مسئلہ کشمیر رہا وہیں کا وہیں ۔۔ خنساء سعید

1947 میں دو قومی نظریے کو بنیاد بنا کرہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں نئے ملک پاکستان اور بھارت وجود میں آئے ،اور کشمیر پاکستان کے حصے میں آیا ۔مگر دہشت گرد بھارت نے نا حق کشمیر پر قبضہ کر لیا اور وہاں سے ہی مسئلہ کشمیر کا آغاز ہوا جو آج تک حل نہ ہو سکا اور آج بھی بھارت کشمیر پر قابض بن کر بیٹھا ہے ۔سرسبز مخملی گھاس کی وادیوں ،بلند و بالا برفیلے پہاڑوں ،باغوں ،بہاروں ،گنگناتی آبشاروں ،لمبے لمبے درختوں کی چھاؤں ،چہچہاتے پرندوں ،لہلہاتے سبزہ زاروں ،شبنم کے قطروں ،پھولوں ،کلیوں،ناگن کی طرح بل کھانے والے برفانی اور ٹھنڈے دریاؤں ،میٹھے چشموں ،نیلی جھیلوں اور اٹھکھیلیاں کرنے والی ہواؤں کی سر زمین کو کشمیر کہتے ہیں ۔وہ کشمیر جسے قدرت کا ایک لاثانی شاہکار ،جنت نظیر اور مجسمہ حسن کہا جاتا تھا آج وہاں آگ ہی آگ اور خون ہی خون نظر آتا ہے ۔ارض کشمیر کے فردوس نظیر خطے میں جتنی رونقیں تھیں سب لہو رنگ ہوئیں ۔اس وادی میں جو دلوں کو لبھانے والی ہوئیں چلا کرتیں تھیں انسانوں کو جھلسانے لگیں ،خوشبوئیں بھاپ بنیں ،چناروں کی وادی جہنم کا نشاں بنی ،پھول سے بچوں کے جسم راکھ ہوئے ،جنت نظیر کشمیر آگ ہوا ۔

خلیل جبران نے کہا تھا کہ زندگی آزادی کے بغیر روح سے محروم وجود کی طرح ہوتی ہے ۔آزادی کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ایک عرصے سے تن و تنہا نہتے کشمیری اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے اکیلے جنگ لڑ رہے ہیں ۔کشمیر کے آتش بجاں پروانے ہر وقت شمع آزادی پر نثار ہونے کے لئے تیار ہیں ۔چنانچہ پہلے دن سے ہی کشمیریوں نے زنداں کی دردیوار سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے ہاتھوں میں پتھر تھامے سڑکوں پر آزادی کی خاطر لڑنے لگے۔1947 سے لے کر آج تک وہ کون سا ظلم ہے جو کشمیریوں پر نہ ڈھایا گیا ہو، بھارتی دہشت گردوں نے ہر روز ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی۔ جب مودی کی حکومت آئی تو مودی اور اُس کے وحشی ،درندے حواری مظلوم ،معصوم ،محکوم کشمیریوں پر چڑھ دوڑے اور بھیڑیوں کی طرح اُن کوچیر نے پھاڑ نے لگے ۔مقبوضہ کشمیر اب اس زمین کا وہ خطہ بن گیا ہے جہاں ہر روز ہر لمحے انسانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے بھارتی افواج کا ہر نئے دن درندگی کا ایک نیا روپ سامنے آتا ہے ۔بھارت سیکولرازم اور جمہوریت کا لباس پہنے وحشت اور بربریت کا کھیل کھیلتا جا رہا ہے اور باقی ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔م

ودی نے اگست 2019میں کشمیر میں کرفیولگا کر یہ ثابت کر دیا کہ مودی ایک آدم خور ہے جو انسانوں کو کھا جاتا ہے ۔آج ڈیڑھ سال گزرجانے کے بعد بھی کشمیر میں کرفیو بدستور لگا ہوا ہے ۔مودی نے کشمیر میں ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائی ،مارکیٹیں بند ،سکول بند، ہسپتال بند ،یونیورسٹیاں بند ،انٹرنیٹ بند کر کے کشمیریوں کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کر دیا ۔ایک لمحے کو سوچیں کہ جب کورونا وائرس کی وبا میں ہمارے ہاں کرفیو لگا تو ہماری کیا حالت ہو گئی تھی ؟اور کشمیریوں کے شب و روز کرفیو میں کیسے گرزتے ہوں گے؟

مودی نے دفعہ 370 کو منسوخ کیا اور ساتھ ہی ریاست میں گرفتاریوں کے سلسلے شروع ہو گئے۔ بھارتی درندوں نے کشمیریوں پر ہر طرح کی بندشیں عائد کر کے سیاسی سرگرمیوں کا گلا گھونٹ دیاعوامی مزاحمت کو توڑنے کے لیے سخت گیر اقدامات کیے ۔تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اُس میں کشمیری عوام کی ہمت اور جرات کو ضرور داد دی جائے گی کس طرح سے وہ پہلے دن سے لےکر اب تک نہتے پتھروں  اور  ڈنڈوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہے کشمیریوں نے کرفیو میں بھی ہار نہیں مانی وہ مظلوم و محکوم ضرور ہیں مگر ابھی ہارے نہیں ہیں ،کشمیری قوم دلیر اور باہمت قوم ہے

اس ڈیڑھ سال کے کرفیو کے دوران اب کشمیر کی کوئی ایسی وادی کوئی ایساکوہ و  دمن باقی نہیں بچا جہاں خون ِ معصوم کے دھارے نہ بہے ہوں اور آج کے بعد جو بھی گل و لالہ یہاں پھوٹیں گے وہ خون شہیداں کی سرخی کے ہی مرہون ِ منت ہو ں گے۔ کشمیر کے کتنے ہی درودیوار جل کر سیاہ ہو چکے ہیں ،کتنی تمناؤں نے دم توڑ دیا ،کتنی آرزوئیں خاک ہو گئیں ،کتنے ہی ایسے جسد ِ خاکی ہیں جو آج سینکڑوں من مٹی کے نیچے روزِ حساب تک کے لیے روپوش ہو چکے ہیں کہ اب جلاد کے بے رحم ہاتھ اُن کو کبھی ڈھونڈ نہیں پائیں گے ۔کتنے کشمیری ایسے ہیں جن کے پاس بندوقیں نہیں دشمن کی گولیاں روکنےکے لیے سینے پیش کر دیتے ہیں ۔کشمیری شہید ہو رہے ہیں اور تہذیب و تمدن کے دعویدار ،فکر و نظر کے علمبردار ،سرمایہ دار خاموش ہیں ۔آج کہاں گئی ہے اقوام متحدہ اور کہاں گیا وہ شملہ معاہدہ ۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار کو کشمیر کی جلتی ہوئی وادی میں بہتے خون کا شورکیوں سنائی نہیں دیتا ہےمسئلہ کشمیر کو سلجھانے میں بے حسی کی ساری حدیں پار کر دیں گئی ہیں ۔ماؤں کے سامنے بیٹے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں اور بھائیوں کے سامنے بہنوں کی ردائیں تار تار کی جاتی ہیں انسان سراپا احتجاج ہیں اور عزت و عصمت کے آبگینے چور چور ہو رہے ہیں ۔یہ سب مظالم دیکھ کر اقوام متحدہ کا ادارہ چراغ پا نہیں ہوتا ہے نہ ہی عالمی انسانیت کونسل کی رگ انسانیت پھڑکتی ہے اور نہ ہی عالمی عدالتیں کوئی انصاف کا فیصلہ سناتی ہیں، کیوں ؟کیوں کہ یہ بہتا ہوا خون مسلمانوں کا ہے ۔یہ ہی ادارے افریقہ کے قحط زدگان پر لکھتے ہیں ،امریکہ کے معاشرتی مسائل ان کی بحث کا موضوع بنتے ہیں ،گوری اقلیت کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں ،کالوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ،جنگلوں میں لگی آگ میں جانور جل جائیں تو ان کا دل تڑپ اُٹھتا ہے اور کشمیر کی وادی میں جلتے انسان ان کو بے چین نہیں کرتے ۔کشمیر کا خطہ ان کی جیورس ڈکشن میں آتا ہی نہیں اگر آتا ہوتا تو کشمیر کو کشمیر کی آزادی مل جاتی ۔

اگر ہم اپنی بات کریں تو ہم کہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ ہے ۔ہم نے اپنی شہ رگ کی خاطر کیا کیا !ہماری آنے والی ہر حکومت نے مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کی ناکام کوشش کی۔ہماری ہر حکومت نے صرف زبان سے بلند و بانگ دعوے کیے مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کیا ۔

ہم ہر سال 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر پر ایک گانا ریلیز کرتے ہیں سیاست دان اپنے سیاسی نظریات عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں کالم نگار کالم لکھ دیتے ہیں شاعر لوگ شاعری کر دیتے ہیں کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ملک بھر میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں اور مقررین جوشیلی تقریریں کر تےہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر آزاد ہو گیا ۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا مسئلہ کشمیر تقریروں اور تحریروں سے حل ہو جائے گا ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالی ہمارے کشمیری بھائی بہنوں کی مدد فرمائے اور اُن کو آزادی کا روشن سویرا دیکھنا نصیب ہو آمین ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply