مژگائی کا آخری وقت۔۔وہارا امباکر

مژگائی یک خلوی جاندار ہے۔ اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ موت، جو سب کو ہی آنی ہے، فرق صرف ٹائم سکیل کا ہے۔ مژگائی ہو، میں، کوہِ ہمالہ یا سورج۔۔۔ ہم سبھی اس کائنات میں ایک بلبلے کی طرح ہیں۔ بنتے ہیں اور پھر ختم۔ بنتے ہیں اور پھر ختم۔۔۔

لیکن مائیکروسکوپ کے تلے مژگائی کی وفات ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گی۔ یہ بلبلہ ہمارے سامنے ہی ختم جائے گا۔ ابھی تو یہ ٹھیک تھا۔ اس کی آخری خوراک ۔۔۔ جو ایک اور یک خلوی تھا ۔۔۔ اس کے جسم میں نظر بھی آ رہی ہے۔ اس کو بھوک نے نہیں مارا۔ یہ اس ماحول میں جاتا ہے جہاں پر آکسیجن کچھ کم ہو لیکن بہت ہی کم نہ ہو۔ (یہ مائیکروایروفیلک ہے)۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں پر آکسیجن اس کیلئے مناسب نہیں تھی۔ لیکن اس کے کئی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ تو ایسا نہیں ہوا تھا۔
نہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کیوں مرنے لگا ہے۔ لیکن ہمیں یہ پتا ہے کہ ماہر مائیکروبائیولوجسٹ نے کچھ عجیب چیز نوٹ کی تھی۔ اس نے ایک موڑ کاٹا تھا اور خلیاتی ممبرین اور سائٹوپلازم کی باریک سی لکیر اپنے پیچھے چھوڑ دی تھی۔ اس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ کسی نے اس کو پکڑا نہیں تھا۔ یہ کسی سے ٹکرا کر الجھا نہیں تھا۔ لیکن تھوڑا سا مادہ، جو کبھی مژگائی کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس کا حصہ نہیں رہا۔ یہ الگ ہونے جانا والا سائیٹوپلازم پیچیدہ مالیکیولز سے بھرا ہوا ہے۔ اور ان کو ہم کہتے ہیں کہ یہ ایکویلیبریم (equilibrium) سے بہت دور تھے۔
ایکویلیبریم وہ صورتحال ہے جس میں کیمیکلز وقت کے ساتھ مزید ری ایکٹ نہیں کرتے۔ ہم عام طور پر کہہ سکتے ہیں کہ زندہ خلیوں کے باہر تمام مادہ یا تو کیمیائی ایکولیبریم میں ہے یا اس طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن خلیوں کے اندر مادہ نہ ہی ایکولیبریم میں ہے اور نہ ہی اس طرف بڑھ رہا ہے۔
یہ تمام کیمیکل جن کو اگر تنہا چھوڑ دیا جائے تو یہ جلد ہی ایکولیبریم کی طرف چل دیں گے۔ یہ کیسے ہے کہ یہ اس زندہ جسم میں ایسا نہیں کر رہے؟ زندگی۔ یہ زندگی ہے۔ کیمیکلز کا اکٹھ جو اپنے ماحول سے توانائی حاصل کرتا ہے تا کہ ایکولیبریم سے دور رہ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کیا ہے؟ جس طرح سے اس کی بائیولوجی کی کلاس میں تعریف کی جاتی ہے، وہ ہمیں تشنہ چھوڑ دیتی ہے۔ کیونکہ یہ تعریف نہیں بلکہ خاصیتیں ہیں۔ زندگی توانائی لیتی ہے۔ افزائشِ نسل کرتی ہے۔ ماحول کے مطابق ردِعمل دیتی ہے۔ خلیوں پر مشتمل ہے۔ یہ تعریف نہیں، حد کھینچنے کی کوشش ہے۔ ایسا کرنا ان چیزوں کے بارے میں تو ٹھیک ہے جو پیچیدہ ہیں یا تجریدی ہیں جیسا کہ معاشرتی کنسٹرکٹ ہیں۔ لیکن زندگی ہماری آراء کا کنسٹرکٹ نہیں، یہ حقیقت کا کنسٹرکٹ ہے۔
زندگی ایک کیمیکل سسٹم ہے جو توانائی کو حاصل کر کے اسے کیمیائی ایکولیبریم سے فرار کیلئے استعمال کرتا ہے۔ کیوں؟ ہم اتنا گہرائی میں نہیں جاتے۔ یا کم از کم آج نہیں جاتے۔ ابھی اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ سسٹم ہمارے سیارے پر ڈویلپ ہوا اور اب اربوں سال بعد بھی یہی کرنے میں مصروف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مژگائی میں ہمارے ساتھ کئی چیزیں مشترک ہیں۔ اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی وقت ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے۔ موت کیا ہے؟ اس کے لئے پہلے زندگی کی تعریف کرنا پڑتی ہے۔ اگر زندگی اس ایکولیبریم سے دور رہنے کی کوشش ہے تو کیا موت اس ایکولیبریم میں واپسی ہے؟ نہیں۔ یہ ڈیکے تو طویل عرصہ جاری رہ سکتا ہے۔ دہائیوں تک بھی۔ اسی طرح میرے جسم کے بہت سے حصے میری زندگی میں ہی واپس ایکولیبریم کی طرف چلے جاتے ہیں۔ میں اور آپ اس وقت بھی اپنی جلد کے خلیے جھڑ رہے ہیں۔ میرے جسم کے ایٹم اور مالیکیول بار بار بدل رہے ہیں۔ پرانے جا رہے ہیں، نئے آ رہے ہیں۔ لیکن میں صرف ایک ہی بار مروں گا۔ اسی طرح مژگائی بھی اپنا سائیٹوپلازم اور خلیاتی ممبرین کئی منٹ سے جھڑ رہا ہے۔ اور جو سائیٹوپلازم اس نے جھڑ دیا ہے، وہ بلاشبہ زندہ نہیں۔ لیکن مژگائی ابھی زندہ ہے۔ کیمسٹری جاری ہے۔ ابھی کیلئے۔۔۔
موت وہ لمحہ ہے جب وہ سسٹم بند ہو جائے جو ایکولیبریم کی حالت سے دوری کو برقرار رکھتا ہے۔
اور یہ کسی ایک سطح پر نہیں۔ ایک جاندار کے اجزا کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ مژگائی کے اجزا جھڑ رہے ہیں۔ یہ کسی جاندار کے کسی خلیے کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اور یہ اس وقت میرے اور آپ کے اندر مسلسل جاری ہے۔ میرے اندر خلیے مر رہے ہیں۔ ہر خلیے کو موت ہے۔ اور یہ ایک ہی بار ہے مرنے والے واپس نہیں آتے۔ نئے خلیے پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی اور موت کا چکر میرے جسم میں ہر وقت جاری ہے۔ یہ موت جاندار کے الگ حصوں کی سطح پر بھی ہے۔ یہ موت جاندار کی سطح پر بھی ہے۔
ہم موت کو عام طور پر صرف اپنے نکتہ نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ سائنس میں بھی اور ہمارے لٹریچر میں بھی موت کے بارے میں ہمارا فوکس اکثر فرد کی موت تک ہی رہتا ہے۔ لیکن ہم اس کو غور سے دیکھیں اور اپنا زاویہ نگاہ بدلیں تو پھر ہم کئی اقسام کی اموات دیکھ سکتے ہیں۔ چھوٹی سے لے کر بڑی سطح تک۔
جب ایک کامن جینیاتی سسٹم، جو ایک قسم کے کئی جانداروں کو وجود دینے کے لئے مفید تھا، باقی نہیں رہتا تو ہم اس کے ختم ہو جانے کو اس نوع کی معدومیت کہتے ہیں۔ اس جینیاتی انفارمیشن سسٹم کا باقی نہ رہنا بھی موت کی ایک قسم ہے۔
امینو ایسڈ اور نیوکلئیک ایسڈ کا سسٹم زندگی کی ہر شکل میں مشترک ہے، وہ سسٹم جس نے زمین پر اربوں سال سے زندگی کو ایکولیبریم سے دور رکھا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ جب یہ ختم ہو جائے گا تو پھر یہ ایک اور ہی سکیل کی موت ہو گی۔ ایسی خوفناک قسم جس کا ہم نے نام بھی نہیں رکھا۔
اور پھر بہت ہی دور کبھی ۔۔ جب یہ کائنات اپنا ایکولیبریم پا لے گی تو ہونے والی ہیٹ ڈیٹھ ۔۔۔ اس کائنات کی آخری موت ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مژگائی کا وقت ختم ہونے کو ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کونسا وہ ٹھیک وقت ہے جب ہم اس کی موت کا اعلان کر دیں لیکن شاید وہ اب آ گیا ہے۔ وہ نظام جو توانائی کے استعمال سے خود کو ایکولیبریم سے دور رکھتا تھا، اب موجود نہیں رہا۔ مژگائی اب زندہ نہیں۔ اب ایکولیبریم کی طرف جانے کا سکون طاری ہے۔ یہ موت کا سکون ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ اس ویڈیو کا ترجمہ ہے۔ اس میں ایک ciliate کی زندگی کے آخری چند منٹ دکھائے گئے ہیں۔

Facebook Comments