چہرہ فروغ مے سے گلستاں(قسط1)۔۔فاخرہ نورین

اووووووع
آاوووووووع
آآآآاوووووع
اپنی طرف کے لان کے کنارے جھکے ہوئے مجھے مسلسل ابکائیاں آ رہی تھیں ۔ دارے کی سمت والے گھر کے مشرقی دروازے سے داخل ہوتے زبیر کا ذہن سوائے ایک طرف کے کہیں نہ گیا ۔اس نے غالباً عورتوں کو متلی ہونے کی کوئی دوسری وجہ دریافت نہیں کی تھی ۔وہ ایک سرخوشی کے عالم میں شرارتی نظروں سے مجھے دیکھتا چلا آیا ۔
اوہووووو بڑی الٹیاں ہو رہی ہیں ۔
نہیں نہیں اوووع
یہ بات نہیں ہے
پلیز اوووع
ایسا کچھ نہیں ۔ اوووع ۔میں نے اسے کوئی خوش گمانی پالنے سے بچانے کیلئے جلدی جلدی متلی زدہ جواب تیزی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے دینے کی کوشش کی ۔
یہ دیکھو ۔میں نے لان میں کچھ ہفتے پہلے لگائے گلاب کے پودے کے گرد حمائل اینٹوں کی گود میں اسے جھنکوایا۔ اس کی طبیعت کا تکدر ناک منہ ماتھے یہاں تک کہ آنکھوں تک آ گیا ۔
ایک ادھ کھلا پیمپر پوری آب و تاب سے اپنے اندر کھیلی گئی ہولی کا دیدارِ مشک بار کروا رہا تھا ۔
او کم آن یار تم ادھر کھڑی کھڑی اووع اوووع کیے جا رہی ہو اندر چلو ۔میں سمجھا پتہ نہیں کوئی خوش خبری ہے ۔
کاش ہوتی لیکن مجھے لگتا ہے میں لوگوں کے بچوں کے پیمپر خریدنے پر ہی مامور رہوں گی اور جواب میں میرے گلابوں کی کیاریوں میں دوسروں کے پھینکے بدبودار پیمپر ہی ملیں گے۔
میری مکدر طبیعت نے بھی مقدر کا گلہ کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ گنوایا۔
یار ایسا نہ کہو اللہ دے گا، ضرور دے گا اس کے در سے مایوس نہیں ہوں میں ۔ وہ مجھے تسلی دینے لگ گیا ۔ خدا سے میری لڑائی تو چونکہ ربع صدی سے زائد کا قصہ بن چکی ہے اور دن میں تین سو بار ہوتی ہے لہذا اسے اگلے موقع  پر اٹھا رکھا اور گھر کے دوسرے حصے سے آتی اس خاتون کی طرف متوجہ ہوئی جس کی امید کا پھل کمرے میں اور پھول میری کیاری میں کھلا بہار جاں فزاء  دکھلا رہا تھا ۔
یار جو مرضی کرلو پیمپر بازار سے ہی ملیں گے کیاری میں ان کے پودے کبھی نہیں اُگنے۔
میں نے حتی الامکان اسے شرم دلانے کی کوشش کی ۔ لیکن شرم اور شعور دونوں کی مصیبت ایک ہے یہ مشکل سے آتے ہیں ۔ اس کے چہرے پر قدرے ناگواری کا تاثر تھا جسے دباتے ہوئے اس نے مصالحتی جھوٹ بولا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

راتی ہنیرا سی تے پتہ نہیں چلیا میں باسکٹ وچ سٹیا سی ۔اس نےجائے وقوعہ سے پانچ میٹر دور اورکیاری کی نسبت اپنے کمرے کے قریب پڑی ڈسٹ بن کو الزامی نظروں سے دیکھا ۔
مہربانی کرو یار میں نے بڑی محبت سے اُگائے ہیں یہ پھول پودے، ان کو بخش دو۔ میں نے اپنے خوابوں پر غلاظت پھینکتی اس عورت کو بہت تحمل سے درخواست کی اور کمرے کی طرف چل پڑی۔وہ برے برے منہ بناتی پیمپر اٹھا کر اسے باسکٹ میں پھینکتی سستی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔ میں جانتی تھی کہ اس نے من ہی من میرا لاشہ پنکھے والے کنڈے سے الٹا لٹکا کر مجھے پانچ سو ستر کوڑے مارنے کے بعد اس پیمپر سے غلیظ گالیاں دی ہیں لیکن میں تو الٹیوں سے بھی پیشتر اسے الٹا لٹا کر ان لمیٹڈ درے مار کر اسے پھوہڑ پنے کی سزا دے چکی تھی سو اسے اس کے من کی کرنے دی اور خود ٹوتھ برش کر کے ابکائیوں کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔
جاری ہے

Facebook Comments