بیوی یا زوجیت۔۔عدنان حیدر

رشتہ زوجیت کے بارے میں معاشرے کے رائج نظریات اتنے خراب ہیں کہ آج تک یہ موضوع کسی محفل کا حصہ نہیں بن سکا۔ عام طور پر لفظ شادی کا دوسرا مطلب جنسی خواہشات کی تکمیل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جاتا ہے کہ جو زیادہ شادیاں کرتا ہے، اس میں ہوس پرستی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے ہر خاص و عام اس موضوع پر لب کشائی نہیں کرتا کہ کہیں ان کو معاشرے میں بے حیا تصور نہ کیا جائے اور معاشرے کے بدکار افراد اس موضوع پر فقط لفظی لذت حاصل کرنے کے لیے گفتگو کرتے ہیں۔ جب کہ شادی ایک روحانی موضوع ہے۔ شادی نہ صرف جنسی تسکین کا ذریعہ ہے بلکہ ایک انسان کے تحفظ دین کی ضمانت ہے اور اس کی تمام تر ضروریات کا محور و مرکز ہے۔ اگر صدر اسلام کے فرامین پر روشنی ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شادی کرنا گویا اسلام کی خدمت کرنا ہے، کیونکہ ایک شادی شدہ شخص کی نماز کو ایک ولی کی نماز کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔

بدقسمتی سے موجودہ معاشرے میں شادی کو جنسی ہوس کا ہی ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے شادی کرنے والے شخص کے دل میں شادی کرنے سے پہلے بہت سے مفادات بھی نظر آتے ہیں۔ جو شہوت زدہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ حسن و جمال اور دولت مندی تو شرط اول ہے۔ اس کے بعد لڑکا اور لڑکی کی عمر دیکھی جاتی ہے۔ باقی معاشرے میں رائج رسومات کا آپ سب کو بخوبی علم ہے، حالانکہ یہ تمام باتیں صدر اسلام اور اسلام کے خلاف نظر آتی ہیں، کیونکہ ہمارے رسول نے جتنی بھی شادیاں کیں، ان میں ایسی کوئی چیز بھی نظر نہیں آتی، جو آج کے ماحول میں شادیوں کا محور و مرکز بن گئیں ہیں۔ بدقسمتی سے ان غلط اقدار کو اسلام کے روحانی اقدار کے ساتھ غلط ملط کیا جا رہا ہے اور شادیوں کو نفس کی تسکین تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔

ذیل میں تمام ادوار میں عقد رسالت کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد اس موضوع پر سیرت رسالت سے رہنمائی لینا ہے۔ جو بندہ ناچیز کے لیے ناممکن ہے، لیکن بہرحال کوشش انسانی فطرت کا ارتقائی عمل ہے۔
حضرت خدیجہ ؓ
عام حالات میں کوئی بھی نوجوان جو عین حالت شباب میں ہو، چالیس سالہ عورت سے شادی نہیں کرتا مگر حضورؐ کی شادی 25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ سے اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں عمر اور لڑکی کا حسن کوئی معیار نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت خدیجہ نے بھی آپ کو پیغام نکاح آپ کے حسن و شباب کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی دیانت داری کی وجہ سے دیا۔ جب تک حضرت خدیجہؓ زندہ رہیں، حضور نے دوسری شادی نہیں کی۔

سودا بنت زمعہؓ
یہ خاتون سکران بن عمرو بن عبد شمس کی زوجہ تھیں اور ابتدائی دور میں اسلام لائیں۔ مکہ میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے شوہر کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی، وہیں پر شوہر کا انتقال ہوا، اب مسئلہ تھا کہ سودا واپس اپنے قبیلے میں جاتی تو وہاں سب مشرک تھے اور بیگانے وطن میں رہ بھی نہیں سکتی تھیں۔ اس لیے حضور ؐ نے واپس بلا کر ان سے نکاح کر لیا اور آپ کو رسالت مآب جیسا شریک حیات نصیب ہوا۔ تاریخ میں سودا کے کسی حسن و جمال اور مال و منال کا تذکرہ نہیں، البتہ لاوارثی کا تذکرہ ضرور ملتا ہے۔

زینب بنت خزیمہ ؓ
ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں۔ غریبوں کی بہت زیادہ مدد کیا کرتی تھیں، ان کے شوہر عبداللہ بن جحش جنگ احد میں مارے گئے تو حضورؐ نے آپ سے عقد کرلیا، تاکہ آپ کو بے کسی اور لاوارثی کا احساس نہ ہو۔
ام سلمہ ہند ؓ
یہ عبداللہ ابو مسلمہ کی زوجہ تھیں، تاریخ میں آپ کی کافی اولاد کا تذکرہ ہے، بیوہ ہونے کے بعد حضور نے آپ سے عقد کر لیا، جس کا مقصد شوہر کی قربانیوں کی قدر دانی اور ام سلمہؓ کی اولاد کو یتیمی سے بچانا تھا۔

صفیہ بنت حُی بن اخطبؓ
آپ کے شوہر خیبر میں قتل ہوگئے تو آپ کنیز بن کر آئیں تو حضورؐ نے آپ کو آزاد کرکے نکاح کر لیا، جہاں سے اسلام میں کنیزوں کے ساتھ بہترین برتاؤ کی ایک مثال قائم ہوئی۔
جویریہ بنت الحارثؓ
یہ جنگ بنی المصطلق کے گرفتار شدگان میں سے تھیں اور آپ کے ساتھ دو سو قیدی بھی تھے۔ رسالت مآب نے آپ کو آزاد کرکے آپ سے نکاح کرلیا اور باقی دو سو قیدیوں کو بھی آزاد کر دیا گیا۔

میمونہ بنت حارث الہلالیہؓ
شوہر کے انتقال کے بعد آپ نے حضور سے عقد کر لیا اور خود کو حضرت محمدؐ کے سپرد کر دیا۔
ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیانؓ
یہ عبداللہ بن جحش کی زوجہ تھیں، ان کے ساتھ حبشہ ہجرت میں شریک ہوئیں۔ شوہر وہاں کے حالات دیکھ کر عیسائی ہوگیا۔ حضور نے ان کو واپس بلا کر ان سے عقد کرلیا، کیونکہ ان کے لیے ابوسفیان جیسے باپ کے گھر میں واپس جانا ممکن نہیں تھا۔
حفصہ بنت عمرؓ
ان کا شوہر خیس بن حذاقہ جنگ بدر میں مارا گیا تو آپؐ نے ان سے عقد کر لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عائشہ بنت ابی بکرؓ
مشہور روایات کی بنا پر کنواری خاتون تھیں، اہل اسلام نے حضرت عائشہؓ کے حسن و جمال کی وہ تعریفیں بیان کی ہیں کہ لوگ رسالت مآب پر اعتراض کر رہے ہیں، جو آج بھی قابل افسوس پہلو ہے۔ کاش مورخین اسلام نے اس نازک پہلو کا احساس کیا ہوتا اور جوشِ عقیدت میں اتنی باتیں نہ کی ہوتیں، جن سے رسالت مآب پر کوئی انگلی اٹھاتا۔ حرف آخر آج بھی معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور اپنی تہذیب بچائی جاسکتی ہے، بس سیرت رسالت پر پیروی کی ضرورت ہے، اس لئے خدا قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو آو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بیوی یا زوجیت۔۔عدنان حیدر

Leave a Reply