انسان بڑا یا پہاڑ ؟۔۔عارف انیس

ہم پہاڑ پر نہیں، اپنے اوپر چڑھتے ہیں، اپنے اندر کی گپھاؤں کو پھلانگتے ہیں، اپنے وجود کی کھائیوں میں لڑھکتے ہیں اور کہیں ہاتھ پڑ جائے، اور سانس بحال رہے تو پھر زندہ سلامت اتر آتے ہیں، یا پھر راستے میں روپوش ہوجاتے ہیں.
ڈوگلس میکارتھر نے کہا تھا کہ سپاہی مرتے نہیں ہیں، وہ بس روپوش ہوجاتے ہیں. میں یہ کوہ پیماؤں کے بارے میں کہتا ہوں. وہ ٹنوں برف  کے نیچے روپوش ہوتے ہیں، جو انہیں کئی سالوں تک تروتازہ رکھتی ہیں. وہ مر چکے ہوتے ہیں، مگر اپنے عشق میں زندہ ہوتے ہیں. عشق اور کوہ پیمائی کی نیورولوجی ایک ہوتی ہے.

زندگی میں ہر کسی کو کوئی نہ کوئی دیوار پھاندنی پڑتی ہے، کوئی نہ کوئی اپنے حصے کی چوٹی سر کرنی پڑتی ہے. اسے سر کرنے کی کوشش میں رستے میں مرنا پڑتا ہے. یا پھر اسی پہاڑ کے دامن میں قیام کرنا پڑتا ہے. دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک جو پہاڑ کی چوٹی پر رہتے ہیں، اور دوسرے جو اس کے دامن میں بستے ہیں. دونوں ہی اپنے حساب سے افضل ہیں، تاہم میں چوٹی پر پہنچنے یا اس راستے میں کھیت رہنے والوں کے ساتھ ہوں.

میں کوہ پیماؤں کا دیوانہ ہوں. ایورسٹ اور کےٹو سر کرنے والے کئی پاگلوں کے ساتھ ملا ہوں اور ان کے ساتھ گھنٹوں بحثیں کی ہیں، یہی جاننے کے لیے کہ کون سی اچ یا “کھرک” دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے لوگوں کو اکٹھا کرتی ہے، وہ ڈھیروں پیسے خرچ کرتے ہیں اور ایک طرح سے مرنے کی تیاری کرتے ہیں، اور یوں تو یہ ایک بالکل ان گلیمرس موت ہوتی ہے، مگر یہ ایک عاشق کی موت ہوتی ہے جو وصال سے پہلے یا وصال کے بعد مارا یا وصال کے دوران مارا جاتا ہے.

کوہ پیمائی کا نفسیاتی تجزیہ کریں تو نفسیات اس معاملے کو ڈیفنس میکانزم کے حوالے سے دیکھتی ہے. سگمنڈ فرائیڈ چونکہ ہر معاملے میں جنس کو دریافت کرنے کا قائل تھا، سو اسے پہاڑ پر چڑھنے یا اترنے، دونوں میں جنسی کشش دکھائی دیتی تھی. کوہ پیمائی چونکہ بنیادی طور پر خوف سے مبارزت کا نام ہے، سو ڈیفنس میکانزم یہ بتاتا ہے کہ جو لوگ اندر سے خوف کا تجربہ رکھتے ہوں اور اس پر غالب آنا چاہتے ہیں، وہ ایکسٹریم سپورٹس یا کوہ پیمائی کا شوق پال لیتے ہیں.

یاد رکھیں، خاص طور پر سات سے نو سال کی عمر تک پہنچنے تک انسانی بچہ طرح طرح کے خوف سے نبرد آزما ہوتا ہے. بے بسی، سزا اور جزا، جانوروں اور اتھارٹی فگرز کا خوف، جسمانی کمی اور کمزوری، ان سب سےجڑے بھوت اس کے چار چپھیرے رقص کرتے ہیں. اس خوف سے نمٹنے کے لئے انسان مختلف طریقے اختیار کرتا ہے. یا تو خوف دلانے والی کیفیات سے فرار حاصل کیا جاتا ہے تاکہ ایسی نوبت ہی نہ آنے پائے، یا پھر خوف کے دروازے کے پیچھے جھانکا جاتا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی جاتی ہیں. جب کبھی بھی ہم اپنے ڈر پر غالب آتے ہیں، دماغ کے اندر سے ڈوپامین، ایڈرینالین، اینڈورفن کا اخراج ہوتا ہے جو سب مستی والے برین جوس ہیں اور بندہ ان کا ایڈکٹ بھی ہوجاتا ہے. فرائڈ کے مرید یہ بتاتے ہیں کہ اگر بچپن کے خوف اور ٹراما کو نہ نمٹایا جائے تو پھر یا تو بندہ پوری زندگی “یرکا” رہتا ہے، یا پھر اس کی دوسری انتہا “خودکشیانہ” عمل میں ملوث ہوجاتا ہے. اس کو تکنیکی زبان میں “کاؤنٹر فوبیا” کہا جاتا ہے.

ماہرین نفسیات اس وجہ سے کوہ پیماؤں میں دو طرح کے رویے دریافت کرتے ہیں. یا تو وہ خطرے کو بالکل دیکھنے سے انکاری ہوجاتے ہیں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں. یا پھر اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے لگ جاتے ہیں اور مبالغہ آرائی میں مبتلا ہوجاتے ہیں. کاؤنٹر فوبیا کی وجہ سے خراب موسم میں نکل پڑنا، اوزاروں کی خرابی کو نظر انداز کرنا اور تقریباً خودکشی پر اتر آنا وہ مثالیں ہیں جو ہمیں کے ٹو ونٹر کلائمب کے حالیہ سانحے میں نظر آتی ہیں.

یوٹیلیٹی تھیوری کی رو سے اکثر لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اس کام میں جان کیوں کھپائی جائے کیونکہ کوہ پیمائی دوسرے ایکسٹریم سپورٹس سے کافی حد تک مختلف اور زیادہ خطرناک ہے. مگر یوٹیلیٹی تھیوری عاشقوں کے لیے کب بنی ہے؟ شدید ٹھنڈ، جسم کے مختلف حصے اور انگلیاں وغیرہ گل جانے کا خوف، تھکن کے مارے سانس بند ہوجانا، برف کی وجہ سے بینائی کھو بیٹھنا، سن برن، ہائپوکسیا کی وجہ سے دماغی اوسان خطا ہوجانا، بھوک اور نیند کا زائل ہوجانا، ان میں سے چند ایک ہیں. اکثر پڑھنے والے ان مصائب کا اندازہ نہیں کرسکتے. یہ ایسے ہی ہے کہ اگر پیٹ بھرا ہوا تو بھوک والی فیلنگ سجھائی نہیں دیتی، یا بندہ ہیٹر کے سامنے بیٹھا ہو تو وہ مائنس 40 پر ہوا کی کاٹ کا اندازہ نہیں کرسکتا. اس طرح وہ ترنگ جو چوٹی کو سامنے دیکھ کر کوہ پیما کے اندر دھمال ڈالتی ہے، اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا.

میری امریکی کوہ پیما دوست وینیسا اوبرائن، جو کے ٹو سر کرنے والی پہلی امریکی اور برطانوی خاتون بنی، چار ورلڈ ریکارڈز قائم کیے اور دنیا میں واحد فرد ہے جو دنیا کے سب سے اونچے مقام( ایورسٹ) اور سب سے نچلے مقام( میریانہ ٹرنچ)پر جاچکی ہے کچھ اور طرح کی داستان سناتی ہے. اس کے بقول برفوں میں جاں گسل تنہائی بھی مارتی ہے. گو کہ وہاں پورٹر ہوتے ہیں اور کوہ پیما ایک دوسرے کے ساتھ زنجیر میں منسلک ہوتے ہیں، مگر ذہنی طور پر شدید اکیلے ہوتے ہیں. جیسے اونچائی بڑھتی جاتی ہے، تنہائی اتنی ہی جان لیوا ہوجاتی ہے. بعض اوقات برفیلے سناٹوں میں انہیں اپنے خیالات بولتے ہوئے سنائی دیتے ہیں اور پاگل پن جیسی کیفیات بھی حملہ آور ہوجاتی ہیں.

یہ سب ڈراؤنی خبریں اپنی جگہ مگر کوہ پیمائی ضروری ہے. یہ تو ہمیں پتہ ہے کہ پہاڑ انسان سے بڑا ہے، مگر انسان کو پہاڑ سے بڑا ثابت کرنے کے لیے خوف کے وہ زینے چڑھنے پڑتے ہیں جو لاکھوں میں سے کسی ایک کا کام ہے. یہی وہ پاگل پن تھا جو غاروں میں رہنے والے انسان کو کشاں کشاں اکیسویں صدی میں لے آیا ہے. ہاں برف زاروں کا عشق ہر ایک کے لیے نہیں ہے. یہ انہی کا کام ہے، جن کے حوصلے ہیں زیاد.

الپائنسٹ میں چھپنے والے انٹرویو میں صدپارہ نے کھل کر کہا تھا “کوہ پیمائی میں دو ہی چیزیں سامنے ہوتی ہیں، زندگی یا موت. کوئی تیسری چیز نہیں ہوتی”. صدپارہ یوں بھی ہمارے دل میں اتر گیا کہ وہ یورپین کوہ پیماؤں کی طرح لاکھوں ڈالرز خرچ نہیں کرسکتا تھا، مگر کچھ گزارے والے سامان کے ساتھ جگاڑ لگا کر وہ دنیا کے مشکل ترین سفر پر نکل گیا تھا. اور ایسی ہی ہمت بے مہر موسموں میں ہم پاکستانیوں کا کل اثاثہ ہے. کروڑوں افراد دست بدعا ہیں مگر لگتا ہے کہ برف زار ایک دفعہ پھر جیت گیا ہے اور محمد علی صدپارہ، جان سنوری اور پابلو اپنی معشوق شاہ گوری کے وجودِ کا حصہ بن چکے ہیں. مگر اپنا عشق جینے اور جیتنے کے دوران مارے جانے سے اچھی موت کیا ہوسکتی ہے؟ گو کہ عشق میں جینا، مرنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم پاکستانیوں کو صدپارہ کے سانحے نے پارہ پارہ کردیا کیونکہ ہم بھی اس کے ساتھ شاہ گوری کے عشق میں گرفتار ہوچکے تھے،مگر ہماری محبت کی اکثر کہانیوں کی طرح عاشق رستے میں مارا گیا، اور یہ چیز ہمیں نمناک کرتی ہے، اگر وہ عشق میں مارا گیا (اللہ کرے ابھی بھی کوئی اچھی خبر آ نکلے) ، سو وہ ناکام نہیں مارا گیا، یہی چیز اسے ہمارا ہیرو بناتی ہے. صدپارہ کی زندگی رائیگاں نہیں گئی اگر ہم پاکستانی اس عشرے میں اپنے اپنے پہاڑ کو پھلانگنے کے لیے تیار ہوجائیں.
فیض نے کیا خوب کہا تھا :
ہم نے دیکھا ہے، لوگوں کو پی کر، جی کر اور پھر مرتے
جو نہیں پیتے،کس نے دیکھا ہے،موت کو ان سے درگزر کرتے

Facebook Comments