• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حیدر عباس وٹو کی رحمان عباس سے محبت۔۔عامر حسینی

حیدر عباس وٹو کی رحمان عباس سے محبت۔۔عامر حسینی

ایک صحافی اپنے کام کی جگہ پہ بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتا ہے اور وہ صحافی اگر اپنی قلم مزدوری پہ ہی قناعت کرنے والا ہو تو اکثر اپنی بیٹ میں روز ناخداؤں سے ٹکراؤ میں آتا ہے مگر کبھی کبھی اس جگہ “دوست” بھی مل جاتے ہیں-
ایسے ہی ایک دوست حیدر عباس وٹو ہیں – میں جب پہلی بار اُن سے ملا تو میرے پاس ممبئی سے تعلق رکھنے والے اردو کے شہرہ آفاق فکشن نگار رحمان عباس کے ناول “روحزن” کی ایک کاپی تھی – میں اُن کے دفتر گیا اور اُن کی میز پہ روحزن رکھا تو اُن کی نظر اُس پہ پڑی، ‘ارے…’ کہہ کر انہوں “روحزن” اٹھایا – کہا کہ یہ کتابی شکل میں آپ کے پاس کہاں سے آئی، رحمان تو ممبئی ہندوستان کے ہیں – میں نے ان کو بتایا کہ یہ پاکستان میں اُن کا پہلا ناول چھپا ہے –
“اب یہ کاپی میری ہوئی، تم اور خرید لینا”
یہ کہہ کر انھوں نے کتاب اپنی میز کی دراز میں منتقل کردی – کچھ دیر بعد اچانک کہنے لگے،
” میں نے ریختہ ویب سائٹ پہ رحمان عباس کے ناول پڑھے تھے“
نومبر 2021میں،میں نے بتایا کہ اُن کا نیا ناول زندیق دسمبر میں شایع ہورہا ہے – کہنے لگے جیسے تمہارے پاس آئے مجھے دینا- میرے پاس دو کاپیاں آئیں – میں نے ایک کاپی انھیں دے دی –
حیدر عباس وٹو بے وردی بابوؤں میں کیسا بے وردی بابو ہے؟
جب کسی کے ساتھ بے وردی بابو لگا ہو تو وہ “کرانتی کاری” تو ہو نہیں سکتا، وہ تو مزاحمت کار بھی نہیں ہوتا- وہ موجودہ نظام کی جگہ کسی دوسری نظام کو لانے کا خواہاں بھی نہیں ہوتا – تو وہ کیا ہوتا ہے؟
یہ بتانے کے لیے مجھے ایک تناظر پیش کرنا ہوگا کہ بے وردی بابو شاہی کس طرح کی مشینری ہوتی ہے؟
بے وردری بابوؤں میں اکثر وبیشتر بابوؤں کی ادب نوازی، علم شناسی ایک ڈھونگ ہوا کرتی ہے اور آج کل بے وردی بابو شاہی میں ہمیں جس سٹف کا سامنا ہے وہ سٹف تو بہت ہی بدزوق اور سراسر چین کا تیار کردہ دو نمبر مال لگتا ہے –
جب کوئی بے زوق بلکہ بدزوق بے وردی بابو کسی ایسے صحافی کا سامنا کرتا ہے جس کو ادب عالیہ، تاریخ، سیاست، ریاست، سماجی و عمرانی علوم پہ دسترس ہوتی ہے اور وہ “شاہ کا مصاحب” بھی نہیں ہوتا تب اُس بالشتیہ بے وردی بابو کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے یاتو وہ اپنے احساسِ کمتری کو چھپانے کے لیے اُس صحافی کو یہ باور کراتا ہے کہ اُس کا اتنا عالم فاضل اور نفیس زوق رکھنے کا کیا فائدہ جو اُسے سماج میں وہ آسودگی نہ دے سکا جو اُس بے وردی بابو کو محض مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد مل گئی – وہ اُس سے یہ بھی کبھی کبھی پوچھتا ہے کہ وہ وہ فلاں فلاں صحافی کی طرح پرآسائش زندگی کیوں نہیں گزار رہا؟ جواب میں اُس بے وردی بابو کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ اُس نے تو کبھی ریاست کی بیوروکریٹک مشینری کا چھوٹا یا بڑا پرزہ بننے کی کبھی خواہش نہیں کی اور وہ پریس کو بالاخانہ میں بدل کر قلم سے طوائف گیری کا دھندا چلانے کا قائل نہیں رہا، اس لیے پرآسائش بھی نہیں رہا- دلال تو دلال ہوتا ہے چاہے وہ واسطہ صحافتی قلم کو بنائے یا پھر بیوروکریسی کے سُرخ فیتے کو بنائے –
صحافتی میدان میں مزاحتمی کردار اب تو خال خال پائے جاتے ہیں اکثر اس نظام میں کسی نہ کسی طاقتور لابی کے غلام ہوا کرتے ہیں – اور غلاموں کی عزت نفس اکثر کچلی ہوتی ہے – اور انھیں آزاد فضا راس نہیں آتی –
تیسری دنیا کی سابق نوآبادیاتی ریاستوں کی انتظامی مشینری کے کارپردازوں کی جلد سیاہ، براؤن ہو بھی تو زہنیت وہی سفید حاکم والی ہوتی ہے –
بے وردی بابو شاہی ہو یا باوردی بابوشاہی اس میں بھی گروہ بندی ہوتی ہے، دھڑے ہوتے ہیں، لابیاں ہوتی ہیں اور اُن کی تشکیل کا سبب پاور اور مراعات میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری، پرکشش عہدوں پہ براجمان رہنا اور اپنے آپ کو کسی بڑے بدمست باوردی یا بے وردی ہاتھی نما لابی کے پیروں تلے کچلے جانے سے بچائے رکھنا وغیرہ ہوتا ہے-
بے وردی اور باوردی بابو شاہی کی مشینری میں ارتباط باہم تو ہوتا ہے اور اوپر سے نیچے تک درجہ بندی ہوتی ہے اور اس کا ہر بابو اپنی درجہ بندی کے حساب سے مقید اور مختار دونوں ہوتا ہے – یہ بات تو طے ہے کہ ایک فری لانس صحافی، دانشور ، ادیب اور استاد جتنا مزاحمتی، باغی کردار ہوسکتا ہے اتنا کسی میڈیا ادارے میں باقاعدہ ملازم صحافی، دانشور اور ادیب نہیں ہوسکتا لیکن یہ بھی مزاحمت و بغاوت کا راستا نکال ہی لیتا ہے – مگر ریاست کے بیوروکریٹک ڈھانچے میں مزاحمت اختیار کرنا اور ھیرارکی/درجہ بندی کی جکڑبندیوں سے ماورا ہونے کی گنجائش نہیں ہوتی – یہاں آدمی کے پاس صرف یہ گنجائش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور قوانین سے ہٹ کر اپنے اوپر کی درجہ بندی کی طرف سے آنے والے احکامات کی پیروی کرنے سے انکار کردے اور بدلے میں جلدی جلدی تبادلوں اور او ایس ڈی بنائے جانے کو قبول کرتا رہے اور اُس سے اکتائے بھی نہیں – ایسے مٹھی بھر بے وردی سرکاری بابوؤں میں جن سے میں صحافتی فرائض کے دوران ملا میں نے ادب عالیہ اور تاریخ سے دلچسپی ضرور دیکھی اور انھیں کم از کم میں نے پاکستان کی تاریخ بارے “نصابی مطالعہ پاکستان” پہ انحصار کرتے نہیں دیکھا- ایک رانا صاحب ہیں جو پولیس میں ہیں مگر بقول اُن کے اُن کے اندر چھپا “سُرخ” بار بار باہر آنے کی کوشش کرتا ہے – ان جیسا دوسرا بندہ بے وردی سرکاری بابو اگر مجھے رپورٹنگ اسائنمنٹ کے دوران ملا تو وہ “حیدر عباس وٹو” ہیں – آج کل وہ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ملتان ریجن تعینات ہیں – میں ایک نیوز ویب سائٹ کے لیے میٹروکارپوریشن ملتان میں پی ایس ایل کرپشن کیس، اینٹی کورونا سامان خریداری کرپشن کیس پہ کام کررہا تھا (اس پہ فالو اپ رپورٹنگ اب بھی جاری ہے) جس پہ اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ پنجاب کے ملتان ریجن کی ٹیم کام کررہی تھی اور اُسی نے ملتان کارپوریشن میں اتنے بڑے پیمانے پہ کرپشن کے کیسز کو کھود نکالا تھا- ان کیسز میں ملتان کے سابق کمشنر شان الحق سمیت کافی بڑے نام ہیں اور جب یہ تحقیقات شروع ہوئیں تو بہت زیادہ کوشش ہوئی کہ کسی طرح سے ڈی جی اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ پنجاب گوہر نفیس بھٹہ اور ڈائریکٹر ملتان ریجن حیدر عباس وٹو کو اُن کے عہدوں سے ہٹائے جانے کی زبردست کوششیں شروع ہوئیں – بہت زیادہ دباؤ تھا لیکن حیدر عباس وٹو نے اُسے برداشت کیا- میں جب ان مقدمات کی رپورٹنگ کررہا تھا تو اس دوران مجھے اپنے زرایع سے یہ پتا چل رہا تھا کہ لوٹ مار کرنے کے زمہ داران نے پہلے ڈائریکٹر، ڈی ڈی آئی ،ڈی ڈی ٹی اور آئی او کو خریدنے کی کوشش کی جب اس میں ناکامی ہوئی تو پھر ان کو او ایس ڈی بنانے کی کوشش کی – کرپٹ اور بدعنوان مافیا اتنا طاقتور ہے کہ اس نے جب سارے راستے بند ہوتے دیکھے تو ایک کیس میں پھر عدالتی اسٹے کا سہارا لیا اور بوگس ادائیگیوں کے کیس میں اس نے عدالت کے زریعے ایسے وقت میں انوسٹی گیشن کو ملتان ریجن سے ساہیوال تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی جب انوسٹی گیشن میں فائنل فائنڈنگ مکمل ہوچکی تھیں- اس سب کے باوجود میں نے حیدر عباس وٹو اور اُن کی ٹیم کا حوصلہ پست ہوتے نہیں دیکھا-
حیدر عباس وٹو جس پوسٹ پہ کام کررہے ہیں اُس میں بہت سرکھپانا پڑتا ہے اور ایسے میں اگر وہ اپنا ادبی ذوق برقرار رکھتے ہیں اور اپنے کام سے ہٹ کر موضوعات پہ کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ قابل داد بات ہے- وہ اپنی ہیرارکی اور اختیارات کے دائرے میں عام آدمی کو ریلیف دینے میں پیچھے نہیں رہتے- وہ اب بھی لفظوں کی حرمت پہ یقین رکھتے ہیں – لیکن نہ تو وہ کرانتی کاری ہیں، نہ باغی ہیں، نہ انقلابی ہیں اور نہ ہی وہ قاری سے آگے بڑھ کر خلاق ہیں – اور میں اس وہم میں بھی مبتلا نہیں ہوں کہ وہ آج کے مسعود کھدرپوش یا حیدربخش جتوئی ہیں – لیکن یقین کیجیے وہ اپنی روش کے اعتبار سے وہ درباری بھی نہیں ہیں – ایک ایسا آدمی جو ہوسکتا تھا اگر ہیرارکی میں کھپ نہ گیا ہوتا تو ایک کرانتی کاری ہوتا مگر اُسے نظام میں لے کر ایک اور باغی کی پیدائش کا حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply