کوئی قتل کیسے کر سکتا ہے؟۔۔سعید چیمہ

ہماری ذہنی سطحیت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم ان گیارہ افراد کوفرقہ واریت کی آگ میں جھونک  رہے ہیں ، جو رزق کی تلاش میں مٹی کا رزق بن گئے، وہ انسان تھے، وہ اشرف المخلوقات تھے، ان کے عقائد ان کے ساتھ، مگر ان کا قتل، ان بہنوں کے چہروں سے ٹپکتی بے بسی سے تو شاید عرشِ خدا بھی ہل گیا ہو گا، کیا کسی کو یاد ہے کہ فتح مکہ کے دن اس کتیا کے بچوں کی حفاظت کے لیے صحابی کھڑے کیے گئے تھے تا کہ لشکر میں سے کوئی اس کتیا کے بچوں کو نہ  کچل   دے، کیا اس چڑیا کا شور کسی کو یاد ہے جو رسالتمآبﷺ نے سنا تو صحابی کو کہا کہ جس نے اس کا بچہ اٹھا کر چڑیا کو بے چین کیا ہے وہ واپس رکھے۔

وہاں جانوروں کے ساتھ سلوک کی معراج جاری ہے،یہاں مگر امتیوں کو امتیوں سے امان نہیں، کوئی بچھڑ جائے تو انسانی اعضا کہاں کٹتا ہے،یوں سمجھ لیجیےکہ جسم ایک لاش بن جاتا ہے، جو روح نکلنے تک گلنے سڑنے نہیں لگتا، ان ماؤں کو،ان بہنوں کو، ان بیٹیوں کو،ان بھائیوں کو چین کیسے پڑے، جن کے چمن اجڑ گئے،آندھی کے آثار بھی نہیں تھے، مگر پھر بھی ان کے چمن اجڑ گئے، وہ لوگ کس مٹی سے بنے ہیں،جن کے صبر کی کوئی حد ہی نہیں، جو قتل ہو رہے ہیں، مگر پھر بھی پُر امن ہیں، لوگوں کی آنکھوں سے لہو کیوں نہیں ٹپکتا، غالب کی آنکھ سے محبوب نے لہو ٹپکوایا تھا،یہاں گیارہ خاندانوں کو بے آسرا کر دیا گیا مگر پھر بھی حکمرانوں کی آنکھوں سے لہو نہ ٹپکا، یہ امت امن کی امین کب بنے گی، کہاں جا کر یہ قاتل مقتول کا کھیل ختم ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بار بار حکم ہوا کہ انسانی جان بہت محترم ہے، دیکھو ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنے لگ جانا، بے بسوں پر رحم کرنا، یوم الدین کا خوف رکھنا، اس بات کو مت بھولنا کہ ایک دن تم نے ہماری عدالت میں پیش ہونا ہے، اس دن پھر ہم تم سے پوچھیں گے کہ تم نے  کلیوں کی مانند معصوم لوگوں کا خون کیوں بہایا، کیوں تم اس قدر بے خوف ہو گئے کہ تم نے اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا، آخر کس چیز نے تمھیں ہماری نافرمانی پر مجبور کیا، کیوں تم اس بات کو بھول گئے کہ تمھیں ناحق قتل سے منع کیا گیا تھا، اس دن کیا عذر ہو گا، اے اللہ ہمیں شیطان نے بہکا دیا تھا، بتہیرے اس دن چالاکیوں کی کوشش کریں گے، شیطان مگر جواب دے گا کہ میں نے صرف تمھیں راستہ دکھایا تھا، رستے پر چلنے کا فیصلہ تو تم نے خود کیا تھا، سارے عذر اس دن بیکار جائیں گے، وہاں کوئی دنیا کا منصف تو نہ ہو گا جو دلوں کے بھیدوں سے لاعلم ہو گا، وہ تو علم الغیوب ہے، دل میں آنے والے خیالات کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے، قتل کی سزا کے بدلے میں جہنم  میں جلنے کا یارا کسے ہو گا، مگر جلنا پڑے گا، ناحق قتل کرنے کی صورت میں جلنا پڑے گا، اس دن سبھی اپنے اپنے انجام کو پہنچیں گے، قاتلوں کو جو دس بیس سال دنیا میں مہلت ملتی ہے وہ اس کو ابدی سمجھنے لگتے ہیں،خدا کی اس کائنات میں کچھ قوانین ہیں، جن میں تم ردو بدل نہ پاؤ گے، کسی کے انجام میں تاخیر تو ہو سکتی ہے، مگر چھوٹ نہیں۔

Facebook Comments