پنجاب دھرتی کی پکار(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔حسن رانا

حصہ سوم:
جو بھلے مانس بھولے دوست کہتے ہیں کہ جی یہ وجوہات ہیں پنجاب دھرتی کو توڑ کر نیا صوبہ بنانے کی: ایک، غربت و مسائل، دوم آبادی کے تناسب سے جنوبی اضلاع کو ماضی میں فنڈز نہ ملنا، سوم، دور دراز سے کبھی کبھار لاہور جانا سرکاری کام کروانے، چہارم، ملتان کسی زمانے میں علیحدہ صوبہ و سلطنت تھی، پانچویں وجہ زیادہ آبادی، چھٹی وجہ لسانی۔

پہلی وجہ ان علاقوں کے غربت و مسائل کے ذمہ دار یہ ہی جنوب کے جاگیردار سیاستدان ہیں، تو کیا ان کے حوالے کرنا ہے  نیا صوبہ؟

دوسرا، فنڈز نہ ملنا، اوّل تو یہ بات بھی حقیقت کی بجاۓ پروپیگنڈا زیادہ ہے کہ پنجاب کے جنوب کے ڈویژنز کو آبادی کے مطابق فنڈز نہیں ملے، اگر میٹرو لاہور میں بنی تو شمال کے راولپنڈی اور جنوب کے ملتان میں بھی بنی، موٹرویز و نیشنل ہائی  ویز جنوبی پنجاب سے بھی گزرتی ہیں، ملتان بہاولپور ڈیرہ غازی خان میں انجینئرنگ یونیورسٹیز ہیں، میڈیکل کالجز ہیں، راجن پور اور مظفرگڑھ کے ہسپتالوں اور ملتان و بہاولپور کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں دوسرے صوبوں تک سے طلبہ و مریض آتے ہیں، نیز پنجاب کے جنوبی اضلاع کا موازنہ ملحقہ صوبوں سندھ و بلوچستان کے پنجاب سے ملحقہ اضلاع سے کرکے دیکھ لیں، ہر لحاظ سے پنجاب کے اضلاع بہتر ملیں گے، حالانکہ وفاق کی طرف سے پنجاب کو آبادی کے مطابق فنڈز نہیں دیے جاتے جو پنجاب کا حق ہے، اس کے باوجود پنجاب کے جنوب پر صوبائی  حکومتوں کی طرف سے آبادی کے مطابق بلکہ کچھ جگہ آبادی کے فارمولے سے بھی زیادہ فنڈز دیے گئے ، اگر ان فراہم کیے گئے   پیسوں میں کرپشن ہوئی تو اس کے ذمہ دار بھی ان اضلاع کے ممبران اسمبلی تھے، لغاری، ہراج، کھر، قریشی، گیلانی، بزدار، دریشک، مزاری، ترین، بوسن، خاکوانی خاندان ہمیشہ سے مختلف حکومتوں کا حصہ رہے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے، اس کے علاوہ یہ بات بھی اہمیت والی ہے کہ مختلف علاقوں میں پیسہ لگانے کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے، یعنی اگر ایک مکمل شہری علاقہ ہے تو وہاں پیسہ مختلف طریقے سے لگتا ہے اور دیہاتی علاقے یا نیم دیہاتی علاقے میں مختلف طریقے سے، یعنی اگر کسی علاقے کے لیے مختص بجٹ کو کسی سڑک پر لگانے کی بجائے وہاں کے کسانوں میں بطور امداد تقسیم کردیا جائے یا وہاں کی ذراعت کے شعبے پر وہ پیسہ لگادیا جائے اور سڑک پر لگا ہوا نظر نہ آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہاں پیسہ لگا نہیں، اس علاقے میں ۔۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں پیسہ لگانے کا طریقہ و نوعیت مختلف ہے۔ لیکن چلیں اب اگر کچھ دیر کو فرض کرلیں کہ کچھ علاقوں کو پورے فنڈز نہیں ملے تو اب تو میانوالی اور ڈی جی خان کے افراد وزیراعظم و وزیراعلیٰ  ہیں، اب کون روک رہا ہے آبادی کے تناسب سے فنڈز کا اجراء، ماضی میں بھی جنوب کے سیاستدان وزیراعظم صدر اور وفاقی و صوبائ وزراء تھے۔

تیسرا، لاہور جانا، تو سرکار کتنی بار زندگی میں آپ لوگوں کو سرکاری کام کی خاطر لاہور جانا پڑا، زیادہ کام تو اپنے ہی ضلع یا پھر ڈویژن کے اندر ہوجاتے ہیں چاہے شناختی و دیگر سرکاری کاغذات بنوانے ہوں یا لائسنس و اجازت نامے وغیرہ یا رجسٹریاں وغیرہ، اب تو بلکہ سرکاری آرڈرز بھی متعلقہ ڈویژنل سربراہ وہیں سے نکلوا سکتا ہے، متعلقہ سیکرٹری سے کمپیوٹر سے آنلائن اور نکلوا رہے ہیں، تو چلیں اس  مفروضے والی  وجہ کے مطابق بھی اب پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان سے وزیراعلیٰ  ہے تو اسے چاہیے کہ صرف ایک سیکرٹریٹ بنانے کی بجائے  پنجاب کے ہر ضلع بلکہ تحصیل کی سطح پر ایسا انتظامی کمپیوٹرائزڈ یا دستاویزی نظام بنادے صوبے کے اندر رہتے ہوئے  کہ سارے پنجاب کی تمام تحصیلوں کے افراد کے سرکاری کام ان کی اپنی تحصیل میں ہی سرکاری دفتر سے ہوجایا کریں اور ضلع و ڈویژن تک بھی نہ جانا پڑے۔

چوتھی  وجہ  کہ ملتان بھی کبھی صوبہ و سلطنت تھا، تو سرکار جس زمانے میں ملتان  سلطنت تھا پھر اس زمانے کی باقی سلطنتوں اور صوبوں کے مطابق باقی علاقوں  اور صوبوں کو بھی اسی حالت میں بحال کردیں۔

اور جس زمانے کے ملتان کا یہ ذکر کرتے ہیں اس وقت یہ پنجاب دیس ہی تھا جس کے مختلف ریجنز ہوا کرتے تھے ملتان، لاہور، کشمیر، پشاور، کابل کے نام سے۔
پنجابی صوفی شاعروں بشمول خواجہ غلام فرید کے کلام میں اسی پنجاب دیس اور اس کے ریجنز کا ذکر ملتا ہے۔ اور ان شاعروں نے ان سب علاقوں کی زبان کے مختلف لہجوں کو پنجابی ہی کہا ہے۔
جب پنجاب کے شہر ملتان کی اہمیت و اثر زیادہ تھا تب ملتان حاوی تھا، جب لاہور کی اہمیت و اثر بڑھ گیا تو لاہور حاوی ہوگیا۔
لہذا تعصب کا نشانہ صرف پنجاب ہے، باقی سب سراب ہے۔

خاص کر جنوب کے کسان سے سوال ہے کہ ان کی فصل کو مشکل میں ڈالنے والا جہانگیر خان ترین پنجاب کے جنوب سے ہے یا وسط سے۔
آبادی وجہ ہے تو چائنہ اور بھارت کے کئ صوبوں کی آبادیاں پنجاب سے بہت زیادہ ہیں۔ فرانس بھی اپنے صوبوں کی تعداد کم کرچکا ہے تاکہ خرچہ بچے۔
سرائیکی لہجہ خود پنجاب میں ساٹھ کی دہائی  میں ایجاد کیا جانے والا نام ہے جو شمالی سندھ کے سرائیکی لہجے سے لیکر پنجابی زبان کے تین لہجوں کو دیا گیا، ملتانی، ریاستی اور ڈیرہ والی۔ اور جنرل ضیاء نے اسے علیحدہ زبان قرار دیا۔ اور لسانی وجہ میں بھی سرائیکی قوم پرست افراد زبردستی  پنجابی زبان کے جٹکی، رچنا اور دیگر پنجابی لہجوں کو بھی سرائیکی کہہ کر اپنی تعداد آٹھ سے دس کروڑ بناتے رہتے ہیں۔ حالانکہ جٹکی، رچنا اور باقی لہجوں والے افراد اعلانیہ خود کو پنجابی کہتے ہیں۔ سرائیکی کا نام تین لہجوں ملتانی، ریاستی اور ڈیرہ والی کو دیا گیا ساٹھ کی دہائی  میں جسے جنرل ضیاء نے سرکاری کاغذات میں علیحدہ زبان قرار دیا۔

مردم شماری میں پورے پاکستان میں ڈھائی  کروڑ کے قریب افراد نے خود کو سرائیکی لکھا، لیکن سرائیکی قوم پرست افراد زبردستی پنجابی جٹکیوں، رچناویوں اور دیگر پنجابی لہجوں والے افراد کو سرائیکی کہہ کر اپنی تعداد صرف پنجاب میں آٹھ کروڑ بنائ پھرتے ہیں ۔

سرائیکی لہجہ تو پھر شمالی سندھ، جنوبی خیبرپختونخوا  اور مشرقی بلوچستان میں بھی بولا جاتا ہے تو پھر وہاں سرائیکی صوبہ کیوں نہیں بناتے، اس کی وجہ میں بتادیتا ہوں، کیونکہ باقی صوبوں میں بلوچی قوم پرستی، سندھی قوم پرستی اور پشتون قوم پرستی مضبوط ہے، سندھ میں سندھی قوم پرست افراد اور صوبائی  حکومت کی جانب سے سرائیکیوں کا جینا مشکل کردیا جائے گا ۔اگر وہاں علیحدہ صوبے کی بات کی، بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشت گرد گروپس قتل کرنا شروع کردیں گے سرائیکیوں کو اگر وہاں علیحدہ صوبے کی بات کی، اس لیے بس  پنجاب کو یتیم سمجھ کر ہر کوئی  مندر کے گھنٹے کی طرح بجاتا رہتا ہے۔

انتظامی بنیادوں پر بھی ہم اکیلے پنجاب کی تقسیم کیسے قبول کرلیں۔
جبکہ باقی صوبوں کا رقبہ بڑھایا جارہا ہے۔
یا تو چاروں صوبوں کو ایک ساتھ برابر اسی شرح سے تقسیم کیا جائے۔ فاٹا کو پہلے سے علیحدہ شمار کرکے۔
اصل گیم یہ ہورہی ہے ہے انڈس ویلی یا ہڑپا کے دیس پر بیرونی یلغار ہے، اصل تہذیبی شاخیں سندھی، براہوی و جاتکی، کشمیری اور پنجابی تھیں اس دیس کی، جن میں سے براہوی و جاتکی پر ایرانی کرد تہذیب و شناخت کا قبضہ ہوچکا، سماٹ سندھی پر عرب شاہوں اور ایرانی کردوں کا قبضہ ہے، ہندکوہ پنجابی، چترالی اور ڈیرہ وال پنجابی تہذیب بھی تقریباً  ختم ہونے کو ہے سرحد میں، کشمیر کی حالت سامنے ہے، اب بس ایک ہمارا پنجاب بچا ہے جس پر قبضہ اور مزید تقسیم کی کوششیں ہورہی ہیں۔

حصہ چہارم :
یکطرفہ تعصبی اقدامات سے الگ صوبہ بنے یا نہ بنے لیکن پنجاب ایک شدید صوبائی  قوم پرستی اور ردِ عمل کی سوچ کی جانب ضرور جارہا ہے باقی صوبوں کے قوم پرستوں کی طرح۔۔
ملتان جلسے میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی ، نون لیگ سرائیکی نیلی اجرک پہنتے ہیں سیاسی مقاصد کی خاطر، تو پھر شمالی سندھ اور جنوبی خیبرپختونخوا  میں جلسوں میں یہ پارٹیاں سرائیکی نیلی اجرک کیوں نہیں پہنتیں، لہذا اجرک سے ہمیں بھی پیار ہے لیکن اس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے صرف پنجاب کے خلاف۔

انصاف و برابری تب ہوتی جب خیبرپختونخوا  میں بھی ہزارہ ہندکوہ اور سابقہ ریاستوں سوات ومیں چترال کے علاقوں پر مشتمل انتظامی صوبہ کے قیام اور کےپی کے جنوبی اور ڈیرہ وال علاقوں پر مشتمل الگ صوبے کی کوشش کرتے ہوئے وہاں بھی ایبٹ آباد اور ڈی آئی  خان میں اسی طرح کے علیحدہ سیکرٹیریٹ قائم کیے جاتے، اور قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب، ہزارہ سوات, بہاولپور، کےپی کے جنوبی علاقوں کے صوبے، فاٹا صوبے، کراچی صوبے، براہوی صوبے، بلوچستان کے پشتون صوبے کی مشترکہ قرارداد لائی  جاتی اور ایک ہی دن پنجاب اور سب صوبائی  اسمبلیوں کے اجلاس بلا کر ان صوبوں کی قراردادیں وہاں بھی پیش کرکے منظور کی جاتیں۔

ایک طرف فاٹا کا کےپی سے الحاق، دوسری طرف ہزارہ سوات صوبہ اور بہاولپور صوبہ سمیت کےپی کے جنوبی اور ڈیرہ وال علاقے نظرانداز، کراچی نظرانداز، براہوی نظرانداز، تیسری طرف جنوبی پنجاب کے نام کا غیرقانونی سیکرٹریٹ۔۔

ایسا ظاہر ہورہا ہے جیسے پنجاب کو سیاسی و نسلی انتقام و انتظام کی خاطر توڑنے کی ناکام کوششیں کرکے پنجاب میں نفرت کو ہوا دی جارہی ہے۔
انصاف تو سب صوبوں میں صوبے بنانے کی کوشش کرنا ہوتا، لیکن چونکہ تحریک انصاف کا بہانہ ہے کہ دو صوبوں میں ان کی حکومت نہیں، تو چلیں پھر جن دو صوبوں میں حکومت ہے وہاں صوبوں کی قراردادیں اور قومی اسمبلی میں ان سب صوبوں کی مشترکہ قرارداد پیش کرے ،اور سیکرٹریٹ بھی دونوں صوبوں میں بنائے۔

جن پنجابی غیرماجھی لہجوں یعنی ملتانی، ڈیرہ وال  اور بہاولپوری کے مکسچر کو کچھ دوست سرائیکی کا نام دیتے ہیں وہ بھی پنجاب سمیت باقی تین صوبوں بلوچستان کےپی اور سندھ میں بھی بولی جاتی ہے، تو کیا وہ اضلاع شامل یا علیحدہ صوبوں کی شکل اختیار کریں گے؟

جبکہ پیپلزپارٹی بھی پنجاب کو توڑنے کی حمایتی ہے تو پھر ساتھ سندھ کے شمالی اضلاع اور سابقہ ریاست خیرپور کے نئے  صوبوں سمیت کراچی و حیدرآباد صوبے بھی بنائے۔۔

خربوزے پر بار بار اتنی چھریاں نہیں پھیرنی چاہیئں کہ خربوزہ خود چھری بن کر مخالف چھری کو دبوچ لے، پنجاب پہلے تقسیم کرکے انگریز نے انتظامی صوبہ سرحد بنایا جو کبھی قدیم پنجابی باشندوں ہندکوہ و ڈیرہ وال اکثریت کا علاقہ تھا، لیکن پھر پشاور سمیت بہت سے علاقوں میں ہندکوہ اور ڈیرہ وال افراد اقلیت بن گئے ، اور جب صوبے کا نیا نام رکھنے کا معاملہ آیا  اے این پی کے دور میں تو ہندکوہ اور ڈیرہ وال دونوں کی شناختوں اور گجروں، عباسیوں، آرائیوں، سیدوں، اعوانوں، جاٹوں، راجپوتوں، چترالیوں، ترکوں سمیت باقی ذاتوں کو نظرانداز کرکے خیبرپختونخوا  نام رکھ دیا گیا۔

پنجاب پہلے تین چار بار تقسیم ہوچکا، اب مزید یکطرفہ زیادتی نہ ہو ورنہ یہ نہ ہو کہ پنجاب بھی وفاقی نظریہ چھوڑ کر شدید صوبائی   قوم پرستی کی راہ پر چل پڑے۔آپ نے پنجاب کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم کروایا اور اب لسانی راستے پر ڈال رہے ہیں۔ سانوں مسلمانی والے پل اُتے بلا کے تے آپے ماہی لسانی و نسلی ہوگیا۔۔

اختتامی حصہ:
پنجاب کے صبر کی حد یہ ہے کہ دوسرے صوبوں سے سیاستدان پنجاب آکر پنجاب کی تقسیم پر عوامی جلسوں اور میڈیا پر تقاریر و بیانات دے کر چلے جاتے ہیں اور پنجابی خاموش رہتے ہیں۔ دوسرے صوبے کا تعصبی قبضہ گیر سیاستدان پنجاب آکر پنجاب کے اضلاع توڑ کر اپنے صوبے میں شامل کرنے کا نعرہ لگاتا ہے اور پنجابی خاموش رہتے ہیں، جبکہ باقی صوبوں کی تقسیم کی کوئی  کوششیں نہیں ہورہیں ۔

سنا ہے ایک وفاقی وزیر نے بیان دیا ہے کہ جو پنجاب کی تقسیم کا مخالف ہوگا اسے جنوبی پنجاب میں گھسنے نہیں دیا جاۓ گا۔ ہم اس وزیر سے صرف اتنی گزارش کریں گے کہ جناب آپ کے آباء و اجداد خود عرب سے یہاں آۓ، کیا ہم آپکو یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ واپس عرب ممالک تشریف لے جائیں، آپ کی وزارت کے دوران کشمیر و پانی گیا، بھارتی پائلٹ رہا ہوا، افغانستان مذاکرات امریکہ کو مفت میں دے دیے گئے ، آپ کی وزارت کے دوران بھارت کو تین بار اقوام متحدہ میں اپنے اقدامات منظور کروانے کا موقع دیا گیا چائنہ کا ویٹو پیچھے ہٹواکر، لہذا ایک لمبی لسٹ ہے آپ کے خلاف اس لیے آپ کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔
کہ بقول عاقب ستیانوی:

“انج نہ ساجھاں سیراں ونڈو،

Advertisements
julia rana solicitors

سفنے نئیں، تعبیراں ونڈو۔
جے چاہندے ہو خیر وطن دی،
صوبے نئیں جاگیراں ونڈو۔”

Facebook Comments