شرکت کرنا ہمارا”مکالمہ کانفرنس” میں (دوسری قسط)

شرکت کرنا ہمارا”مکالمہ کانفرنس” میں (دوسری قسط)
(سٹیج کی سائیڈ کی کھڑکی سے )اندر گئے ؛ پردے کے پیچھے کے ماحول اور آثار وقرائن پر اچٹتی سی اک نظر ڈالی توپردے کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ ارباب ِ نظر نے پردہ ایسے ہی نہیں رکھا ہوا،نیز یہ سمجھ آیا کہ پردے پر ہمارے اہلِ مذہب کی اجارہ داری نہیں ، ہمارے اہلِ ثقافت وفنون لطیفہ بھی اس کے پورے پورے قائل ہیں۔ہاں اس کی تعبیر وتفصیل میں اختلاف دونوں کے مابین ہی نہیں، ہرگروہ کے اپنے اندر بھی موجود ہے۔بہر حال پردے کی بات پر زیادہ گفت گو پردے کے تقدس کے منافی ہے۔ہم اس کو آپ کے فہم وذکا کی گور گردن پر چھوڑ دیتے ہیں۔
پردے کے پیچھے جھانکنے کے بعد ہم پھر ہال سے باہر آئے ۔کانفرنس کا ٹائم ہو رہا تھا اور مختلف دوست رفتہ رفتہ تشریف لا رہے تھے۔رانا صاحب ابھی تشریف نہیں لائے تھے،لیکن ان کی کمی حافظ صفوان صاحب پوری فرما رہے تھے، حافظ صاحب واحد آدمی تھے، جن کو ہر کوئی جانتا تھا اور ہرکسی کو یہ جانتے تھے۔حافظ صاحب ایک تسلسل کے ساتھ ایک کو دوسرے ، دوسرے کو تیسرے ،تیسرے کو چوتھے سے ملائے جارہے تھے۔تعارف وواقفیت اور ملنے ملانے کے فن میں وہاں کو ئی تمغۂ حسن ِ کارکردگی کا مستحق تھا، تو وہ حافظ صفوان صاحب تھے۔حافظ صاحب کی اس فن میں مہارت دیکھ کر اپنے دل میں تمنا جاگی کہ کاش حکومت کوئی وزارت بنائے ، جس کا کام لوگوں کو لوگوں سے ملانا اور متعارف کرانا ہو اوریہ وزارت حافظ صفوان صاحب کے سپرد کر دی جائے، تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے۔
کچھ دیر کےبعد کانفرنس کا "دولہا" انعام رانا بھی آ گیا ۔یہ مرنجاں مرنج شخص سوشل میڈیا کے نادیدہ دوستوں سے ایسے مل رہا تھا، جیسے ہر ایک کا لنگوٹیا ہو اور اس کے ساتھ بچپن میں "چھپاکی جمعرات "کھیلتا رہا ہو۔ ہمیں لمبی جپھی ڈال کے یو ں بھینچ کے ملا جیسے بچپن کے"لکن میٹی "، "گلی ڈنڈے" ، گولی پلے " اور "نکاں پور"کے دوست دس پندرہ سال کی جدائی کے بعد ملتے ہیں۔ہم نے کہ بہت منتظر رہے تھے ، جملے کی بجائے پورا گانا ہی رانے پر کَس دیا: سانوں نہر والے پل تے بلا کے تے ہورے ماہی کتھے رہ گیا۔۔۔ساڈی اکھاں وچوں نیندراں اڈا کے تے ہورے ماہی کتھے رہ گیا۔۔۔
دوست آرہے تھے اور کمپلیکس کے باہر خوش گوار دھوپ میں ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ ہم ڈاکٹر سمیع اللہ فراز اور دیگر دوستوں سے مل کر ادھر ادھرپھرنے اور گپیں ہانکنے لگے۔ کبھی ہال کے اندر جاتے کبھی باہر آتے۔رانا آتے جاتے راستے میں ملتا تو کَہ جاتا: تواڈی تقریر پہلے ای اے ،کوئی نظر شظر مارلوو۔( پہلے آپ ہی کی تقریر ہے ، دیکھ پڑھ لیں)۔ہم دل میں کہتے: رانے تم سے بندہ پوچھے ہم نے پڑھنا ہی ہوتا تو گاڑی کے خاموش ماحول میں پڑھتے، یہاں تو رب کے رنگ دیکھنے کا ٹائم ہے۔لیکن رانے سے تخاطب کا لطف لینے کے لیے کَہ دیتے: ہاں جی رانا صاحب ! حاضر۔
پروگرام شروع ہوا ۔اظہر کمال (ژاں سارتر) نے کمال کی کمپیرنگ شروع کی۔بلا کے تخلیقی ،حظ آگیں اور پر سرور جملوں کے ساتھ انھوں نے کانفرنس کے اغراض ومقاصد پیش کیے؛مہمان مقررین کا تعارف کرایا۔ فصیح امام صاحب کی تلاوت قرآن پاک کے بعد ہمیں دعوتِ خطاب دی گئی۔ بارِ ثبوت گاڑی والی نوائے سروش پر ڈالتے ہوئے ہم نے کہا کہ ہمارے یہاں کے فرقوں میں ایک دوسرے سے اسی طرح ہر برائی کو منسوب کرنا جائز سمجھا جاتا ہے ، جیسے ایک زمانے میں اہلِ مغرب اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ سے ہر متصور برائی کو منسوب کرنا روا خیال کرتے تھے، کارلائل نے اہلِ مغرب کی ایسی بے سروپا باتوں پر گفت گو کرتے ہوئے، جناب رسالت مآب ﷺ سے متعلق اپنے لیکچر میں لکھا کہ ہم لوگوں کو شرم آنی چاہیے کہ ہم محمد( ﷺ) کے خلاف بات کرتے ہوئے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے رہے ،مثلاً پوکاک نے آپ (ﷺ) کی وحی سے متعلق کبوتر کا افسانہ پیش کرنے والے شخص گروشس سے پوچھا کہ تمھارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے، اس نے ڈھٹائی سے کہا: کوئی ثبوت نہیں! یعنی محمد ﷺ کو (نعوذ باللہ ) برا ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں ، جو مرضی کہا جاسکتا ہے،ٹھیک ہی ہوگا!رفتہ رفتہ مغرب کا ماحول بدلہ اور دلیل ومکالمے نے بات یہاں تک پہنچائی کہ آج وہاں بہت توانا آوازیں ایسی ہیں ، جو اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے حوالے سے قدیم پولیمیکل لٹریچر کو جہالت قرار دیتی ہیں۔ہمارے فرقہ ورانہ پولیمیکل لٹریچر میں بھی فرقے ایک دوسرے کے خلاف جو جی میں آئے کہنا روا سمجھتے ہیں، کہ جو بھی برائی اور کفرو فسق دوسرے کے بارے میں چاہیں لکھ لیں، درست ہی ہوگا، کہ وہ سراپا برائی ہے۔مغرب دلیل اور مکالمے سے دوسرے مذہب کے بارے میں پرانے خیالات پر نظر ثانی کررہا ہے، تو اس سے ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ کم ازکم اپنے اندرتو دلیل اور مکالمے کی طرح ڈال لیں۔نوائے سروش کے بحاف پر ہم نے یہ بھی کَہ ڈالا کہ برصغیر کے سنی صوفی اسلام میں بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث کی تقسیمیں جعلی ہیں ،جن سے بچنا چاہیے، اورکم ازکم پڑھے لکھے لوگوں کو خود کو ان شناختوں سے اپنی پہچان نہیں کرانی چاہیے۔ برصغیر کے شیعہ اورسنیوں میں تصادم اور ٹینشن کا جو ماحول پیدا ہوااس کی ذمے دار بھی سنیوں کی ان تین گروہوں میں تقسیم ہے۔
ہم چونکہ شاعر بھی واقع ہوئے ہیں اور کئی بار پکڑے جانے کے باوجود شاعری کی لت سے باز نہیں آئے۔اس لیے موقع غنیمت جانتے ہوئے تقریر کے آخر میں اپنے کچھ اشعار بھی جھاڑنے کی کوشش کی، بہانا یہ کیا کہ ساری باتیں نثر میں نہیں کہی جا سکتیں، سو ہماری ایک غزل کے چند اشعار سنیے:
اک دشمنِ بادہ رات،کہتا تھا لجاجت سے
ساقی کوئی پیمانہ ،جیوے ترا میخانہ
ذرا کان لگاو تو !کوئی ہانک لگاتا ہے
لے لو سبھی فرزانے دے دو کوئی دیوانہ
کیا لطف ِ حقیقت ہے! کیا سوزِ محبت ہے!
زاہد مری آنکھوں میں دیکھو کبھی رندانہ
گوشہر کے مفتی کا فتوی ہے کہ کافر ہے
شہبازؔ کوقبلہ ہے سنگِ درِ جاناناں
اچھا مقرر ہمارے یہاں وہی ہوتا ہے جو دوسروں کی سمع خراشی کرکے چلتا بنتا ہے اور دوسروں کو اپنی سمع خراشی کا موقع نہیں دیتا۔ہم چونکہ اچھے مقرر نہیں ہیں اس لیے اس طرح کا بہانا بنانے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں کہ ہماری کسی اور جگہ کمٹمنٹ ہے؛ہمیں تھوڑی دیر تک وہاں پہنچنا ہے؛ ہمارا انتظار ہو رہا ہے!اس لیے دوسروں کی سمع خراشی کر کے ہمیں اس کا بدلہ چکانا پڑتا ہے، مروت میں اتنی تقریریں سننی پڑتی ہیں کہ بیچ میں دل کرتا ہے کہ گردشِ ایام اگر پیچھے کی طرف لوٹ سکتی ہے ،تو ہم اپنی تقریر واپس لیے لیتے ہیں ، بشرطیکہ ہمیں دوسروں کی تقریر وں سے بچانے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔۔۔(جاری ہے)

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply