کیا اردو زندہ زبان نہیں ہے؟۔۔حافظ صفوان محمد

زبان بولنے برتنے سے آتی ہے نہ کہ ڈکشنری سے۔ یہ بات مجھے جنابِ شان الحق حقی نے ایک ای میل میں لکھی تھی۔ خاصی بحث ہوئی۔ ان کا نکتۂ فکر یہ تھا کہ زبان عوام بولتی ہے، اور عوام کی زبان پر وہی لفظ و تلفظ ہوتا ہے جو وہ میڈیا سے سن لیتی ہے یعنی خبروں یا فلم ڈراموں وغیرہ میں۔ میرا نقطۂ نظر یہ تھا کہ عوام ڈکشنری سے لفظ دیکھ کر اپنی زبان کی درست کرتی ہے اس لیے ڈکشنری پر پوری قوت لگنی چاہیے۔ حقی صاحب کہتے تھے کہ ڈکشنری بھی بالآخر وہی لفظ و تلفظ اور استعمال ریکارڈ کرنے پر مجبور ہوگی جو عوام میں چلن دار ہے۔ یہ اصولی بات ہے کہ لغت نویس لوگوں پر دروغہ نہیں لگا ہوا اور اس کو لفظ بنانے کا یا لوگوں کو غلط کہنے کا کوئی حق نہیں ہے؛ ہاں، وہ اصولی اور درست لفظ و تلفظ و معنی ضرور لکھے۔ اپنے منصب سے بڑھ کر لوگوں کی زبان پکڑنے کا حق لغت نویس کو نہیں دیا جاسکتا۔

حقی صاحب کے زمانے میں سوشل میڈیا کا مطلب زیادہ تر صرف msn مسینجر پر چیٹ تھا۔ msn نے جو 24 اگست 1995 سے سماج کو مربوط کرنے میں مصروف تھا، سب سے بڑا کام یہ کیا کہ اردو لکھنے والوں کو رومن حروف میں اردو لکھنے کی مشق کرا دی۔ حقی صاحب   خود بھی رومن حروف میں اردو لکھتے تھے۔

لفظوں کے بارے میں تین باتیں اہم ہیں: لفظ کی شکل جسے اِملاء کہتے ہیں؛ لفظ کا تلفظ یعنی Pronunciation؛ لفظ کی انشائی صورت یعنی اس کا استعمال۔ لفظ کی اِملاء دیکھنے سے یاد ہوتی ہے۔ یہ کام پرنٹ میڈیا کے ذریعے سب سے جلدی اور دیر اثر ہوتا ہے۔ فلموں کے اشتہاروں میں جب تک “آجشبکو” لکھا ہوتا تھا تو لوگ بھی اسی طرح لکھا کرتے تھے۔ اب یہ تین لفظ الگ الگ لکھے ہوتے ہیں تو لوگوں نے بھی اِن کو ملاکر لکھنا رفتہ رفتہ چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ لفظ کی جو شکل رواج میں لانا چاہیں اس کو ملک کے مشہور بڑے اخبارات میں لکھنا شروع کرا دیجیے، عوام کچھ ہی عرصے میں اسی شکل کو اختیار کرلے گی۔ ایک اور مثال لیجیے کہ لوگ ان شاءاللہ کو رومن حروف میں اچھا بھلا Inshallah لکھا کرتے تھے۔ پچھلے کچھ عرصے سے لسانی فرقہ بازوں نے اسے کتابوں اور اخباروں میں Insha Allah لکھانا شروع کیا، جو چلتے چلتے آج In Sha Allah ہوگیا ہے۔ لسانی قواعد نہ ہوگئی القاعدیت ہوگئی۔

لفظ کا تلفظ وہی مشہور ہوگا جو ریڈیو ٹی وی سے بولا جا رہا ہوگا۔ مثلًا توجہ اور متوجہ دو لفظ ہیں۔ توجہ میں جیم پر پیش ہے اور متوجہ میں جیم کے نیچے زیر۔ ان دونوں لفظوں کو لوگ ٹھیک بولتے تھے کہ مشرف کا دور آیا۔ ایک بڑے ٹی وی چینل پر ایک مشہور صاحب نے متوجہ کو جیم کے پیش کے ساتھ بولنا شروع کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، ہر دوسرے چوتھے کوئی نہ کوئی متوجہ اور توجہ کو ایک ہی وزن پر بولتا پایا جاتا ہے۔ یاد آیا کہ پطرس بخاری نے  ایک بار   ریڈیو کے لیے ایک تقریر ریکارڈ کرائی لیکن جب اسے سنا تو معلوم ہوا کہ ایک جگہ پر تلفظ غلط ہوگیا ہے۔ اس دور میں ریکارڈنگ ہی دوبارہ کرنا پڑتی تھی کیونکہ آڈیو ایڈیٹنگ ممکن نہ تھی۔ تقریر دوبارہ ریکارڈ کرنے کی مشقت سے بچنے کے لیے ریکارڈنگ سپروائزر نے کہا کہ بخاری صاحب، ایک لفظ سے کیا فرق پڑتا ہے، چالیس کروڑ ہندوستانیوں میں سے کوئی ایک ہی یہ غلطی پکڑے گا۔ پطرس نے جواب دیا کہ مجھے اُسی ایک حرامزادے سے ڈر لگتا ہے۔

رہی بات لفظ کی انشائی صورت کی، یعنی اس کی قواعدی حیثیت، لغوی حیثیت، تصریفی شکل، وغیرہ، تو یہ سب کچھ تو ہے ہی عوام کی ملکیت۔ عوام کسی لفظ کو مذکر بولے یا مونث، جمع بولے یا جمع الجمع، اس کی اپنی مرضی۔ ایک گھر کی ایک منزل پر رہنے والے دہی کو مذکر بولتے ہیں اور دوسری منزل والے مونث، آپ لگا لیجیے جو قانون لگا سکتے ہیں۔ میں سویاں کھاتا ہوں، بیگم سیویئیں بناتی ہیں۔ کہاں کا قانون اور کہاں کے قواعد؟ کس کس کی زبان پکڑیے گا؟ اردو میں جتنوں نے King’s English والی “شاہی اردو” لکھنے کی کوشش کی ہے وہ سب آج کہاں ہیں؟ اردو عوام کی زبان ہے، عوام جو چاہے کرتی پھرے اس کے ساتھ۔

اب سوشل میڈیا کا یعنی سائبر زبان  کا دور ہے۔ سائبر دور مجھے حقی صاحب کی بات ہر روز یاد دلاتا ہے۔ میں ڈکشنری کے ذریعے لوگوں کی زبان کو کنٹرول کرنے کی حماقت میں مبتلا تھا، حقی صاحب نے اور ڈاکٹر وحید قریشی نے مجھے اس لغویاتی دلدل سے نکالا۔ سوچتا ہوں کہ یہ دونوں بزرگ آج ہوتے تو زبان کی صبح شام بدلتی صورتِ حال پر کیا تبصرے فرماتے۔ ترجمہ کا ترجمعہ اور ذمہ داری کا ذمعہ داری بنتا بھی ہم نے دیکھا اور خاندان کو خان دان بنتے  بھی دیکھ  رہے ہیں۔ جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا!

دکھ یہ ہے کہ جو شخص اپنی علاقائی زبان اور لسانی ثقافت کو جتنا زیادہ دھتکارتا ہے وہ اتنا ہی اچھا پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔ جنابِ اجمل کمال نے کیا خدا لگتی کہی ہے کہ اردو میرے تجربے میں آنے والی واحد زبان ہے جس کی مہارت کسی غیر زبان کی مہارت سے مشروط ہے اور جس میں لوگوں کی تخلیق کی ہوئی زبان کو گھٹیا اور غلط (غلط العام یا غلط العوام) اور درآمد کردہ اجنبی لفظوں کو اعلیٰ اور صحیح قرار دیا جاتا ہے۔

یاد رہنا چاہیے کہ انگریزی تو بمشکل ایک صدی ہوا آئی ہے، اس سے پہلے رعب دار الفاظ فارسی سے آتے تھے، اور جتنی عربی درآمد کی جاتی تھی وہ بھی فارسی ہی کے راستے سے پہنچتی تھی۔ املا اور تلفظ کی جن غلطیوں پر ہمارے لوگ ایک دوسرے کی متواتر تحقیر کرتے ہیں وہ انہی درآمدی سید بادشاہ ٹائپ الفاظ کے سلسلے میں پیش آتی ہیں۔ لفظوں کو درست بولنا اور درست لکھنا چاہیے لیکن یاد رہے کہ جو بھی لفظ ہم استعمال کر رہے ہیں وہ اب ہمارا اپنا لفظ ہے اور اس کا اِملا، اِس کا تلفظ اور اِس کی انشائی و قواعدی صورت وہی درست ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ اگر کہیں اور کے لوگ اُس لفظ کو کسی اور طرح برت رہے ہیں تو وہ اُن کے ہاں درست ہے ہمارے ہاں نہیں۔ مثلًا گلی ڈنڈہ والی گلی اگر امروہے یا لکھنؤ والوں کے ہاں گ کے زیر کے ساتھ بولی جاتی ہے اور پنجاب میں گ کے پیش کے ساتھ، تو یہ دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پلیٹس نے اس کے دونوں تلفظ درست کہے ہیں۔ پلیٹس ہی لسانی تطبیق کو مان لیا جائے اور باقی لفظوں کے تلفظ کو بھی اپنی اپنی جگہ کے لیے درست مان لیا جائے۔ بالکل یہی کیفیت انشائی و قواعدی صورتِ حال کی ہے۔ اگر جھاڑو مذکر بھی ہے اور مونث بھی، اور دو سو سال سے یہ دونوں طرح سے مستعمل ہے، تو آج کسی ایک صورت کو درست اور دوسری کو غلط تسلیم کرانے کی کیا ضرورت ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

زندہ زبان ایک دریا ہے جو اپنی عوام کے موڈ کے زور پہ بہتا ہے۔ اوکسفرڈ کے کسی ایڈیشن میں Jew کا معنی Miser اب نظر نہیں آئے گا۔ آخری بار یہ اندراج 1983 میں ہوا۔ دنیا بھر کی چلن دار زبانوں کے لفظوں کے نہ صرف معنی میں بدلاؤ آتا رہتا ہے بلکہ ان کی قواعدی صورت بھی بدلتی رہی ہے۔ Country کو 1986 تک کے لغات میں she/her لکھا ہوتا ہے، اس کے بعد سے یہ لفظ masculine اور لاجنس ہی لکھا جا رہا ہے۔ کیا اردو زندہ زبان نہیں ہے؟

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا اردو زندہ زبان نہیں ہے؟۔۔حافظ صفوان محمد

  1. او ماموں مولوی صاحب۔۔۔ ایم ایس این میسنجر سے پہلے یاہو مسنجر اور آئی آر سی چیٹ موجود تھی۔۔ ماموں آپ کو کس نے کہا کہ انگریزی زبان کو آئے صرف صدی ہوئی ہے۔۔ نیز آپ صاحب نے جو ڈکشنری (کرنٹ پبلشرز کے لیے) مرتب کی تھی وہ بیچاری تو اپنی موت آپ ہی مر گئی جس میں “خنزیری نزلہ” بمعنی Swine flu درج تھا۔۔۔۔ بڑے میاں اپنے کام سے کام رکھا کرو۔۔۔ یاوہ گوئی آپ کے خون میں سرخ خلیوں کی طرح اور خود نمائی سفید خلیوں کی طرح ہے اور ان دونوں کا ایک حد سے تجاوز بلڈ کینسر کہلاتا ہے۔۔۔

Leave a Reply