• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وفاقی بجٹ اور فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس ۔۔ محمد اسد شاہ

وفاقی بجٹ اور فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس ۔۔ محمد اسد شاہ

اندیشہ یہ تھا کہ بجٹ بنانا نئی حکومت کے لیے بہت بڑا امتحان ثابت ہو گا – نامعلوم سمتوں سے جس طرح سابق حکمران جماعت کے چیئرمین اور دیگر راہ نماؤں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جا رہا ، اور رعایتیں دی جا رہی ہیں ، ان سے تو یہ لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہر طرف سے گھیرنے اور ناکام کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہے – اتحادی جماعتوں کے حوصلے کو داد دینا چاہیے کہ بدترین معاشی حالات میں بھی ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کو تیار ہو گئیں – عمران کی پونے چار سالہ حکمرانی میں چار وزرائے خزانہ تبدیل ہوئے – اس کے آخری وزیر خزانہ شوکت ترین نے خود تسلیم کیا تھا کہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہے – حالیہ وفاقی بجٹ کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل سے گفت گو کرتے ہوئے موصوف نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی 75 سالہ کل تاریخ کا 76 فی صد قرض صرف عمران کے پونے چار سالہ دور میں لیا گیا – یاد رہے کہ یہ وہی عمران ہے جو قرض کو گالی بنا کے پیش کرتا اور بتایا کرتا تھا کہ ہر پاکستانی کتنے روپوں کا مقروض ہے – دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ہر شخص سو روپے کا مقروض ہے تو جنرل ایوب سے شاہد خاقان عباسی تک کے تمام وزرائے اعظم کا حصہ 24 روہے ، جب کہ اکیلے عمران کا حصہ 76 روپے ہے – دوسروں نے ملک کے لیے قرض لیا تو اس قرض کے مصارف بھی نظر آئے – جنرل محمد ایوب کے دور میں صنعتی ترقی ، اور میاں محمد نواز شریف کے ادوار میں صنعتی ، معاشی ، اقتصادی ، تعلیمی ، دفاعی ، توانائی ، سائنسی ، سیاحتی اور دیگر شعبوں میں جتنا کام ہوا ، وہ سب کو معلوم ہے – لیکن 76 فی صد قرض چڑھانے والے عمران کے دور میں فنکارانہ تقریروں اور ذاتی انتقام ، جیلوں ، ہتھ کڑیوں اور گالیوں کے سوا کوئی کام پی ٹی آئی ورکرز کے علاوہ کوئی نہیں جان سکا – 76 فی صد اضافی قرض وہ خوف ناک جرم ہے ، کہ خود عمران ہی کے آخری وزیر خزانہ اور موجودہ سینیٹر شوکت ترین نے جس کا اعتراف کیا ہے – ورنہ دیگر معاشی ماہرین تو اصل اضافہ 80 فی صد بتاتے ہیں – معروف ماہر معاشیات فرخ سلیم نے ایک نجی ٹی وی سے گفت گو کرتے ہوئے بتایا کہ عمران حکومت ختم ہوئی تو ملک کو 5000 ارب روپے کے خسارے کا سامنا تھا اور یہ کہ ان کی پوری زندگی میں اتنا زیادہ خسارہ کبھی سنا ہی نہ تھا – معاشی تجزیہ کار ماہ تاب حیدر نے بتایا کہ عمران حکومت نے پاکستان کی معاشی جڑوں میں بارودی سرنگیں بچھائیں – ان کا کہنا تھا کہ یہ بات انھوں نے خود عمران کے وزیر خزانہ شوکت ترین سے اس وقت کہی جب وہ حکومت میں تھے –

Advertisements
julia rana solicitors london

ان بدترین معاشی حالات میں اندیشہ تھا کہ شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی جماعتوں کی حکومت بجٹ میں عوام کے لیے شاید ہی کوئی آسانی فراہم کر سکے – بارودی سرنگیں بچھانے والی پی ٹی آئی بھرپور تیار تھی کہ جیسے ہی بجٹ پیش ہو ، وہ احتجاج کا شور مچا دے – لیکن اللّہ کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا – مخدوش ترین حالات میں نئی حکومت نے انتہائی متوازن اور عمدہ بجٹ پیش کر کے پاکستان کے بدخواہوں کے عزائم پر بظاہر مٹی ڈال دی ہے – حالیہ بجٹ میں ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ امیر طبقے پر ڈالا گیا اور عوام کو مزید ٹیکسز سے بچانے کی واضح کوشش نظر آئی ہے – ملک میں مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ملازمت پیشہ تنخواہ دار لوگ ہیں – قابلِ ٹیکس تنخواہ کی کم سے کم مقدار ماہانہ 50 ہزار کی بجائے ایک لاکھ روپیہ طے کی گئی ہے – اس سے ان لاکھوں سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی ملازمین کی جان میں جان ائی جو پجاس ، ساٹھ یا ستر ہزار روپے ماہانہ کمانے ، اور مہنگائی کی چکی میں پسنے کے باوجود انکم ٹیکس ادا کرنے پر بھی مجبور تھے – اس بجٹ میں اگلے مالی سال کی شرح نمو کا ہدف 5 فی صد ہے – جی ڈی پی کا ہدف 78.3 کھرب روپے ہے – اللّہ کے کرم سے اگر ایسا ہو سکے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی – اسی طرح فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لیے 7 ہزار 4 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے – بجلی کے شعبے کے لیے 73 ارب روپے مختص کر کے سولر پینلز کی درآمد اور ترسیل پر ٹیکس مکمل طور پر ختم کر دیا گیا – اس کا واضح مقصد یہی ہے کہ شہباز شریف حکومت ملک میں شمسی توانائی کے استعمال کو بڑھا کر ، اور توانائی کے دیگر وسائل پر انحصار کم سے کم کر کے ترقی کی راہیں ہموار کرنا چاہتی ہے – ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے 10 روہے مختص کیے گئے – زرعی مشینری ، ٹریکٹر ، اور گندم و چاول کے بہتر بیجوں کی پیداوار اور ان کی ترسیل پر ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے – خطرہ یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سابقہ حکومت کے معاہدے کی وجہ سے شاید تنخواہوں اور پنشنز میں اضافہ ناممکن ہو گا ، لیکن تنخواہوں میں 15 فی صد اور پنشنز میں 5 فی صد اضافہ کر کے عوام کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کر دیا گیا – اس پر مزید خوشی کی بات یہ کہ گزشتہ سالوں میں دیئے گئے ایڈہاک ریلیف کو بھی مستقل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے – ٹارگٹڈ سبسٹڈیز کے لیے 699 ارب روپے ، بے نظیر انکم سپورٹ کے لیے 364 ارب روپے ، جب کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی اور آٹے کی سبسڈی کے لیے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں – ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 65 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں – تعلیمی وظائف کا دائرہ سالانہ ایک کروڑ طلبہ تک بڑھانے کا فیصلہ یقیناً بہت بڑا اور شان دار فیصلہ ہے – کریڈٹ ، ڈیبٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے رقوم ملک سے باہر بھیجنے والے فائلرز سے 1 فی صد ، اور نان فائلرز سے 2 فی صد پیشگی ودہولڈنگ ٹیکس لیا جائے گا – پٹرول کی درآمد پر کسٹم کی بجائے ریگولیٹری ڈیوٹی ، جب کہ کاغذ کی درآمد پر 10 فی صد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے – فائبر کیبل پر ریگولیٹری ڈیوٹی 10 فی صد سے بڑھا کر 20 فی صد کر دی گئی ہے – مہنگے اور قیمتی موبائل فونز کی درآمد پر 100 روہے سے 16000 روہے تک لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے – مقامی سگریٹس پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے ، بین الاقوامی ہوائی ٹکٹس پر ٹیکس 10000 سے بڑھا کر 50000 روپے کرنے ، اور ٹیلی کمیونی کیشن سروسز پر ایکسائز ڈیوٹی 16 سے بڑھا کر 19.5 فی صد کرنے ، بینکوں پر ٹیکس 39 سے بڑھا کر 42 فی صد کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں – اسی طرح غیر فعال ٹیکس دہندگان کے لیے گاڑی کی خریداری پر ٹیکس 100 کی بجائے 200 فی صد کرنے کی تجویز دی گئی ہے –
بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے وہ ارکان موجود نہیں تھے جن کے استعفے پارٹی کی طرف سے بھجوائے گئے – وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بجٹ پیش کر رہے تھے تو عرصہ دراز کے بعد پرسکون ماحول نظر آیا – حکومتی و اپوزیشن ارکان اور گیلری میں بیٹھے مہمانوں نے بہت توجہ اور شائستگی کے ساتھ تمام نکات سنے – جو عوام ٹی وی کے ذریعے تقریر سن رہے تھے وہ بھی اس مثبت تبدیلی کو محسوس کر رہے تھے – کیا ہی اچھا ہو کہ پی ٹی آئی ارکان اگر اسمبلی میں واپس آئیں تب بھی شائستگی اور باہمی احترام کے یہ مناظر قائم رہیں – اسمبلیوں کے اندر ، اور ملک کے گلی کوچوں کے مناظر میں مزید بہتری آ سکتی ہے کہ اگر 8 سال سے مسلسل لٹکائے جانے والے فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس کا دیانت دارانہ ، منصفانہ ، غیر جانب دارانہ ، آزادانہ اور حقیقی فیصلہ فوری طور پر سنا دیا جائے – اس کے راستے میں حائل تمام ان دیکھی رکاوٹوں کو نظر انداز کر دیا جائے – پی ٹی آئی فارن فنڈنگ میگا کرپشن کیس کے فیصلے کو دوسری جماعتوں کے کیسز کے ساتھ نتھی کرنا بھی ایک لحاظ سے فیصلے کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا ہی ہے – یہ تو ایسا ہی دھوکا ہے کہ جیسے کوئی چور یہ مطالبہ کرے کہ ملک بھر میں زیر سماعت چوریوں کے تمام کیسز کا بیک وقت فیصلہ سنایا جائے یا پھر کوئی بھی فیصلہ نہ سنایا جائے – ایسا تو دنیا بھر میں کہیں ممکن ہی نہیں – 2017 میں وزیراعظم محمد نواز شریف کے خلاف روزانہ سماعت کر کے چند ماہ میں ہی فیصلہ سنا دیا گیا – انھوں نے تو ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply