یاد کا گنجلک (30)۔۔وہاراامباکر

آئن سٹائن نے اپنے آخری الفاظ 1955 میں پرنسٹن کے ہسپتال میں ادا کئے۔ اپنی آخری سوچیں الفاظ میں بیان کیں۔ ہر ایک کو تجسس تھا کہ اس عظیم سائنسدان نے آخری وقت میں کیا کہا لیکن ہم کبھی بھی نہیں جان پائیں گے۔ اس لئے نہیں کہ ان کے پاس کوئی نہیں تھا۔ نرس ان کے پاس ہی تھی لیکن انہوں نے اپنے آخری الفاظ اپنی آبائی زبان جرمن میں کہے تھے۔ رات کی ڈیوٹی پر اس نرس کو صرف انگریزی آتی تھی۔ یہ الفاظ گُم ہو گئے۔ لیکن آئن سٹائن نے اس وقت بولنے کے لئے جرمن کیوں استعمال کی؟ اس کی وجہ رِبوٹ کا قانون ہے۔
ربوٹ کا قانون نیورولوجی کا سب سے پرانا پہچانے جانے والا پیٹرن ہے۔ 1882 میں ربوٹ نے اسے نوٹ کیا تھا کہ پرانی یادیں نئی یادوں کے مقابلے میں دیرپا ہوتی ہیں۔ اگر آپ کسی کو جانتے ہیں جسے ڈیمینشیا ہے تو آپ نے بھی اسے نوٹ کیا ہو گا۔ اور یہ اس چیز کی وضاحت کرتا ہے کہ کئی لوگ زندگی کے آخر میں اپنی بچپن کی زبان کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
اور اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ یہ پیٹرن عجیب ہے۔ سٹوریج کے نظام ایسے کام نہیں کرتے، خواہ کسی بھی طرح کے ہوں۔ اداروں میں لیڈرشپ کے پرانے عہد کی یادیں بھلا دی جاتی ہیں۔ تعلیمی ادارے نئے ٹرینڈ پر توجہ دیتے ہیں۔ حکومتیں اپنی حالیہ کامیابیوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ کبھی کوئی اپنی عظمتِ رفتہ کے قصے سنا کر شیخیاں نہیں بگھارتا۔
دماغ اس سے الٹ کیوں کرتا ہے؟ پرانی یادیں زیادہ دیرپا کیوں ہوتی ہیں؟ یہ اس کے کام کرنے کا طریقہ سمجھنے کا اہم سراغ ہے۔ اور اب ہم اس اہم فینامینا کی طرف آتے ہیں جس کو “یاد” کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈین فلم “گجنی” میں ہیرو مختصر مدت کی یادداشت کو طویل مدت میں تبدیل نہیں کر پاتا۔ اس حالت کو اینٹیروگریڈ ایمنیشیا کہا جاتا ہے۔ ہیرو کو یہ یاد ہوتا ہے کہ پچھلے پانچ منٹ میں کیا ہوا لیکن اس سے پرانی یادیں بھول جاتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ اہم یادداشتیں اپنے جسم پر لکھتا جاتا تا کہ اپنا مشن نہ بھول جائے۔ اور اس طریقے سے وہ وقت کے دھارے میں خود سے کلام کر سکتا تھا۔
ہم سب گجنی کے ہیرو کی طرح ہیں۔ لیکن ہم اپنی یادیں (مثلاِ، میں کہاں گیا تھا) اپنے جسم کے بجائے نیورل سرکٹری میں نقش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو نے یاد کے عمل کی وضاحت کی پہلی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اس کے لئے موم کی مہر کا استعارہ استعمال کیا تھا۔ بدقسمتی سے ان کو اچھا ڈیٹا دستیاب نہیں تھا۔ زندگی کے واقعے کا سر میں یاد بن جانا ہزاروں سال تک پرسرار رہا۔
نیوروسائنس نے یہ گتھی سلجھانا شروع کی ہے۔ اب ہمیں علم ہے کہ جب آپ اپنے نئے ہمسائے کا نام سیکھتے ہیں تو اس سے دماغ کے سٹرکچر پر فزیکل تبدیلی واقعہ ہوتی ہے۔ اور اس تبدیلی کو معلوم کرنے میں سائنسدانوں کی دہائیاں لگی ہیں کہ یہ کس طرح نیورونز کے وسیع و عریض سمندر میں اثر ڈالتی ہیں۔ کس طرح یہ علم کو مجسم کرتی ہیں اور کس طرح ان کو واپس حاصل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس معمے کے کئی ٹکڑے ابھی غائب ہیں لیکن تصویر ابھرنے لگی ہے۔
یادداشت کی سادہ ترین قسم کی خلیاتی اور نیٹورک لیول پر بہت زیادہ سٹڈی کی جا چکی ہے۔ اور اس کے لئے جس جاندار کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ سمندری سلگ ہے۔ سمندری سلگ ہی کیوں؟ اس لئے کہ اس کے نیورون بڑے سائز کے ہیں اور تھوڑے سے ہیں۔ اس لئے ان کو سٹڈی کرنا آسان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تجربے میں سائنسدان اس جاندار کو ایک ڈنڈی سے ہلکا سا چھیڑتے ہیں۔ یہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ لیکن اگر سائنسدان یہ کام ہر نوے سیکنڈ کے بعد کریں تو کچھ عرصے بعد یہ پیچھے ہٹنا بند کر دیتا ہے۔ یہ “یاد” رکھ لیتا ہے کہ اس ڈنڈی میں کوئی مضر چیز نہیں۔ اب سائنسدان اس ڈنڈی کو چھیڑنے کے ساتھ ہی اس کی دم پر ایک برقی جھٹکا دیتے ہیں۔ اور اس صورت میں اس کا پیچھے ہٹنا زیادہ تیز ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب کہ یہ اس نے “یاد” رکھ لیا کہ اس ڈنڈی کے ساتھ ہی کچھ تکلیف دہ شے بھی ہے۔
ان تجربات نے سائنسدانوں کو مالیکیولر سطح پر تبدیلیاں دیکھنے کا موقع دیا۔ لیکن ممالیہ کی یادداشت کی صلاحیت اس سادہ جاندار کے سادہ مکینزم سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ انسان اپنی آپ بیتی کی تفصیلات یاد رکھتے ہیں۔ ہم صرف واقعات نہیں، خود اپنے خواب اور خیال بھی یاد رکھ سکتے ہیں۔ ہم جغرافیے کے خد و خال بھی یاد رکھتے ہیں۔ ہم وہ مہارتیں بھی یاد رکھتے ہیں جو ہمیں کمرشل، سوشل اور موسمیاتی حالات میں سے گزرنا سکھاتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہی ہم غیرمتعلقہ جزئیات کو بھلا دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ “کیا کہا گیا تھا” یا رہ جاتا ہے۔ “الفاظ کیا تھے” بھول جاتے ہیں۔ (اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ چابی کہاں رکھی تھی 🙁 )۔
ممالیہ کی یاد کی فزیکل بنیاد پر سب سے پہلے ہارورڈ کے نیوروبائیولوجسٹ کارل لییشلے نے 1920 کی دہائی میں کام شروع کیا۔ ان کی منطق یہ تھی کہ اگر چوہوں کو کوئی چیز سکھائی جائے (جیسا کہ بھول بھلیوں میں سے ٹھیک راستہ) اور دماغ کا چھوٹا سا ٹکڑا نکال لیا جائے جس میں وہ یاد ہے تو یہ یاد بھی غائب ہو جائے گی۔ صرف وہ والا جادوئی مقام تلاش کرنے کی بات ہے۔ اس کو نکال لینے کے بعد یہ دکھانا ہے کہ اس کے بعد اس چوہے کو راستہ بھول گیا۔
لیشلے نے بیس چوہوں کو یہ راستہ سیکھنے کی تربیت کی اور پھر کورٹیکس کے مختلف علاقوں کو اپنے نشتر سے کاتا۔ اس کے بعد انہیں تندرست ہونے کا وقت دیا اور ہر چوہے کو دوبارہ ٹیسٹ کیا کہ کونسا علاقہ ہے جس کے بعد یہ یاد چلی جاتی ہے۔
یہ تجربہ ناکام رہا۔ کوئی بھی چوہا راستہ نہیں بھولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تجربے کی ناکامی اس کی دیرپا کامیابی تھی۔ لیشلے کو احساس ہوا کہ چوہے کی یاد صرف کسی ایک مقام تک محدود نہیں۔ یہ وسیع علاقے پر پھیلی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یاد کا کوئی ایک خاص سٹرکچر نہیں۔ یادوں کا ذخیرہ کسی الماری پر لگی کتابوں جیسا یا ہارڈ ڈسک کی سٹوریج کی طرح کا نہیں ہے۔ اگر کمپیوٹنگ سے اس کا موازنہ کرنا ہو تو یہ کلاوڈ کمپیوٹنگ کی طرح سیارے بھر کے کئی سرورز پر بکھرا ہے اور اکثر اس میں redundancy زیادہ ہے۔
لیکن ایک نام، ایک سفر، ایک نظم ۔۔۔ یاد ان اربوں خلیوں کے پھیلے سیٹ پر کیسے لکھی جاتی ہے؟ کونسی پروگرامنگ کی زبان ہے جو تجربے کی دنیا کو فزیکل دنیا میں ترجمہ کرتی ہے؟۔ اس کے لئے ہم یاد کے گنجلک پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply