہیں   کیا ہوا تھا؟

اچھا “میرا جسم میری مرضی” کا بہت شہرہ ہے۔ بالکل درست ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ عورت اور مرد دونوں کیلئے۔ ویسے بھی تمھیں جسم ملا کتنا؟ مہینے مہینے بعد ایک سر پہ تیل چوپڑی عورت تمھیں کہتی ہے “سنیں جی کل میں نے  نہانا ہے،  آپ نے کچھ گندہ کام کرنا ہے تو کر لیں”۔ یہ ہے تمھاری سیکس لائف۔ بیس بیس بار ترلے کر کے تمھیں چار پانچ منٹ کا ایک احسان ملتا ہے، اور آگے ہوتا ہے ٹھنڈا گوشت۔ پھر بھاگتے ہو حکیموں کے پاس کہ جی بیوی تو “ہونہہ” کر کے مذاق اڑاتی ہے۔ وڈے مرد رہندے نہیں کدرے۔

صاحبو کس کام لگے ہو۔ فقط “مرد” بننے کے چکر میں۔ عورت پہ یہ “تھیوریٹیکل برتری” سنبھالنے کے چکر میں۔ تمھاری مردانگی ہے کیا؟ بس یہ احساس کہ میری مرضی کے بنا میرے رشتے کی کسی عورت کو کسی دوسرے مرد نے نہیں چھوا، اور معاف کرنا اکثر دھوکا ہی کھاتے ہو۔ اس نام نہاد غیرت کے تصور میں، تم اپنے ساتھ وہ کرواتے ہو کہ نوجوانی میں مر جاتے ہو۔ نہ بھی مرو تو پچاس ٹاپٹے نہیں اور پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔۔۔۔ تمھاری مثال تو اس گھوڑے جیسی ہے جو ٹانگے کی عمر سے نکلتا تھا تو کانجی ہاؤس پہنچ جاتا تھا۔

یقینا ً مسائل ہیں۔ مرد و عورت میں تفاوت بھی، مگر وہ مسائل معاشی و سماجی زیادہ ہیں۔ ایک ایسا ظالم سسٹم ہے کہ جس میں مرد و عورت دونوں اپنی اپنی جگہ مظلوم ہیں۔ دیجیے عورت کو آزادی، کام کرے، اپنا کمائے، اپنی اس نام نہاد عزت کی حفاظت بھی خود ہی کرے، بل بھی خود دے۔ تاکہ رشتوں میں توازن آئے، خوبصورتی آئے، مجبوری نہیں محبت آئے، انسانیت پیدا ہو۔ مرد اور عورت کی ایک قدرتی کہہ لیجیے، جیسے تقسیم ہے، جو توازن بناتی ہے۔ میری بلا سے الٹا کر لیجیے۔ آج سے میری بیوی کرے نوکریاں، مجھے گھر بیٹھ کر روٹی پکانے، بچے پالنے میں کوئی اعتراض نہیں۔ اچھا تمھیں یہ مسئلہ کیوں ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ وہ ماں بننا چاہتی ہے یا نہیں۔ یہ اسکا حق ہے۔ ہاں تمھارا حق ہے کہ اگر تمھیں بچوں کا بہت شوق ہے تو اسکو چھوڑو کوئی اور دھونڈو جسکا بچوں کا دل کر رہا ہو۔ البتہ اس وقت اگر کوئی “اخلاقیات” کی کتاب نکالے تو پھاڑ دینا، کتاب کو، کیونکہ تمھاری بھی اتنی ہی مرضی ہے باپ بننے کی جتنی کسی عورت کی ماں نہ بننے کی ہے۔

انسان کو بہت وقت لگے گا ابھی اس مقام تک آتے ہوئے ، جب وہ فقط انسان ہونے کی بنیاد پہ برابر ہو گا۔ مگر تب تک تم تو اپنی زنجیریں کم کرو اور نام نہاد انا کی کوٹھڑی سے نکل کر سانس لو۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے وہ سکاٹش موٹی یاد آ جاتی ہے ترقی یافتہ ولایت کی جو سارا دن کام بھی کرتی تھی، ہفتے میں تین دن کھانا بھی پکاتی تھی اور مار بھی کھاتی تھی۔ کیونکہ اس عمر میں اسے دوسرا مرد ملنا مشکل تھا۔ یاد تو وہ منگیتر پاکستانی بھی آتا ہے جو برٹش بیوی سے مار بھی کھاتا تھا اور سوتا بھی گدا بچھا کر دروازے کے باہر تھا کہ ابھی “پکا” نہیں ہوا تھا۔ آپ عورت یا مرد کسی کو بھی معاشی مجبور یا جابر کر دیجیے، وہ صنف سے ماورا ظالم و مظلوم ہو گا۔ مگر اس حقیقت کے ادراک تک بھلے آپ مارکس وادی ہی کیوں نہ  ہوں، عورت مارچ کیجیے۔ بس کپڑے لال لال پہنیے گا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے