آؤ باتیں کریں۔۔نعمان خان

باتیں تو باتیں ہوتی ہیں۔ اچھی بُری ، اہم ، غیر اہم ، سیاسی ، مذہبی یا جیسی بھی۔ افسانوی لوگ یا شاید سیانے لوگ یہ بھی کہتے ہیں خاموشی باتیں کرتی ہے۔
باتیں کرنا انسان کی مجبوری ہے ، ضرورت ہے ، خواہش ہے ، کچھ نہ کچھ تو ہے۔ خود کلامی کرنے کو لوگ ماہرین نفسیات ، نفسیاتی بیماری بھی سمجھتے ہیں۔ اس حساب سے تو شاید کرۂ ارض نفسیاتی مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔

ہم باتیں نہ کریں تو کیا کریں۔ وقت کاٹنے کو کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی حیلہ کوئی دھندہ ، کوئی مصروفیت ، کوئی دلچسپی ، غرض جب تک ہم اپنے جسم میں موجود ہیں ہم نے وقت کو اور وقت  نے ہم کو کاٹنا ہے۔

ہنگامہء جہاں سے لاتعلقی کے لیے وقت سے نکلنا پڑتا ہے۔جسم سے بیگانگی ضروری ہوتی ہے۔ کوئی مجنوں ، کوئی اللہ کا ولی ، کوئی عاشق صادق یا کوئی مردہ ہی اس نعمت سے یا اس تجربے سے ہم کنار ہوتا ہے۔ مجنوں اب بتانے سے قاصر ہے ، ولی اللہ اس کو راز رکھتے ہیں۔ عاشق صادق کو بھی اس کی تشہیر سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، مردوں سے گفتگو کرنا تاحال میرے لیے ممکن نہیں ہے۔

وقت ایک جہت ہے ، جس کا انسان نے بے شمار مرتبہ ذکر کیا ہے، اس پہ سوچا ہے ، وقت پر سوچنے کے لیے سوچنے والوں کے پاس بہت وقت ہے۔ مذاہب کی دلچسپی کے چند اہم و بنیادی موضوعات میں  وقت بھی ہے۔ ہر مذہب میں خالق کے لیے تسخیر ِوقت ایک معمولی بات کے طور پہ ذکر ہوئی ہے۔

فلسفیوں نے ، متکلمین نے ، شاعروں نے ، سائنسدانوں نے بھی حتی المقدور کوشش کی ہے وقت کی گتھی سلجھا سکیں لیکن حتمیت و قطعیت سے کوسوں دور محسوس ہوتا ہے سب کچھ۔ یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ کسی تالاب میں کنکر پھینک کر ذرا سی جو ہلچل پیدا ہوتی ہے اتنی ہی ہماری دریافت ہے۔ اپنے سوالات کی تشنگی و تجسس ہے جو ہمیں شاید گفتگو پہ مجبور کیے ہوئے ہے۔

ابھی جو بڑی عید گزری ہے ، میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے عید بہت بور کرتی ہے۔عید یقینا ً خوشیوں کا تہوار ہے، عبادت ہے۔ دنیا میں ہر فرد ، ہر سماج ، ہر ملت ، و تہذیب کے خوشیوں کے تہوار ہوتے ہیں ، مواقع آتے ہیں۔

میں عید کے دن چند رسومات کی ادائیگی تو کرتا ہوں لیکن میں عید کے دن بھی خوش نہیں ہوتا۔ میں عموماً بھی اداسی کی گرفت میں رہتا ہوں۔
دیگر مذاہب کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے اسلام کی جتنی سمجھ ہے اس نے اطمینان کو کامیابی کہا ہے ، اسلام میں کامیاب وہ ہے جو راضی بالرضا بلکہ راضی بالقضا ہے۔ خوشی کا تعلق انسان کی مابعد الطبیعات سے بھی تو ہے۔۔

سائنس نے بھی کچھ ہنسنے رونے کے ہارمونز دریافت کیے ہیں۔ ہنسنا کیا واقعی خوشی کا اظہار ہے یا بنا دیا گیا یا رونا کیا غم کا اظہار ہے یا بنا دیا گیا۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں۔ میں تو انسان کے پہلے گریے سے اور پہلے قہقہے سے نا آشنا ہوں۔

مجھے اپنا پہلا رونا کیوں تھا ،نہیں معلوم ، میں نے پہلا قہقہہ کیوں لگایا مجھے نہیں معلوم ۔ میں دیکھتا تھا کہ لوگ جن باتوں پہ ہنستے ہیں ہنستا ہوں جن پہ روتے ہیں روتا ہوں اور وقت کے ساتھ کچھ اپنی وجوہات بھی بنا لی ہیں۔

دماغ ایسی باتوں کو زیادہ محفوظ کہاں رکھتا ہے۔

تاہم ۔۔۔دنیا کے کئی فارغ فلاسفرز اپنی معروضات پیش کرتے ہیں خوشی یا غمی کے متعلق۔
میں تو سوچتا ہوں کہ آج کا ڈس پوزیبل انسان کیا خوش رہ سکتا ہے۔ جون نے تو کہا تھا کہ خوش رہنے کے لیے بے حسی درکار ہے۔
بابا گوتم بدھ نے دنیا کو دکھوں کی آماجگاہ کہا ہے۔
بابا ناننک نے کہا کہ دکھیا سب سنسار،
فانی بدایونی نے کہا

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم

ہمارے صوفیاء کے ہاں خوشی کے بجائے مستی کا پیغام ملتا ہے۔ مستی شاید ہجر فراق غم و خوشی سے آگے یا ان کو یکسر بھول جانے کا نام ہو سکتا ہے۔ میں اس کیفیت سے کبھی نہیں دوچار ہوا فلہذا جو سنا پڑھا اسی پہ قیاس کر رہا ہوں۔

اردو ادب کے زیادہ تر اشعار جو مجھے کھینچتے ہیں وہ بھی یاسیت اداسی و حزن و الم کے مضامین پہ مبنی ہوتے ہیں۔
دنیا کے بڑے ادب کی بابت بھی یہی سنا ہے کہ ٹریجڈی اسے بڑا بناتی ہے۔

مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان کا اصل جوہر ٹریجک ہے، انسان اپنی اصل میں عزادار ہے۔ انسان اپنی ذات میں تنہا ہے اور تنہائی خدا کے سوا کسی کو جچتی نہیں ہے۔

ایک بار ایک سروے دیکھا جو کہ سویڈن کے شہر اور زمبابوے کے شہر ہرارے میں کیا گیا جو یہ ظاہر کرتا تھا کہ سویڈن میں رہنے والے لوگوں کی زیادہ تر تعداد اداس و غیر مطمئن ہے یعنی کسی بے چینی کا شکار ہے۔ جبکہ ہرارے میں زیادہ مشکلات ہوں  گی لیکن وہاں کے لوگ بے چین کم تھے۔

دنیا کے بڑے دماغوں نے بھی خوشی یا غمی سے ہٹ کر کچھ اور کام کیے۔ میرا کہنا یہ ہیکہ وہ ہر چیز خام ہے جو سٹیج پہ پیش کی جا سکے ۔ باقی تمام علوم ہوں یا جذبات و احساسات ہم ان کی تفہیم کرتے ہیں جس کا آغاز پرسیپشن سے ہوتا ہے اور پرسیپشن کبھی حقیقت نہیں ہوتا۔

خیر۔۔

خوشی تو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے، یقیناً کسی شخص کے ہاں عید اور عید سے جڑے عقائد کے سبب خوشی جنم لیتی ہوگی ۔ میں ایک گنہگار سا مسلمان ہوں شاید میرے ایمان کی کمی ہے یا کیا ہے مجھے خوشی نہیں ہوتی ۔

عید پہ بہرحال ایک اکٹھ ہوتا تھا، اپنوں کا، جو کہ اب نہیں ہوتا، کئی اپنے منوں مٹی تلے ہیں ، کئی رزق کی تلاش میں پردیس کی قید میں ہیں۔

مجھے اس دن ان کی کمی ستاتی ہے، بچھڑنے والوں کی تعداد   ہر سال بڑھ رہی ہے ، ہر آئے دن اداسی کے اسباب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر آئے دن بے کلی بڑھ رہی ہے۔ خوشی کا چھلاوہ اب کبھی کبھار دکھتا ہے۔ تاہم زندگی تو کرنی ہے۔
کر رہے ہیں۔

بات چیت جاری رہے گی۔ وقت کٹتا رہے گا۔ اختر عثمان کے دو اشعار ہیں ان کا لطف لیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اک لفظ جس کی لَو میں دمکتا رہے دماغ
اک شعر جس کی گونج کہیں پیشتر نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے بھولے کوئی ہموار دماغ
ترے پامال کہاں بھولتے ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply