کشمیر میں کشیدگی کی تازہ لہر

ہفتہ 8 اکتوبر 12 سالہ کشمیری بچہ جنید بھی بھارتی فوج کی بربریت کا شکار ہوگیا۔ وادی کشمیر میں لگے کرفیو کو اب سو سے زیادہ دن ہوچکے ہیں۔ مگر کشمیری آج بھی آزادی کی اس آگ کو کسی قیمت پر بھجنے نہیں دے رہے جو تین ماہ قبل برہان وانی نے اپنے خون سے جلائی تھی۔ روزانہ کی بنیادوں پر کشمیری آزادی کی جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کررہے ہیں اور مسلسل اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر ہندوستان کے ناجائز تسلط سے رہائی چاہتے ہیں۔


برہان وانی بھارت کے لئے وہ ڈراونا خواب بن چکا ہے جسکا ہندوستان کو خود بہت عرصے سے خوف تھا۔ 22 سالہ نوجوان آج کشمیریوں کا ہیرو ہے۔ اس نوجوان نے پندرہ سال کی عمر میں ہی بھارتی جبر کے خلاف ہتھیار اٹھالیے تھے اور صرف چھ سال کے قلیل عرصے میں ہی وہ بھارتی فوج اور حکومت کیلئے اس قدر بھیانک حقیقت بن کر ابھرا کہ بھارتی حکومت کو اس نوجوان کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے لگانی پڑی۔ برہان وانی نے تحریک آزادی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ وہ تحریک کے ان چند کمانڈروں میں سے ایک تھا جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر کررکھی تھی۔ اس نے سوشل میڈیا کا استعمال کچھ اسطرح کیا کہ وہ کچھ عرصے میں ہی دنیا بھر میں تحریک آزادی کشمیر کی پہچان بن گیا۔ وہ ایک طرف بھارتی فوج کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا مگر ساتھ ہی وہ وادی کے نوجوانوں کا آئیڈیل بھی تھا۔


وانی کا ساشل میڈیا نیٹ ورک اس قدر مضبوط تھا کہ وہ کئی دفعہ بھارتی فوج اور پولیس کو چکمہ دے کر بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا۔ نوجوان نسل کے اس مجاہد نے حزب المجاہدین کو وادی کی سب سے بڑی اور خطرناک عسکری حریتی تنظیم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وانی نے سینکڑوں پڑھے لکھے متوسط طبقے کے نوجوانوں کو تحریک میں شامل کیا۔ یہ نوجوان مقامی طور پر ہی عسکری تربیت حاصل کرتے رہے اور بھارتی فوج کا شدید جانی اور مالی بقصان کرتے رہے۔ اس معروف عسکری کمانڈر کو 8 جولائی 2016ء کی سہ پہر بھارتی فوج نے تین ساتھیوں سمیت جنوبی کشمیر کے علاقے ککرناگ میں شہید کردیا۔


پہلے افضل گورو کی پھانسی اور اب برہان وانی کی شہادت نے کشمیریوں کی نفسیات کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وانی کے جنازے میں شریک ہونے کے لئے لاکھوں لوگ نکلے اور شہید وانی کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفنایا گیا۔


لوگوں کے اژدھام کو دیکھ کر بھارت نے وادی میں کرفیو نافذ کردیا جو کہ تاحال جاری ہے۔ اس دوران وحشی بھارتی فوجیوں کی بربریت سے ایک سو پچاس سے زیادہ کشمیری شہید، سینکڑوں نابینا اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل ہے۔ دوائیوں اور غذا کی شدید قلت ہے۔ تمام حریت قیادت اپنے گھروں میں نظر بند ہے۔ یہ سارے جبر برداشت کرنے کے باوجود کشمیری کسی قیمت پر ہار ماننے کو تیار نہیں۔ وہ پتھروں، غلیلوں اور ڈنڈوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔ گولیاں چلتی ہیں تو وہ بھی پیٹھوں کی بجائے سینوں پر کھاتے ہیں اور جب شہید ہوجاتے ہیں تو اپنے جنازے بھی سبزہلالی پرچم میں اٹھواتے ہیں۔ یہی وہ سب حقائق ہیں جنہیں جاننے کے بعد یقین ہوچلا ہے کہ BBC کے رپورٹر نے اس تھکے ہوئے بوڑھے فوجی کا جملہ بالکل سہی نقل کیا ہے جو اپنی چیک پوسٹ کی جانب چلتا جارہا تھا اور کہتا جارہا تھا:

"اب کشمیر کی ہر ماں برہان وانی پیدا کرے گی۔"

Facebook Comments

توقیر ماگرے
"جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں، میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply