موجودہ نظام تعلیم کے مقاصد۔۔ایک جائزہ

گزشتہ ایک صدی کے دوران اس دنیا کے انسانوں نے علم کے میدان میں ناقابل یقین ترقی کی ہے ، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنا لوجی کے میدان میں تو گویا معجزے سامنے آئے ہیں ۔ ہمارا انداز فکر ، قدریں اور طرز زندگی تبدیل ہورہا ہے ۔ مناسب ہوگا کہ ہم ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیں کہ اس علمی انقلاب نے دنیا کو کیا دیا ۔۔ ہم نے کیا پایا ، کیا کھویا ۔ زیرنظر مضمون اس سمت میں ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔
تعلیم کے معنی:
تعلیم کے معنی ہیں کسی کو کچھ بتانا، پڑھانا، سکھانا، تلقین کرنا یا رہنمائی کرنا ،عام طور پر تعلیم کو انگریزی کے لفظ ایجوکیشن کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے ۔ مگر صحیح معنی میں ایجو کیشن کی مکمل ترجمانی صرف تعلیم سے نہیں ہو پاتی۔ لفظ ایجوکیشن در اصل لاطینی لفظ ایڈو کو (educo)سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کسی انسان یا جانور کے بچے کو خصوصی توجہ اور نگہداشت کے ساتھ پال پوس کر بڑا کرنا ۔ اس مناسبت سے ایجوکیشن کا مطلب ہوگا کسی بچے کی پرورش اور اس کی دماغی ، جسمانی اور اخلاقی تربیت کرنا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایجوکیشن کا مفہوم صرف تعلیم سے نہیں بلکہ تعلیم و تربیت سے پورا ہوتا ہے۔ آج کے دور کی تعلیم علم کے زیادہ سے زیادہ حصول اور بچے کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت بڑھانے پر مبنی ہے ۔ اس لئے ایسی تعلیم سے ہم بچے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور با صلاحیت تو بنا سکتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ایک اچھا انسان بھی بن جائے ۔ ہم اسے مختلف علوم سے آشنا کراتے ہیں اور مختلف فنون کی تربیت دیتے ہیں مگر اس کو یہ نہیں بتاتے ہیں کہ جو علم و فن تم نے سیکھا ہے اس کا استعمال کن مقاصد کے حصول کے لئے ہوگا؟، کون سا مقصد جائز اور مفید ہے اور کون سا مقصد نا جائز اور نقصاندہ ہے ۔ ہم اسے علم و فن کے ہتھیار سے مسلح تو کر دیتے ہیں مگر اس کو یہ نہیں بتاتے کہ اس کا استعمال مظلوموں کی دادرسی اور کمزوروں کے دفاع کے لئے ہے ، ان کے استحصال کے لئے نہیں ۔ تعمیر کے لئے ہے ، تخریب کے لئے نہیں ، نسلِ انسانی کی بقا کے لئے ہے ، فنا کے لئے نہیں۔ اسی وجہ سے آج ہماری یہ دنیا پہلے کے مقابلہ میں زیادہ خطرے میں ہے ، جب انسان کے پاس علم کم تھا اور اس کی صلاحیت بھی معمولی تھی تب اسے صرف آسمانی آفات کا خطرہ تھا، مگر آج کے انسان کو اپنے غیر معمولی علم سے زیادہ خطرہ ہے جس کا اظہار امریکہ کی جان ہاپکنس یونیورسٹی (John Hopkins University) کے صدر اسٹیون مولر (Steven Muller) نے ان لفظوں میں کیا ہے، ’’آج کے دور کی یونیورسٹیاں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ’وحشی‘ پیدا کر رہی ہیں کیونکہ ہم نئی نسل کو اخلاقی قدروں سے آشنا نہیں کراتے جن کی انہیں شدید ضرورت ہے ‘‘۔ اس لئے اگر ہم تعلیم کے میدان میں خدمت انجام دینا چاہتے ہیں تو ایجوکیشن کے صحیح مفہوم کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے ۔
تعلیم کا مقصد :
جس طرح کرنسی اپنے آپ میں کوئی مقصد نہیں، بلکہ زندگی کی ضرورتوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، اسی طرح علم اور صلاحیت خود کوئی مقصد نہیں ہیں بلکہ زندگی کے مقاصد کے حصول کا ایک مؤثر ذریعہ ہے مگر دشواری یہ ہے کہ نظر یہ حیات ، ماحول اور حالات وضروریات کے اختلاف کی وجہ سے زندگی کا مقصد بدل جاتا ہے مثلاً مختلف انسانوں کے نظریہ حیات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ دنیاوی زندگی اور اس کی لذتوں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ان کے نزدیک دولت و اقتدار کا حصول ہی سب کچھ ہے ۔ کچھ لوگ اس زندگی کو عارضی سمجھتے ہیں اور موت کے بعد ایک دائمی زندگی کے قائل ہیں اس لئے وہ یوم حساب کی کامیابی کو ہی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں ۔بعض لوگ اس دنیا کو مایا جال سمجھتے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے راہبانہ زندگی پر یقین رکھتے ہیں اور بعض لوگ اس دنیا کے ہنگاموں سے گزرتے ہوئے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ نظر یہ حیات کے اس اختلاف سے تعلیم کا مقصد بھی بدل جاتا ہے۔
اسی طرح جب ہم مختلف انسانوں کے ماحول کا جائزہ لیتے ہیں جس میں وہ زندگی بسر کرتے ہیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ماحول کے اختلاف سے بھی زندگی کا مقصد متاثر ہوتا ہے جیسے کسی شہر کی جھگی جھوپڑی اور پوش کالونی (posh colony)کا ماحول یکسا ں نہیں ہوتا ۔ اسی طرح کسی انڈسٹریل ایریا میں مزدوروں کی کالونی کا ماحول کسی یونیورسٹی کی ٹیچنگ اسٹاف کالونی سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ ماحول کے اس اختلاف سے ان علاقوں میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کے مقاصد میں تبدیلی آتی ہے ۔ زندگی کے مقصد کے اس فرق کی وجہ سے تعلیم کا مقصد بھی بدل جاتا ہے ۔ اس طرح ہر کنبہ اور اس کنبہ کے ہر فر د کے مخصوص حالات ہوتے ہیں اور ضروریات بھی جدا جد ا ہوتی ہیں۔اس لئے حالات و ضروریات کے اختلاف کی وجہ سے بھی زندگی کا مقصد تبدیل ہوجاتا ہے اور یہی اختلاف تعلیم و تربیت کے تصور پر بھی اثرانداز ہوتا ہے ۔ اسی دشواری کی بنا پر ماہرین تعلیم آج تک کسی ایک مقصد پر متفق نہیں ہو سکے ۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ان ماہرین نے تعلیم کا کوئی مقصد ہی نہیں متعین کیا ہے ۔ماہرین تعلیم نے اپنے گرد وپیش کے حالات اور ضرورتوں کے تحت جو مقاصد متعین کئے ہیں اس میں سے خاص خاص مندرجہ ذیل ہیں:
1: پیشہ جویانہ مقصد
2: اچھا شہری بنانا
3: نئی نسل کو مستقبل کے لئے تیار کرنا
4: انفرادیت کی نشوو نما وغیرہ
آئیے ذرا جائزہ لیں کہ مذکورہ بالا کسی ایک مقصد کے حصول کے لئے تعلیم دینے سے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں:
پیشہ جویانہ مقصد (Vocational Aim) :
یہ مقصد بظاہر کافی اہم معلوم ہوتا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کو اسی لئے تعلیم دلاتے ہیں کہ بچہ پڑھ لکھ کر کھانے کمانے لائق ہو سکے۔۔بلاشبہ پیٹ کی بھوک انسان کی اہم ضرورت ہے اور والدین کو اپنے بچوں کے معاشی مستقبل کیلئے فکرمند بھی ہونا چاہیے مگر کیا کھانا اور دیگر ضروریات زندگی کا حصول ہی تعلیم کا مقصد ہے ؟ جی نہیں ایسا کرنے سے ہم اپنے بچوں کو معاشی حیوان تو بنا سکتے ہیں مگر ایک اچھا انسان کبھی نہیں بنا پائیں گے۔۔۔اس کیلیے ہمیں انہیں کمانے کے صحیح اور غلط راستے کا تعین کرنے کی اعلیٰ اخلاقی تربیت دینی ہوں گی ۔۔۔نئی نسل کو مستقبل کیلئے تیار کرنا:
مشہور برطانوی مفکر ہربرٹ سپنسر( Herbert Spencer) نے نظریہ تعلیم یہ پیش کیا ہے کہ تعلیم کا مقصد موجودہ نسل کو مستقبل کیلئے تیار کرنا ہے ۔یہ نظریہ بھی ناقص ہے کیونکہ اس میں فقط مستقبل کی ضروریات کے حصول کی تیاری ہے بچوں کے احساسات اور میلانات کے متصادم یہ نظریہ فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے مشہور فرانسیسی مفکر روسو Rousseau کے مطابق تعلیم بچے کی خصوصیات اور فطرت کے میلانات کے مطابق ہونی چاہئے نہ کہ ضروریات کے مطابق
انفرادیت کی نشوونما:
بعض مغربی مفکرین کا کہنا ہے تعلیم کا بنیادی مقصد بچے میں انفرادیت کی نشوونما ہے آج کل بچے کو تعلیم آئندہ زندگی کی ضروریات کے حصول کے لیے دی جاتی ہے اور عموماً ہدف والدین طے کرتے ہیں نتیجتاً بچہ کچھ نہ کچھ بن تو جاتا ہے مگر اس کی انفرادیت کی نشوونما نہیں ہوپاتی
اس مختصر سے جائزے سے معلوم ہوا کہ آج تک مختلف مفکرین نے سماج کو جو بھی نظریہ تعلیم دیا یا تو وہ نا مکمل اور ادھورا تھا یا اس میں معاشرے کیلئے مضرات پوشیدہ تھے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسا نظریہ تعلیم بھی ہے جو ایسا پاکیزہ ہو کہ تاریخی اور جغرافیائی قیود سے بالاتر ہوکر سماج کی ضروریات پوری کرے؟ کیا کوئی بھی صحیح الفکر انسان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ جس علم کی ترسیل کیلئے الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آپ علیہ السلام تک کم و بیش ڈیڑھ لاکھ انبیاء بھیجے وہ بے مقصد ہے؟ صدیوں سے انسان زمانے کے تقاضوں​ اور ضرورتوں کے مطابق تعلیم کا مقصد متعین کرتا رہا۔۔زمانہ اور تعلیم کا مقصد دونوں بدلتے رہے۔۔۔انسان نے اپنا تعلیمی سفر پتھر کے دور سے شروع کیا تھا اور آج ہم ایٹمی اور خلائی دور میں کھڑے ہیں 1789 میں انقلاب فرانس نے موجود دور کے ا نسان کے ہاتھ میں خواہشات اور ضرورت کی ایک نئی فہرست تھما دی جن کے حصول کے لیے انسان نے علم اور تحقیق کی نئی نئی راہیں تلاش کیں ۔ضرورتو ں کی شدید بھوک نے انسان سے صحیح غلط راستے کی پہچان چھین لی۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں اسی نظامِ تعلیم سے کچھ لوگ ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے صحیح معنوں میں انسانیت کو فائدہ پہنچایا مگر اسی نظام تعلیم کے کچھ جینئس (genius) ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے علم کے ذریعے دھوکہ،ملاوٹ،ہوس کے بازار گرم رکھے ، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم انہیں ہیرو مانتے ہیں۔۔۔چاند کی تسخیر کو ہم نے مقصدِ زندگی اور مریخ پر پہنچنے کو کامیابی کا معیار بنا دیا۔ آج کے دور کے انسان کی مادی ترقی کا یہ عالم ہے کہ اس نے چاند اور مریخ پر جانے کا خواب پورا کر دیا اور اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ جنس آزادی اور ہم جنس پرستی کو انسان کا ذاتی فعل قرار دیکر اس گھناؤنے فعل کو قانون کا تحفظ فراہم کر دیا۔
جب انسان اپنے رب کو اور اس کی منشا کو پہچان لےگا تو اس کی تخلیقات میں غور بھی اسکی منشا ومرضی کے مطابق کرے گا۔۔اس کے تصرف میں محض چاند ستارے نہیں بلکہ پوری کائنات ہوگی بس مقصد پاکیزہ اور اعلیٰ ہوگا۔۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی بچے ہمارا مستقبل ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ انہیں بچپن سے خدا سے آشنا کر کے ان کے مقصد کو عالی شان بنا دیں اپنی تلاش اور جستجو کا مقصد ملوکیت نہیں بلکہ انسانی فلاح اور خالق کی خوشنودی ہو۔
یہی بدلاؤ کا سامان یہی احساس جوابدہی کا تقاضہ ہے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد اسامہ خان
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”موجودہ نظام تعلیم کے مقاصد۔۔ایک جائزہ

  1. خوب ہے یہ آرٹیکل! لیکن کما حقہ بات ہونے میں مزید حقائق کا جائزہ لینا چاہیے اور پھر دورِ حاضر کے تقاضوں کے تحت تعلیم کے عمومی و خصوصی مقاصد بیان ہونے چاہیے،،، مزید یہ کہ اسلامی نقطہ فکر کو کھنگال کر واضح کرنا چاہیے۔ امید ہے ایسا پورا ہو گا۔

Leave a Reply