لوہڑی۔۔ علی انوار بنگڑ

لوہڑی پنجاب کا ایک مشہور اور قدیم تہوار ہے۔ ہر سال سردیوں میں شمسی کیلنڈر کے مطابق 13 جنوری یا بکرمی کیلنڈر کے مطابق پوہ کی آخری رات کو لوہڑی کا تہوار روایتی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ دراصل اس تہوار سے بڑے دنوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ گاؤں یا محلے کے لوگ اکٹھے ہو کر آگ کا الاؤ جلاتے ہیں اور اس الاؤ کے ارد گرد کھڑے ہوکر پنجابی لوک گیت اور بولیاں گائی جاتی ہیں۔ عورتیں گدے ڈالتی ہیں۔ بچے بڑوں سے لوہڑی کی ودھائی لے رہے ہوتے ہیں۔ ہر طرف خوشیوں کا ایک تانتا بندھا ہوتا ہے۔
اس تہوار کے ساتھ کئی خوبصورت روایات بھی منسوب ہیں۔ جس میں سے ایک روایت دلا بھٹی (راۓ عبدالله بھٹی) سے جڑی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک زمیندار ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے لے جارہا تھا جنہیں دلا بھٹی بازیاب کرواتااوربعد میں ان کی شادی بھی دلا بھٹی ہی کرواتا۔ اس لیے لوہڑی کے موقع پر گایا جانا والا مرکزی گیت اس واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔
سُندر مندریئے۔۔ ہو!
تیرا کون وچارا۔۔ ہو!
دلا بھٹی والا۔۔ ہو!
دُلے دھی ویاہی۔۔ ہو!
سیر شکر پائی۔۔ ہو!
کڑی دا لال پٹاکا۔۔ ہو!
کڑی دا سالو پاٹا۔۔ ہو!

سالو کون سمیٹے!
چاچا گالی دیسے!
چاچے چوری کٹی!
زمیداراں لٹی!
زمیدار سدھائے!
بم بم بھولے آئے!

اک بھولارہ گیا!
سپاہی پھڑ کے لے گیا!
سپاہی نے ماری اٹ!
بھاویں رو اتے بھاویں پٹ!

سانوں دے دے لوہڑی!
اتے تیری جیوے جوڑی!

Advertisements
julia rana solicitors london

لوہڑی کا تہوار مذہبی رواداری اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا تہوار ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی تو دیکھیں بٹوارے کے وقت جب دھرتی اور اس سے جڑی یادیں، رشتے، لوگ، دریا سب کچھ بٹ گیا تو علاقائی تہوار بھی اس بٹوارے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تقسیم کے بعد ویسے بھی پاکستان میں خصوصاً پنجاب میں علاقائی تہواروں، شہروں، دیہاتوں اور دریاؤں کو مشرف بہ اسلام لانے کی ایسی ریت چلی کہ بہت سی اچھی روایت اس دھرتی سے روٹھ گئی اور اب تو بالکل ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔ پنجاب کی موجودہ نسل کوتو پنجاب کے مقامی ہیروز کےبارے علم تک نہیں ہے۔ نہ انہیں سکولوں میں انکے بارے بتایا جاتا ہے نہ ہی گھروں میں۔ اس لیے وہ زیادہ تر اس معاملے میں احساس کمتری کا ہی شکار ہوتے ہیں۔ ہم نے انہیں بابا بلھے شاہ، شاه حسین ،سلطان باہو ،بابا فرید ،خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش اور سلطان باہو کے مزارات کا تو بتایا ہے لیکن کبھی ان کی لکھی کتابیں نہیں پڑھائی۔ یہاں کے لوگوں کو لوک حکمت سے دور کرنے کی وجہ سے آج انتہا پسندی اور عدم برداشت کا ایک ایسا مرض اس معاشرے کو لاحق ہوگیا ہے جو آہستہ آہستہ اس معاشرے کے لئے ایک ناسور بن رہا ہے۔
مثبت پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں ان تہواروں کو پھر سے زندہ کرنا چاہیے تاکہ عدم برداشت کا جو عنصر اس معاشرے کے لئے روگ بناہوا ہے وہ ختم ہو اور مزہبی رواداری پروان چڑھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔