• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا مذہبی پیشوائیت سرمایہ دارانہ نطام کی ڈھال ہے؟۔۔شاداب مرتضٰی

کیا مذہبی پیشوائیت سرمایہ دارانہ نطام کی ڈھال ہے؟۔۔شاداب مرتضٰی

کیا کسی شخص کا محض دانشور ہونا یا مشہور دانشور ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی بات درست ہے؟ مثلاً نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی پسماندگی کا سبب مذہبی توہم پرستی ہے۔ پاکستان کو ترقی کرنے کے لیے سائنس کی جانب قدم بڑھانا ہو گا۔

جزوی طور پر تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر پاکستان سرمایہ داری اور سامراجیت کے شکنجے سے نہیں نکلتا تو کیا مذہبی توہم پرستی ختم ہوگی اور سائنسی ترقی کا فائدہ عوام الناس کو ہوگا؟

کیا ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں سائنسی ترقی سے سماجی نابرابری، ظلم اور استحصال ختم ہوگیا؟

کرونا کی مثال لیں۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں شعبہِ صحت میں سرمایہ دارانہ غلبے کے سبب کرونا سے ہونے والی اموات کی شرح بلند ترین ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟

اس لیے کہ اگر سماجی نظام سرمایہ دارانہ ہو تو سائنسی ترقی کا مقصد سرمایہ داروں کے کاروباروں کے لیے دولت پیدا کرنا ہوتا ہے معاشرے کو ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ، صحت مند اور خوشحال بنانا نہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی سرمایہ داروں کی دولت بڑھاتی ہے عوام کا معیارِز ندگی نہیں۔ تعجب ہے کے نوم چومسکی جیسے “مارکسی” دانشور کو اس بات کا ادراک و احساس نہیں۔

دوئم، کیا مذہبی توہم پرستی ترک کردینے سے سرمایہ دارانہ نظام کا ظلم، جبر اور استحصال ختم ہوجاتا ہے؟

اگر ایسا ہے تو امریکہ جیسے ترقی یافتہ سائنسی ملک کا موازنہ تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں سے کرنے کا رواج کیوں زور پکڑ رہا ہے؟ امریکہ میں غربت، بیروزگاری، ناخواندگی، جسم فروشی اور دیگر جرائم، الغرض طبقاتی نابرابری، جبر اور استحصال کے مظاہر کیوں بدتر ہوتے جا رہے ہیں؟

ظاہر ہے کہ اس کا سبب امریکی شہریوں کی مذہبی توہم۔پرستی تو نہیں ہے۔

سوئم، پاکستان میں مذہبی توہم۔پرستی اور انتہا پسندی کو رواج دینے میں عالمی سرمایہ دارانہ مفادات، خصوصا ً امریکہ اور برطانیہ کے سامراجی مفادات کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟

کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو مذہبی توہم پرستی اور انتہا پسندی کی دلدل میں دھکیلا۔ پاکستان کا حکمران سرمایہ دار طبقہ اپنی طبقاتی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے مذہب کو سیاست میں استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ، پاکستان میں مذہبی توہم پرستی یا انتہا پسندی کا مسئلہ یہاں کی مٹی کی خرابی یا یہاں کے لوگوں کی ذہنیت کی کوئی دائمی خرابی یا ان کی “جین” کی کوئی خاصیت نہیں بلکہ سامراجی مفادات اور مقامی حکمران سرمایہ دار طبقے کے داخلی مفادات کا شاخسانہ ہے۔ اور یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں۔ امریکی اور یورپی سامراجی طاقتوں نے تمام مسلم اکثریتی ملکوں میں مذہبی توہم پرستی اور انتہا پسندی کو مقامی حکمران طبقے کی مدد سے مختلف طریقوں سے اپنے معاشی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور ان کی آبیاری کی ہے۔

کیانوم چومسکی جیسا عالم اس بات سے ناواقف ہے؟

چنانچہ، مذہبی توہم پرستی، انتہا پسندی اور سائنس سے دوری پاکستان کا یقیناً ایک اہم مسئلہ ضرور ہے لیکن یہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ نوم چومسکی جیسے “مارکسی” دانشور کو یہ عمومی مارکسی صداقت معلوم ہونی چاہیے کہ غربت اور مذہبی توہم پرستی اور انتہا پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دنیا کے تمام ترقی پذیر ملکوں میں تمام رجعتی قوتیں سامراجیت کی حلیف ہیں۔ یہ عمومی طور پر صرف یورپ کی حد تک تھا کہ سرمایہ دار طبقے نے چرچ اور جاگیرداری کا تختہ الٹ کر مذہبی توہم پرستی کی غالب حیثیت کو ختم کر دیا۔ جب مغربی سرمایہ دار سامراجیت میں ڈھلا تب ہر جگہ ہر قسم کی رجعت پرستی کو اس نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور ان رجعتی قوتوں کے  ذریعے اپنے مقبوضہ یا منحصر ملکوں میں ترقی پسند قوتوں کو دیوار سے لگا کر ان کی سماجی ترقی کا راستہ روکا۔

پاکستان میں اس حقیقت کا سادہ ترین اظہار مدرسے ہیں۔ ہر کوئی مدرسوں میں جا کر دیکھ سکتا ہے کہ وہاں پڑھنے والے بچے اور بچیاں کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟ امیر طبقے سے یا غریب طبقے سے؟ پاکستان کا حکمران سرمایہ دار طبقہ لازمی، مفت اور معیاری سرکاری تعلیم کا نظام قائم نہیں کر سکا، نجی تعلیم کی پالیسی پر گامزن رہا اور دوسری جانب عوام سے روزگار چھینتا رہا ہے۔ ان حالات میں مدرسے اگر روٹی، کپڑا اور رہائش دیتے ہیں اور ساتھ میں دین کی مفت تعلیم بھی دیتے ہیں تو پھر غریب کا بچہ مدرسے کیوں نہیں جائے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

مذہبی توہم پرستی اور انتہا پسندی کی بنیاد جس مسئلے میں ہے وہ دراصل سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کا ہی پیدا کردہ ایک مسئلہ ہے۔ ایسے دانشور یا ایسے “مارکسی” دانشور جو لوگوں کے سامنے اصل، بنیادی مسئلے کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ ان کے سامنے بنیادی مسئلے سے پیدا ہونے والے اضافی، سطحی مسئلے کو بنیادی اور اہم مسئلہ بتاتے ہیں، ان میں اور نیم حکیم میں کیا فرق ہے، بے شک ایسے دانشور کتنے ہی مشہور کیوں نہ ہوں اور کتنی ہی کتابوں کے مصنف کیوں نہ ہوں، دانشور ہونا، مشہور دانشور ہونا یا کئی کتابوں کا مصنف ہونا درست، صحیح اور برحق ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری