انسان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ ہر شخص خدا بن کر سوچتا ہے اور کہتا ہےکہ اس کے ارادے اس کے سوچنے سے پہلے رونما ہو جائیں۔ بندگی کے تقاضے پورے کر کے انسان اگلی منزلوں کو سوچے تو مناسب لگتا ہے۔ سر جھکاۓ بغیر سر اٹھا کر چلنے کی خواہش،تکمیل کی تعمیل کرتی نظر نہیں آتی۔ شوریدہ حالی کا احوال یہ ہے کہ نہ انتظارِ سخن کی سکت باقی ہے اور نہ قبولیت کی امید کا آسرا کہیں سر ٹکانے دیتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ راستہ کہاں سے آ رہا ہے اور کہاں کو جاتا ہے مگر مسافر کی آنکھ میں یقین نہیں ہے۔ وہ قدم نہیں بھی اٹھاۓ گا تو یہ سفر کٹ ہی جانا ہے؛ اس کی خواہشوں کی تکمیل ہوۓ بغیر بھی مراد پوری ہو سکتی ہے؛ وہ پریشان ہونا چھوڑ دے گا تو ہی اس کا تردد دور ہو سکے گا؛ اسے اس خیر کی خبر کیوں نہیں ہے؟
خدا نے کڑے امتحان لینا بھی چھوڑ دیے ہیں۔ ہم پھر بھی شکر نہیں کرتے۔ پاؤں میں موچ آ جاۓ تو سمجھتے ہیں کہ اب ہم پر سفر طے کرنا لازم نہیں رہا۔ سفر کی خواہش کا دل میں نمودار ہونا بھی ایک سازش ہے اور سفر کی سکت کا نہ ہونا بھی ایک جانچ ہے۔ ہر سانس جو ہمارے نتھنوں سے نکلتی ہے ہمیں ایک نئے امتحان سے روشناس کرا دیتی ہے مگر ہمیں اس کا شعور نہیں۔ ساری عمر ہم یہی سمجھتے رہے کہ جو ہمیں نہیں ملا وہ ہمار امتحان تھا؛ امتحان تو وہ بھی تھا جو مل گیا۔ آنکھ ایک پھوٹتی ہوئی کونپل پر پڑے تو یہ نظر کا امتحان بھی ہے اور بصر کا بھی، یہ ایک واقعہ کہ کوئی نیا گل کھلا ہے، پھول کی بقا کا امتحان بھی ہے اور گل چیں کے ارادوں کا بھی؛ گلشن کے تحفظ کا امتحان بھی ہے اور مالی کے صبر کا بھی، گل فروش کی تمنا بھی ہے اور محبوب کا مقدر بھی، کون جانے کہ کس پھول نے دلہن کے ہاتھوں سے لپٹنا ہے اور کس پھول نے کسی مرقد سے لگ کر سسکیاں لینی ہیں۔ ہر شخص کا امتحان کسی اور طرح سے کسی اور کی آزمائش ہے۔ یہ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ یہ شکوہ کریں کہ ہمارے آنگن میں بہار نہیں آئی۔ سارے موسم اندر کے ہیں، باہر تو بس دکھاوا ہے۔
پہلے عذاب اقوام پر اترتے تھے، ایک اجتماعیت تھی جو پورے معاشرے کی پراگندگی کی ذمہ دار تھی۔ لوگ فلسفہء خیر و شر میں یوں جڑے تھے کہ فرد پابندِ معاشرت تھا اور جو کچھ قبولِ عام تھا وہ اس کا کرنے کا پابند تھا۔ خدا بھی پھر عذاب اقوام کو دیتا تھا۔ یہ آفاقی عذاب ہزاروں سال کی سرکشی اور ناشکری کے تسلسل کے نتیجے میں ہونے والے منفرد واقعات تھے جو تاریخ میں شاید صرف ایک دفعہ وقت کا دھارا بدلنے کےلیے رونما ہوتے تھے۔ طوفانِ نوح پھر نہیں آیا، تذکرہ قومِ لوط بھی اب کہیں نہیں اور بنی اسرائیل کے قبیلوں کے نشاں بھی ناشکری کے بوجھ تلے مٹ گئے۔ میرا خیال ہے کہ اس اجتماعی عذاب کی روایت اس وقت ٹوٹی جب سنگ زنی کے بعد خون آلود ہونے والے نے جبرائیل سے کہا کہ نہیں، اس قومِ طائف پر پہاڑ اٹھا کر نہیں مارنا۔ اب ان کے نام و نشان نہیں مٹانا کہ نشان خود اپنے نام تحریر کریں گے۔ رحمتِ عالمؐ کے اس فیصلے کے بعد سے شاید عذاب قوموں پر نہیں اترتے۔ اب یہ دنیا ہر شخص کی بساط ہے اور اس نے اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے۔ اب وباء سے کوئی ایک شہر نہیں اجڑتا؛ زلزلے روز آتے ہیں اور سیلابوں کا آنا ایک تواتر ہے۔ ان سے خطرہ اب کسی قوم کو نہیں بلکہ ایک فرد کو ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ فرد کہاں ہے۔ وہ جہاں بھی ہے اگر اس نے اپنے رستے کو پہچان لیا، تو یہ عذاب اسے کچھ نہیں کہتے۔ جو راستوں میں بھٹک گیا، وہ ہلاک ہو گیا۔
پرانی شاخوں پر نئے شگوفے پنپ رہے ہیں۔ وقت کی رفتار نے منظر کو دھندلا کر خودی کو اور حسین کر دیا ہے۔ اب یہ زمانہ مجھ سے ہے اور مجھے اس کے دن و رات کو ترتیب دینا ہے۔ ایک شخص دنیا بھر کی ہیئت کو بدل ڈالنے کی قدرت رکھتا ہے اور اپنے لفظوں سے نۓ طلاطم تخلیق کر سکتا ہے۔ گلشن کے گرد ایستادہ حصار گرا دیے گئے ہیں اور فرد کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ راہرو کو راہزن بنتے دیر نہیں لگتی مگر رہنما بھی موجود رہتے ہیں۔ آنے والا زمانہ درویشوں کا ہے۔ ہر شعبہء زندگی میں سر جھکا کر خدا کر رضا کو تلاش کرنے والے نمودار ضرور ہونگے۔ درویش وہ نہیں جو برگد کے نیچے اپنی میلی لوئی اوڑھ کر بیٹھا ہے۔ ایسے درویش اجتماع نے ختم کر دیے ہیں۔ اب ان درویشوں کا زمانہ ہے جو ستاروں اور سیاروں کی سائنس میں خدا کی حکمت کو تلاش کرنے کا سوچتے ہیں، جو معیشت اور معاشرت میں راہِ خدا میں امکانات بانٹنے کا ہنر جانتے ہیں اور جو انسان کو فرد کی اہمیت کی بابت بتاتے ہیں۔
سورج کہر کی دبیز تہوں میں گر رہا ہے۔ یہ امتحان صرف سورج کا نہیں، اس کی روشنی کی زد میں آنے والے ہر کون و مکاں اور ہر ذی روح کا بھی ہے۔ کوہِ طور اب دوبارہ سرمہ نہیں بنے گا اور نگاہیں خیرہ کرنے سے اندھیرے دور نہیں ہو سکیں گے۔ اس سے پہلے کہ اب آخری بار پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں، انسان کو یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کی تخلیق کی آزمائیش کسی اور کی بھی آزمائش تھی، اسے تصدیق کرنا ہے کہ عذاب کے ڈر سے زیادہ رحمت کی امید انسان کی تاریخ کی سب سے اہم کڑی ہے؛ اسے یہ ڈھونڈنا ہے کہ اکیلے انسان کا اس ایک کے ساتھ کیا رشتہ ہے اور اسے یہ رشتہ کیسے نبھانا ہے۔ خدا کی محبت جب انسانوں سے محبت کرنا سکھا دیتی ہے تو پھر خویش درویش بن جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں