• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • طبی عملہ اور املاک کے خلاف تشدد کے واقعات کا شرعی جائزہ(تیسرا ،آخری حصّہ )۔۔۔ڈاکٹر محمد عادل

طبی عملہ اور املاک کے خلاف تشدد کے واقعات کا شرعی جائزہ(تیسرا ،آخری حصّہ )۔۔۔ڈاکٹر محمد عادل

طبی عملہ پر تشدد کی وجوہات

جنگ کے موقع پر طبی عملہ پر حملوں کی وجہ

جنگ میں طبی عملہ اور املاک پر حملوں کی وجوہات میں مسلح افواج کا  عالمی قوانین اور جنگی اخلاقیات سے لاعلمی ایک بڑی وجہ ہے۔

عام حالات میں تشدد کی وجوہات

اس کے علاوہ ذیل کی  سطور میں پاکستان میں طبی عملہ اور تنصیبات پر حملوں کے حوالہ سے لکھا جائے گا،چونکہ کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں کبھی مریض اور اس کے لواحقین کی طرف سے زیادتی کی جاتی ہیں اور کبھی طبی عملہ کی کوتاہی کا دخل ہوتا ہے۔یہ معلومات طبی عملہ میں شامل مختلف درجات کے اہلکاروں سے حاصل کی گئی۔بالترتیب دونوں کی وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

 مریض اور اس کے لواحقین کی طرف سے زیادتی

طبی عملہ اور وسائل کی کمی

پاکستان کی حد تک تشدد کے واقعات میں ایک بڑی وجہ طبی عملہ اور وسائل کی کمی ہے،جس میں وینٹی لیٹر ،آپریشن تھیٹر،بیڈ،ایمبولینس، ادویات  اور طبی عملہ   ہسپتالوں میں آبادی کے مطابق وسائل دستیاب نہیں۔مریضوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتالوں کا رُخ  کرتی ہے اور  ہر کوئی وقت پر بین الاقوامی معیار کے مطابق سہولیات اور  طبی    امداد کا خواہا ہوتا ہے۔جبکہ طبی عملہ کمی کے باعث نہ ان تک بروقت طبی امداد پہنچاسکتا ہے اور نہ اعلیٰ قسم کی سہولیات۔

ابتدائی سطح پرطبی  امداد کی عدم فراہمی

یونین کونسل  کی سطح  پر موجود بنیادی مرکز صحت (BHU) اور تحصیل کی سطح پر  ہسپتال موجود ہوتے ہیں لیکن پھر  بھی معمولی قسم کے امراض میں مریض  کوضلعی  سطح کے ہسپتال لے جایا جاتا ہے،جہاں پہلے سے وسائل و طبی عملہ   ناکافی ہوتا ہے۔  اس لئے طبی عملہ وہ توجہ اور سہولیات نہیں دے پاتے جو مریض  اور اس کے لواحقین توقع رکھتے ہیں۔

میڈیا کا منفی کردار

طبی عملہ پر تشدد میں میڈیا کا منفی  کردار  ایک وجہ بنتا ہے۔ میڈیا  کے ذریعہ لوگوں کو یہ تو دکھایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی  معیار کے طبی سہولیات تک رسائی ان کا حق ہے ،لیکن اپنے ملکی حالات اور صحت کے بجٹ  کے متعلق اس طرح کی آگاہی نہیں دیتا ۔پھر جب لوگ  مریض کو لے کر ہسپتال جاتے ہیں تو وہاں اس قسم کے بین الاقوامی معیار کے سہولیات طبی عملہ سے طلب کرتے ہیں ،جس کے فراہم کرنے سے وہ معذور ہوتے ہیں ۔

اسی طرح جب کسی مریض کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو میڈیا حقائق جانے بغیر بار بار  یہ خبر چلاتے ہیں کہ ڈاکٹر کی غفلت کی وجہ سے مریض کو نقصان پہنچا ،جس سے عوام کے جذبات بڑھک جاتے ہیں اور نتیجہ طبی عملہ پر تشدد کی صورت میں نکلتا ہے۔

بر وقت علاج نہ کرانا  اور عدم برداشت

صحت کے حوالہ سے ہمارے معاشرے میں ایک قسم کی غفلت پائی جاتی ہے اور بیماری کی ابتدائی مراحل میں گھریلوں ٹوٹکے اور تعویذ گنڈے سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے،جب بیماری حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر مریض کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے اور وہاں مریض کی حالت میں جلد  از جلد  بہتری کی خواہش ہوتی ہےاور طبی عملہ  ٹیسٹ  وغیرہ سے بیماری کی تشخیص کی کوشش کرتا ہے،اس دوران مریض کے لواحقین اکثر طبی عملہ پر غفلت و عدم توجہی کا الزام لگا کر تشدد پر اتر آتے ہیں۔

غیر ضروری دخل اندازی

ہسپتال میں تعینات طبی عملہ  وہاں ایک نظام کے تحت کام کرتا ہے ،جس سے عام طور باہر کے لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔لہٰذا جب باہر سے  غیر ضروری دخل اندازی کی جاتی ہے تو پورا نظام متأثر ہوتا ہے،جیسے سیاسی اثر رسوخ کے حامل لوگ  ہسپتال جاکر من مانی کی کوشش کرتے ہیں یا عدالت کوئی ایسا حکم دیتی ہیں جو طبی عملہ کے لئےمشکلات کا باعث بنتاہے۔لہٰذا ایسے مواقع  پرطبی عملہ کے لئے  حالات سنبھالنا  مشکل ہوجاتا ہے  اور بعض اوقات  اس کا نتیجہ تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

قوانین کی عدم موجودگی

مریض یا اس کے لواحقین کو اگر کوئی شکایت ہو تو اس کا ازالہ کرنے کے لئے کوئی فوری نظام موجود نہیں یا ہسپتال کے اندر جو خود احتسابی کا نظام ایتھیکل کمیٹی کی صورت موجود ہو  بھی تو کارروائی کا تصور تقریباٍ ً نہ ہونے کے برابر ہے،اس لئے  مریض کے لواحقین اپنا غصہ طبی عملہ پر تشدد کی صورت میں نکالتے ہیں۔

طبی عملہ کی طرف سے کوتاہیاں

طبی عملہ کی غیر حاضری اور ہڑتالیں

بعض اوقات طبی عملہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی سے کام لیتا ہے ،کبھی غیر حاضر رہتا ہے تو کبھی ہڑتال پر ہوتا ہے ،تو عملہ جو پہلے سے ناکافی ہے ،وہ مزید کم ہوجاتا ہےاور ایسے وقت میں مریض ایمرجنسی کی حالت میں لایا گیا ہوتا ہےاور  اسے ہنگامی بنیادوں پرعلاج  کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح بعض اوقات ڈاکٹرز ہسپتال میں موجود ہوتے ہیں لیکن بروقت مریض کو طبی امداد فراہم نہیں کی جاتی،جس سے حالات ناخوشگوار ہوتے ہیں۔

طبی عملہ میں برداشت کی کمی اورشائستگی کا فقدان

ہسپتال میں لوگ مجبوراًٍ   آتے ہیں اور  مریض کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں،تو جب کسی بھی وجہ سے انہیں توجہ نہیں ملتی یا علاج  کروانے میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،ایسے مواقع پر وہ طبی عملہ سے الجھتےہیں۔ اگر طبی عملہ برداشت سے کام لے کر  شائستگی کے ساتھ ان سے پیش آئےتو بات وہی ختم ہو سکتی ہے ،لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے طبی عملہ اور خاص طور پر نوجوان عملہ ان سے الجھتا ہے،ایسے صورتحال میں بات تشدد پر جا کر ہی ختم ہوتی ہے۔

لاپرواہی برتنا

بعض مواقع پر طبی عملہ لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے،جس کا نتیجہ مریض کو نقصان پہنچنے کی صورت میں نکلتا ہے،ایسے مواقع پر چونکہ ہسپتال میں  فوری ازالہ کا کوئی طریقہ کار بھی نہیں ہوتا ،لہٰذا تشدد کے واقعات وجود میں آتے ہیں۔

فیس کےلئےغیر ضروری علاج  اور بلاضروت ادویات

نجی ہسپتالوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ محض فیس کے لئے بغیر ضرورت کے مریض کی سرجری کی جاتی ہے اور یہ اکثر زچگی کے مواقع پر ہوتا کہ بغیر سرجری کے بچے کی پیدائش ممکن ہوتی ہے لیکن فیس  کے لئے وقت سے پہلے سرجری کرکے زچہ وبچہ کی زندگی خطرے میں ڈال دی جاتی ہے۔

اسی طرح فارما سوٹیکل کمپنیوں سے مراعات حاصل کرنے کی خاطر ڈاکٹر مقررہ وقت میں ادویات کی خاص مقدار فروخت کرنے کے لئے مریضوں کو غیر ضروری طور ادویات لکھ دیتے ہیں،چونکہ ادویات کی قیمتیں بھی زیادہ ہوتی ہیں ،اس لئے ناخوشگواری کا ماحول بن جاتا ہے۔

اخراجات کا بروقت نہ بتانا اور میت نہ دینا

مریض کے بنیادی حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ پہلے سے اسے علاج کے متعلق پوری معلومات اور اخراجات بتائے جائیں،لیکن  پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایسا نہیں ہوتا اور اکثر مریض کے انتقال کے بعد اخراجات کی ادائیگی تک میت روک لی جاتی ہے،ایسے مواقع پر اکثر ناکوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں۔

تجاویز

پہلی دو تجاویز مسلح تصادم کی صورت میں طبی عملہ پر حملوں کی روک تھام کے لئے ہے اور بعد میں پاکستان کے حوالہ سے تجاویز دی گئی ہیں:

  1. جنگ میں شامل ہونے سپاہیوں کو جنگی اخلاقیات کی بھرپور تربیت دی جائے اور جنگ کے متعلق عالمی قوانین سے اسے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ طبی عملہ اور املاک کو نشانہ بنانے سے باز رہے۔
  2. جنگ کے موقع پر جو کوئی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طبی عملہ و  رضاکاروں اور املاک کو نشانہ بنائیں تو ان کو جنگی جرائم  پر  سزا دینا  یقینی بنائی جائے ،یہ متصادم فریقین اور عالمی برادری کی یکساں ذمہ داری بنتی ہے۔
  3. صحت کے شعبہ کے لئے مختص بجٹ (جو کل ترقیاتی پیداوار(GDP) کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا )  میں اضافہ کرکے ہسپتالوں میں طبی عملہ اور سہولیات میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے اور بہتری لائی جائے۔ اسی طرح بیسک ہیلتھ یونٹس کی سطح پر کم ازکم اتنے وسائل فراہم کئے جائیں کہ ہر چھوٹی بڑی بیماری و ایمرجنسی میں بڑے ہسپتالوں کی طرف رجوع کی ضرورت نہ پڑے۔
  4. طبی عملہ ،ایمبولینس اور ہسپتال میں خصوصاً ایمرجنسی کے شعبہ کی سیکورٹی کے لئے باقاعدہ نظام وضع کیا جائے،جو طبی عملہ کی حفاظت کی ذمہ داری سر انجام دے۔
  5. طبی عملہ اور تنصیبات کی ضرورت و اہمیت اور ان پر حملوں کی روک تھام کی غرض سے عوامی سطح پر شعور اجاگر کیا جائے، جس میں میڈیا ،سوشل میڈیا اور علماء کی مدد حاصل کی جائے اور اس کے ساتھ تعلیمی  نصاب میں بھی اس حوالہ سے مضامین شامل کئے جائیں۔
  6. صحت کے حوالے سے عوام میں آگاہی پیدا کرنا تاکہ ابتدائی سطح پر مرض کی تشخیص ہو سکےاور مریض کا علاج بروقت ممکن ہو سکے۔
  7. ہسپتالوں کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اس میں بیرونی مداخلت چاہے سیاسی ہو یا عدالتی مکمل طور پر بند ہونے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
  8. حکومت اور طبی عملہ میں ایسی کوارڈینیشن ہو کہ طبی عملہ کے مطالبات پر بروقت کاروائی عمل میں لائی جائے اور  ہڑتالوں اور احتجاجوں کی نوبت نہ آئے۔
  9. طب کے شعبہ میں آنے والوں کو طب کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے عمومی مزاج کو دیکھتے ہوئے غیر معمولی حالات میں جذبات  کو قابو میں رکھنے کی تربیت دی جائے ،تاکہ بات ان کے روئیے کی وجہ سے بگڑے کے بجائے بہتری  کی جانب آئے۔
  10. طبی عملہ کو طبی اخلاقیات کی بھی تعلیم دی جائے تاکہ وہ مریض کا علاج وتیمارداری ایک قومی و دینی فرض سمجھتے ہوئے انتہائی لگن سے کرے اور دورانِ علاج کوئی کوتاہی سرزد نہ ہو۔  اسی طرح وہ غیر ضروری ادویات و اخراجات بھی مریض پر لادنے سے بھی گریز کریں۔
  11. عالمی قوانین و معاہدات پر دستخط کرنا گویا ان قوانین کو تسلیم کرنا ہے،چونکہ طبی عملہ اور املاک پر حملہ کرنے کا جرم ہونا ، ہمارے دستور اور شرعی اصولوں کے بالکل مطابقت رکھتا ہے،اس لئے طبی عملہ اور املاک کو نقصان پہنچانے پر عالمی قوانین کی روشنی میں سخت فوجداری سزائیں مقرر کی جائیں تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو۔

رحرابہ

[1]         یہ خبر 4 مئی 2019 کے خیبر نیوز میں شائع ہوئی اور اب بھی ان کے ویب سائٹ  پر موجود ہے۔

[2]        یہ تفصیلات آئی سی آر سی کی نومبر 2015ء میں مرتب کردہ رپورٹ  سے لی گئی ہے ، اس رپورٹ کو Health Care In Danger Meeting the Challenges  کا نام دیا گیا ہے۔

[3]     یہ تفصیلات معروف انگریزی روزنامہ The News  کی 7دسمبر 2019ء  کے شمارہ سے لی گئی  ہے ،  جو Survey on violence against healthcare Workers Launched  کےعنوان کےتحت شائع کی گئی۔

[4]       یہ تفصیلات آئی سی آر سی کی مرتب کردہ رپورٹ بنام  Towards Protecting Health Care In Karachi A Legal Review   سے حاصل کی گئی۔

[5]    یہ تفصیلات آئی سی آر سی کی مرتب کردہ رپورٹ  سے لی گئی ہے ، اس رپورٹ کو Violence against health care result from a multi-center Study from Karachi   کا نام دیاگیا۔

[6]     یہ  قرارداد پوری تفصیل کے ساتھ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

[7]    سورۃ البقرۃ۲: ۱۹۰

[8]    احکام القرآن ،احمد بن علی الجصاص،۱ : ۳۲۱، دار احیاء التراث العربی، بیروت،۱۴۰۵ھ

[9]   الکشاف،محمود بن عمرو الزمخشری،۱ : ۲۳۵،دار الکتاب العربی بیروت،۱۴۰۷ھ

[10]    شرح السیر الکبیر،محمد بن احمد السرخسی،۱ : ۱۴۲۹،الشرکۃ الشرقیۃ للاعلات،۱۹۷۱ء

[11]    سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد، باب فی قتل النساء،رقم الحدیث:۲۶۶۹

[12] احکام القرآن ،محمد بن عبد اللہ ابوبکر بن  العربی،۱ : ۱۵۰،دار الکتب العمیۃ ، بیروت،۲۰۰۳ء

[13] الجہاد والقتال فی السیاسۃ الشرعیۃ،الدکتور خیر محمد ہیکل،ص ۱۲۷۰،دار البیارق ،ت ن

[14] یہ عبارت ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی اسلام آباد کے آرٹیکل “طبی خدمات اور سہولیات کے تحفظ کی ضروت: اسلامی شریعت کے چند رہنما اصول” سے لی گئی ہے ،جو کہ مجلہ علوم اسلامیہ و دینیہ ،ہری پور یونیورسٹی کے  دسمبر 2017ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔

[15] بدائع الصنائع،ابوبکر  بن مسعود الکاسانی،۷ :۱۰۱،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۰۶ھ

([16])   الروض الأنف،عبد الرحمٰن بن عبد اللہ السہیلی، ۵ : ۹۰،دار احیاء التراث العربی، بیروت،۱۴۱۲ھ

[17] الجہاد والقتال فی السیاسۃ الشرعیۃ،ص ۱۲۶۸

[18] سورۃ المائدۃ،۵ :۱

[19] سنن الترمذی،ابواب السیر، باب ما جاء فی الغدر، رقم الحدیث:۱۵۸۰

[20] المؤطا، مالک بن انس، کتاب الجہاد، النہی عن قتل النساء والصبیان فی الغزو، رقم الحدیث:۱۶۲۷

[21]احکام اہل الذمۃ، ۳ : ۱۱۹۹

[22]سورۃ المائدۃ،۵ :۴۵

[23]  صحیح البخاری، کتاب العلم، باب  قول النبیﷺ رب مبلغ اوعی من سامع، رقم الحدیث:۶۷

[24] المستصفیٰ، محمد بن  محمد الغزالی،۱ :۱۷۴،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۱۳ھ

[25]  سنن ابی داؤد،کتاب الدیات، باب من تطبب بغیر علم فاعتنت،حدیث: ۴۵۸۶

[26]العلاج  بالاغذیۃ  والأشعاب،عبد الملک بن حبیب، ۱ : ۳۰ ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۹۹۸ء

Advertisements
julia rana solicitors london

[27] بدایۃ المجتہد ونہايۃ المقتصد، ابن رشد الحفید محمد بن أحمد،۴ : ۱۸،دار الحدیث ،القاہرۃ،۱۴۲۵ھ

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply