خط جو پوسٹ نہ ہو سکے/میری نیلی جھیل۔۔۔قراۃ العین حیدر

تمہیں یہ نہیں پتا کہ تمہاری نظروں میں اپنے لئے پسندیدگی تو میں اسی وقت بھانپ گئی تھی جب ہم پہلی بار ملے تھے۔ اور تم ۔۔۔۔ تم تو مجھے پہلی نظر میں میرے اپنے لگے، یہی لگا کہ تم وہی ہو جس کیلئے میرا پیکر تراشا گیا۔ لیکن میں نے اپنے دل میں آنے والے اس خیال کو یکسر نظر انداز کیا کیونکہ میرا اور تمہارا کوئی جوڑ تھوڑی تھا۔ پر تمہارا بار بار ہمارے گھر آنا مجھے کھٹک رہا تھا۔ کوئی دو مہینے کے چکر لگانے سے میرا شک یقین میں بدلنے لگا لیکن میں ٹھہری عورت ذات، نہ تم سے پوچھ سکتی تھی اور نہ اپنے دل کی حالت تم پر عیاں کرسکتی تھی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ہر ویک اینڈ پہ میں تمہارا انتظار کرنے لگی۔ جب تم لاہور میں ہوتے تھے تب بھی اور جب تم لاہور سے چلے گئے تب بھی۔ ویک اینڈ پہ تو لگتا تھا کہ تم لازمی آؤ گے۔ اصل میں تمہارا انتظار تو مجھے ہر لمحہ ہی رہتا تھا۔ ہر دستک پہ یہی لگتا تھا کہ تم ہو، فون کی ہر گھنٹی پہ تمہاری کال کا گمان ہوتا تھا۔ اور ان دنوں اکثر یہ گمان سچ ثابت ہوا کرتا تھا لیکن چھوڑو تمہیں یہ سب اب بتانے کا کیا فائدہ؟ اپنی محبت کا یقین اس وقت ہوا جب ایک محفل میں تم نے میری طرف دیکھ کے یہ شعر پڑھا تھا
یہ جو لاہور سے محبت ہے
یہ کسی اور سے محبت ہے

ہمارے بیچ کوئی اظہار نہیں تھا، کوئی وعدہ نہیں تھا، نہ کوئی باتیں تھیں اس کے باوجود میں تمہاری ہوگئی۔ یہ میرا رویہ تھا جسے میں نے اپنی مرضی سے اپنایا تھا۔ لیکن تمہارا ساتھ ہونے کی خواہش کرنا تو محض حماقت ہی تھی کیونکہ یہ فیصلے تو کہیں آسمانوں میں طے ہوتے ہیں۔ لیکن اب جبکہ تم خود تو یہاں سے جا چکے ہو لیکن تمہارا تصوراتی پیکر میرے پاس ہی ہے۔ تمہاری یادوں پر مبنی میں نے اپنی ہی ایک تصوراتی دنیا بسا لی ہے جس میں ہم ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ جیتے ہیں۔ اس تصوراتی دنیا کی وجہ سے میں باقی دنیا سے بیگانہ ہوں۔ مجھے نہیں معلوم تمہارے خیالوں میں بسے رہنے سے دنیا میرے بارے میں کیا کہتی ہے؟ میں صرف یہ جانتی ہوں کہ مجھے دنیا میں کسی کی بھی اتنی ضرورت نہیں ہے یہاں تک کہ تمہارے مجسم وجود کی بھی نہیں اور نہ ہی زندگی میں کبھی تمہاری موجودگی کی اتنی ضرورت پیش آئے گی۔

تمہاری باتیں اور تصورات محض میرے دل کی تخلیق ہیں شاید تمہیں میرا خیال بھی نہ آتا ہو۔ بہرحال اصل لذت تو میرے ان تصورات کی ہے جہاں تم میری آنکھوں کے سامنے ہو۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ میں خاموش ہوتی جارہی ہوں لیکن میری اصل گفتگو تو تم سے ہے۔ تم آج کھانے میں کیا کھانا پسند کروگے سے لیکر آج میں کیسی لگ رہی ہوں تک ساری باتیں تم سے ہی تو ہیں ۔ ہر معاملے میں تمہاری رائے میرے لئے مقدم ہے۔ اگرچہ کہ میں چُپ چاپ اپنے خیالات میں گُم دِکھتی ہوں کون کیا جانے کہ میرے اندر تو میلا لگا ہوا ہے۔ تم ایک ہمزاد کی طرح مجھ میں سرایت کیے ہوئے ہو۔ اب مجھے زیادہ لوگوں کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی تم سے رابطے کیلئے مجھے کسی سوشل لنک کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تم سامنے ہو تو میں تم سے رابطہ کرکے ایک unexpected دلاسہ کیوں لوں جو میرے لئے تکلیف دہ ہے۔ میرے پاس جو تمہارا پیکر ہے وہ کبھی مجھ سے منحرف نہیں ہوتا جس میں تمہاری خوشی میری خوشی میں ہے۔

میری تکلیف میں تم میری دلجوئی کرتے ہو جبکہ اصل میں میری تکلیف میں تم نے کبھی میری خبر بھی نہیں لی۔ تمہارے احساس کو میرا احساس رہتا ہے جبکہ اصل میں تمہیں میرا خیال بھی نہیں ہوتا۔ میں اپنی اس ورلڈ آف آئیڈیاز میں بہت مسرور رہتی ہوں ۔ نہ تو مجھے یہاں کبھی hurt ہونے کا احساس ہوتا ہے ۔۔۔ اور نہ ہی یہاں میں تنہا ہوں۔ یہاں تم میری محبت کا جواب محبت اور خلوص سے دیتے ہو۔

تم ۔۔۔۔۔ نیلی جھیل ۔۔۔۔۔ میرے تصورات کی ایک ایسی بستی ہے جہاں سے سب کچھ بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ جہاں فاصلے معنی نہیں رکھتے۔ جہاں ہماری کمیاں، کوتاہیاں اور تشنگی ختم ہوجاتی ہے، جہاں زندگی خوبصورت سپنے بُنتی ہے سُکھ کے، تمانیت کے، خلوص کے، محبت کے خمار کے۔۔۔۔۔ہماری انائیں دم توڑ دیتی ہیں، ہمارے جذبات کی رو ہے جو ہمیں اپنے ساتھ بہا کر جانے کہاں لے جاتی ہے شاید ایک ایسی دنیا میں جہاں توقعات تکلیف نہیں دیتیں۔ تم میری زندگی کا وہ دوسرا کنارہ ہو جو دور سے ہمیشہ ہی بہت خوبصورت دِکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تمہاری ادھوری!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply