گزر جائیں گے جب یہ دن۔۔سیّد مہدی بخاری

جولائی کے دن ہمیشہ کی  طرح گرم تھے۔بارشوں کے آنے تک تپے ہوئے دن۔ کمروں میں خنکی سی۔ پنکھوں کا مسلسل چلنا۔نیلی چقوں کا گرا رہنا،مشروبات،سوکھی گھاس پر پانی کی تلاش میں پھرتی چھوٹی چھوٹی چڑیاں، کبھی کبھی درختوں سے آنے والی کوئل کی آواز ۔۔۔۔ کُو کُو  ۔۔ ایسے میں ٹھنڈے دنوں کی یاد کا آ جانا عجب اداسی پیدا کرتا ہے۔

سفر میری ذات کے لئے ذریعہ روزگار ہونے کے ساتھ دل بہلانے کا آسرا بھی ہے۔ شیرانگل کے آتے آتے جسم میں تھکن کا احساس بڑھ رہا تھا۔ اپر دیر سے چترال کو جاتی سڑک چھوڑ کر ایک سڑک دائیں ہاتھ مڑ جاتی ہے۔ یہ وادی کمراٹ کا باب ہے۔ باب کھلتا ہے تو چھوٹے چھوٹے پہاڑی قصبے ، ان میں بستے لوگ، پہاڑی ڈھلوانوں پر اپنے کھیتوں میں کام کرتی عورتیں اور سڑک کنارے لاٹھی کا سہارا لئے بیٹھے بزرگ مسافر کا استقبال کرتے ہیں۔ شیرانگل گاؤں تک سڑک پختہ ہے۔ اس سے آگے پل صراط ہے۔ کار کے لئے راستہ موزوں نہیں۔ میرا جیپ ڈرائیور سلطان علی چہرے پہ مسکان اور لبوں میں سگریٹ سلگائے میرا انتظار کر رہا تھا۔ گاڑی سے سامان جیپ میں منتقل کر کے سلطان کی مسکراہٹ مزید پھیلتی گئی، اس کی بلوری آنکھیں سکڑیں اور بولا ” چلیں شاہ صاحب ؟ “۔

جیپ چلی اور پھر پہاڑوں کے اندر گم ہو گئی۔ دھوپ ڈھلنے لگی۔ وادیاں تاریک ہونے لگیں۔ اوپر پہاڑوں کی چوٹیوں پر سورج آخری کرنیں بکھیر رہا تھا۔ چیڑ کے سدا بہار سرسبز درختوں سے مزین یہ پہاڑی چوٹیاں سورج کی روپہلی کرنوں سے چمک رہی تھیں۔ پھر سورج ڈوبا۔ شام کے سائے پھیلنے لگے۔ افق پر ایک کالا بادل گم صم ٹھہرا تھا جب جیپ ہوٹل میں داخل ہوئی۔ سلطان نے سامان کمرے میں منتقل کیا اور بولا ” شاہ صاحب ، صبح منہ اندھیرے نکلیں گے۔ آپ فوٹوگرافر ہو اور مجھے معلوم ہے فوٹوگرافی کے لئے وہ وقت اچھا ہوتا ہے جب سورج نکل رہا ہو”۔ سلطان کے جاتے ہی بستر پر نیند ٹوٹ پڑی۔

سورج ابھی پہاڑوں کی اوٹ میں کروٹ بدل رہا تھا۔ جیپ پتھریلے راستوں پر اچھلتی ہوئی چل رہی تھی۔ میرے ڈرائیور کی طویل خاموشی ٹوٹی ” شاہ جی جب عمران خان کمراٹ آیا تھا تو علی محمد خان نے مجھے کہا تھا کہ خان صاحب کی گاڑی تم نے چلانی ہے۔ اور ایسی چلانی ہے کہ ان کو پتا چلے کہ کمراٹ کا روڈ جلد بنوانا ہے”۔ یہ کہتے ہی اس کی ہنسی وادی کی خاموش فضا کو تار تار کرنے لگی۔

اس سے قبل میں کوئی سوال کرتا اس کی آواز پھر گونجی ” علی محمد صاحب کا میں ڈرائیور رہا ہوں شاہ صاحب۔ یہ سن 2013 کی بات ہے۔ خان صاحب ہیلی کاپٹر سے آئے۔ میں ان کو لے کر اسی روڈ پر نکلا۔ میرے پیچھے جیپوں کا کارواں تھا مگر صاحب میں نے وہ دبا کے گاڑی چلائی کہ سارا کارواں بہت پیچھے رہ گیا۔ کالا چشمہ پہنچنے تک خان صاحب نے کہا کہ بس ادھر گاڑی روک دو۔ باہر نکل کر انہوں نے علی محمد خان صاحب کا انتظار کیا اور ان کو دیکھتے ہی بولے کہ ہیلی کاپٹر ادھر ہی منگوا لو۔ واپسی اسی سڑک سے نہیں کر سکتا”۔ اب کے سلطان کا قہقہہ ایسا گونجا کہ اس کا پاؤں ایکسلیٹر پر زیادہ دب گیا۔ جھٹکا لگا تو میرا سر جیپ کی چھت سے جا ٹکرایا۔ سر سہلاتے میں نے کہا ” سلطان مجھے بھی ادھر ہی اتار دو” ۔۔۔

اس دن دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ میں پیدل چلتا رہا۔ اوپر سڑک پر سلطان آہستہ آہستہ جیپ چلاتا مجھے دیکھتا رہا۔ کمراٹ کی صبح دھند میں ڈوبی تھی، دریائے پنجکوڑہ کچی لسی جیسا بہتا محسوس ہوتا تھا۔ کنارے کنارے چلتے کئی دریا خیالوں میں بہنے لگے۔

دریائے چناب پر کہرے بھرے دن تھے، سفید پانیوں پر راج ہنسوں کے جوڑے تیرتے تھے۔ دریائے سوات پر دسمبر کی شامیں کہرے کی چادر اوڑھے کونجوں کا استقبال کرتی دیکھی ہیں۔ دریائے جہلم و نیلم پر دھند ٹکتی نہیں تھی بس ایک سفید ململی چادر چھائے رہنے کا گمان ہوتا تھا۔ دریائے سندھ بھاپ بن اڑتا دیکھا ہے۔نہ جانے کتنے دریاؤں کنارے میرے قدم پڑے اور کیسی سرد صبحوں و ٹھٹھرتی شاموں میں بہتے پانیوں کی دھن سنتا رہا ہوں۔ دریائے ٹیگس کے کنارے کشتیوں پر اوس پڑی تھی۔ حد نگاہ تک دھند تھی۔ ایسے منظر میں کسی نے مجھے کہا تھا ” جتنے دریاؤں کے کنارے تم نے دھند بھری صبحیں و شامیں بتائی ہیں وہ ایک طرف اور ٹیگس کنارے بیت رہی اس صبح کو تم یاد کرو گے۔”

میں نے اسے منیر نیازی کی نظم کا ترجمہ انگلش میں اپنے تئیں کر کے سنایا تھا۔
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہو گی

سلطان کی گرج دار آواز آئی تو دور دریائے سوات سے کونجوں کا غول اڑا ، چناب کے پانیوں سے راج ہنسوں کے جوڑے وداع ہوئے۔ جہلم نیلم سے دھند چھٹنے لگی۔ سندھ بہتا رہا۔ ٹیگس پر پھر سے خاموشی ٹوٹ پڑی تھی۔ دریائے پنجکوڑہ کے برفیلے پانی میرے پاؤں بھگو رہے تھے۔ وہ سارا دن کمراٹ کے اندرون دریا کی ہمسری میں بیت گیا۔ شام ڈھلنے لگی تو جسم کچھ سفر اور کچھ صبح سے پیدل چلنے کی صعوبت سے ٹوٹنے لگا۔ آسمان پر رنگ بکھر رہے تھے جن کا عکس پانیوں میں گھلا جا رہا تھا۔ ہاں، محبت اب نہیں ہو گی !
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہو گی۔۔۔

سائے پھیلنے لگے تو میں جیپ میں آن بیٹھا۔ سلطان اب کے بالکل خاموش تھا۔ پہاڑوں پر سورج ڈھل چکا تھا۔ ہیڈ لائٹس کی روشنی میں راہ دیکھتے وہ اسٹئیرنگ پر آگے کی طرف مکمل جھکا ہوا تھا۔ میں نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا ” سلطان تم ایک تو ہر وقت مسکراتے رہتے ہو یہ عادت کہاں سے سیکھی ؟ “۔ اس کے چہرے سے سنجیدگی رخصت ہوئی اور حسب معمول قہقہہ لگاتے بولا ” شاہ صاحب، مجھے میرے بچپن کے دوست نے معمولی سے مذاق پر پہاڑ سے دھکا دے دیا تھا۔ میری ریڑھ کی ہڈی کے مہرے فریکچر ہو گئے تھے۔ میں تین سال بستر پر پڑا رہا۔ میری نوکری چھوٹ گئی۔فاقوں کے دن آ گئے۔ گھر والی جو تھی وہ غربت برداشت نہیں کر سکی تو مجھے چھوڑ کر اپنے گھر چلی گئی۔ بڑے بھائی نے میرا علاج کروایا۔ وہ فوج میں ہے۔ ایک سال ہوا اب جیپ چلا رہا ہوں اور اس روڈ پر چلتے مجھے بھی بہت تکلیف ہوتی ہے مگر مجبوری ہے۔ تین سال بستر پر پڑے بہت رویا۔ اب رونا آتا ہی نہیں”۔۔۔ اس نے بات مکمل کر کے مسکراتے ہوئے میری جانب دیکھا تو میرا دل سوڈے کی بوتل مانند کھل کر منہ کو آنے لگا۔

ماحولیات کی ترقی سائنس کی بڑی دین ہے ۔ وہ بیماری ، زیبائش اور انسانی جسم کے آرام کے لئے سب کچھ کرتی اور سوچتی ہے لیکن روح کن پھندوں میں جکڑی ہے اس کا اسے احساس نہیں ہوتا اور اگر احساس ہوتا بھی ہے تو وہ کچھ کر نہیں سکتی کہ روح ایک غیر مرئی اور ہاتھ نہ آ سکنے والے شے ہے۔ شاید اس کی ترقی کے اصول لیبارٹری میں طے نہیں ہو سکتے یا اگر طے ہو بھی سکتے ہیں تو اس کی لیبارٹری اور قسم کی ہے۔ ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گرمیوں میں جب پنجاب میں لُو چلتی ہے مجھے دریائے پنجکوڑہ کی بہت یاد آتی ہے ، انسان کے پاس اس کی یادوں کا تصویری البم ایسا ہے کہ جب کھُلتا ہے تو کھُلتا ہی چلا جاتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply