نیورون ڈاکٹرائن (30)۔۔وہاراامباکر

انیسویں صدی میں یہ خیال تھا کہ اعصابی نظام دورانِ خون کی طرح ہے۔ اس خیال کو ایک صدی پہلے ہسپانوی نیوروسائنٹسٹ سانتیاگو کاہال نے چیلنج کیا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ دماغ اربوں الگ خلیوں کا اتحاد ہے۔ یہ ہائی وے نہیں بلکہ مقامی سڑکوں کا نیٹورک ہے۔ اس فریم ورک کو نیورون ڈاکٹرائن کہا گیا۔ اس پر انہیں نوبل انعام ملا۔ نیورون ڈاکٹرائن نے ایک نئے اور اہم سوال کو جنم دیا۔ اگر خلیے الگ ہیں تو آپس میں رابطہ کیسے کرتے ہیں؟ اور اس کا جواب جلد ہی معلوم ہو گیا۔ یہ خاص نکتوں پر ملتے ہیں جن کو اب سائناپس کہا جاتا ہے۔ کاہال نے تجویز کیا کہ سیکھنے اور یادداشت کا تعلق ان جوڑوں کی مضبوطی سے ہے۔

ایک اور نیوروسائنٹسٹ ڈونالڈ ہیب نے 1949 میں اس خیال کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اگر خلیہ الف اور خلیہ جیم تسلسل سے ایک ساتھ فائر ہوں تو ان کا کنکشن مضبوط ہو جائے گا۔ اکٹھی فائرنگ اکٹھی وائرنگ کر دے گی۔

ہیب کے ہائیپوتھیسز کے حق میں تجرباتی مشاہدہ 1973 میں ملا۔ 1990 کی دہائی میں اس بارے میں شواہد مل گئے کہ اگر خلیہ الف فائر ہو اور خلیہ جیم فائر نہ ہو تو ان کا کنکشن کمزور پڑ جائے گا۔
یہاں سے سائنسدانوں نے یادداشت کی فزیکل بنیاد کا اندازہ لگا لیا۔ اس کا نیٹورک ایسی چیزوں کے درمیان لنک بناتا ہے جو اکٹھی روپذیر ہوں۔ اب خیال یہ تھا کہ فائرنگ کے اکٹھا ہونے سے بننے اور مٹنے والے کنکنشن عمر بھر کی یادداشتوں کی فزیکل بنیاد ہیں۔

مثال: آپ اپنے اچھے دوست اور اس کے گھر کے بارے میں سوچیں۔ آپ کے دوست کی یاد نیورونز کی ایک کہکشاں کو ٹرگر کر دے گی۔ اس کا گھر یادوں کی ایک اور کہکشاں کو۔ چونکہ یہ دونوں بیک وقت ایکٹو ہیں تو ان تصورات کا آپس میں تعلق بن جائے گا۔ اس کو ایسوسی ایٹو لرننگ کہا جاتا ہے۔ ایک تصور اپنے سے منسلک اگلے تصور کو چھیڑ کر اس کو زندہ کر دے۔ اور اس سے بڑھ کر؟ یہ اپنے ساتھ کئی تصورات کو واپس لا سکے۔ ایک دوسرے سے شرارتیں، کھانے اور قہقہے روشن ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فزسسٹ جان ہوپ فیلڈ نے 1980 کی دہائی یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا مصنوعی نیورل نیٹورک “یادوں” کی چھوٹی سی کلکشن کو سٹور کر سکتے ہیں۔ ایک پیٹرن سے سائناپس جو دوسرے کو مضبوط کر دیں؟ اس طریقے سے robust نیٹورک بنا لینے میں کامیابی ہوئی جن میں ضرر سہنے کی صلاحیت تھی۔ ہوپ فیلڈ نے سادہ مصنوعی نیورل نیٹورکس میں یاد کی اس ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں نئی تحقیقات کا سیلاب امڈ آیا جن جو ہوپ فیلڈ نیٹ کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد آنے والی دہائیوں اور خاص کر حالیہ برسوں میں مصنوعی نیورل نیٹورک کا میدان بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس نیٹورک کے ڈیزائن کا بہتر ہونا نہیں بلکہ کمپیوٹنگ پاور میں ہونے والا بے تحاشہ اضافہ ہے جس سے بڑے اور طاقتور نیٹورک بنائے جا سکتے ہیں۔ ان سے دنگ کر دینے والے کارنامے سرانجام دئے جا چکے ہیں۔ بہترین انسانی دماغوں کو کئی شعبوں میں بآسانی پچھاڑا جا چکا ہے۔

البتہ، اس شعبے میں پائی جانے والی دلچسپی اپنی جگہ لیکن مصنوعی نیورل نیٹورک کا کام کرنے کا طریقہ دماغ سے بہت زیادہ دور ہے۔ مصنوعی نیورل نیٹورک حیران کن طور پر متاثر کن نتائج دیتے ہیں لیکن جب انہیں اپنی مہارت سے ذرا سا ہٹ کر کام دیا جائے تو بالکل ہی ناکام ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلی اور کتے کو الگ کرنے والا نیٹورک پرندوں اور مچھلیوں کو الگ نہیں کر پاتا۔ اگر اس شعبے کا آغاز دماغ کے ڈیزائن سے متاثر ہو کر کیا گیا تھا لیکن یہ اپنی سادہ اور مفید سمت لے چکا ہے جو بالکل الگ راستہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دماغ میں کیا جادو ہے؟ (یعنی وہ چیز جو ابھی تک مصنوعی نیورل نیٹ ورک نہیں کر سکے)۔ نیوروسائنس کی وضاحت بہت بار کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کے استعاروں کے ساتھ کی جاتی ہے لیکن یہ طریقہ وضاحت سے زیادہ کنفیوژن پیدا کرتا ہے۔ اس کے لئے ہم ان کو ذہن سے نکال کر اصل بائیولوجیکل یادداشت کے چیلنج اور اس کے حربوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments