ٹھنڈی چائے۔۔سکندر ابوالخیر

شکاگو سے کراچی پہنچنے والی فلائٹ لیٹ تھی۔ صبح سات کے بجائے دس بجے بھائی کے گھر پہنچا۔ آج میری بھتیجی مہرین کی شادی تھی۔
ناشتے پر سب بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ ناشتہ ہوتے ہی گھر کے سب لوگ مختلف کاموں میں مصروف ہونے والے تھے،میں نے بیگم صاحبہ کے دیے ہوئے تحائف بھابی کے حوالے کیے، مہرین کو ڈائمنڈ سیٹ بہت پسند آیا۔مختصر حال احوال دریافت کرنے کے بعد میں نے اجازت چاہی اور اوپر کی منزل پر چلا گیا جہاں گیسٹ روم ہمیشہ تیار ہوتا تھا۔ کچھ دیر آرام کرنا چاہا مگر نیند نہیں آئی۔لیپ ٹاپ نکالا اور ای میلز چیک کرنے لگا۔
کھلے دروازے پر ہلکی سی دستک کے ساتھ ہی یہ آواز سنائی دی۔۔
انکل جی۔۔ یہ لیں آپ کی گرما گرم چائے، دو ٹی بیگ، ڈبی کے دودھ اور آدھ چمچی چینی والی۔ اس نے چائے میز پر رکھ دی۔
اس کے لہجے کا فخریہ انداز شاید کسی شاباشی ملنے کا متقاضی تھا۔
میں نے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ حیرانگی سے پوچھا ، ارے واہ ، مگر تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں ایسی چائے پیتا ہوں؟
انکل جی میں کیسے بھول سکتی ہوں۔۔ مگر شاید آپ مجھے بھول گئے ہیں۔ آٹھ سال جو ہوگئے۔۔
آپ پچھلی باری آئے تھے تو میں ماں کے ساتھ یہاں کام کرنے آتی تھی۔
آپ نے مجھے کتابیں دلوائی تھیں اور اماں کو پیسے بھی دیے تھے مجھے واپس سکول بھیجنے کے لئے۔۔۔کچھ یاد آیا؟۔
میں نے شرمندگی اور حیرانی کے ملے جلے لہجے میں کہا، ارے معاف کرنا میں شاید بوڑھا ہو گیا ہوں بھول جاتا ہوں، اچھا تو تم نذیراں کی بیٹی ہو؟
جی جی۔۔ بالکل وہ خوش ہو گئی کہ مجھے یاد آ گیا ہے۔
میں نے  ذہن پر بہت زور دیا مگر اس کا نام یاد نہ آیا کچھ روزینہ یا زرینہ قسم کا نام تھا۔ تمہارا نام زرینہ ہے؟ میں نے اندازے سے پوچھا۔
اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور نفی میں سر ہلا دیا۔
انکل جی میرا نام روبینہ ہے۔ اس نے روبینہ پر زور دے کر کہا۔۔ ویسے نام میں کیا رکھا ہے روبینہ ہو یا زرینہ۔۔۔ سارا کھیل تو نصیبوں کا ہے۔۔ اب اس کا انداز فلسفیانہ ہو گیا تھا۔
اس کی بے باکی اور انداز میں کچھ تھا کہ بات آگے چل نکلی۔۔
نذیراں کہاں ہے ؟ میں نے پوچھا۔
اماں تو بیمار رہتی ہے، اب اس کی جگہ میں ہی کام کرتی ہوں۔اس کے لہجے کی کھنک ماند پڑ گئی تھی۔
کیا ہوا نذیراں کو؟ میں نے دریافت کیا۔
ڈاکٹر کہتے ہیں اس کے جوڑ جواب دے گئے ہیں۔ بس بڈھی بھی تو ہو گئی ہے۔ اس نے ڈاکٹروں کی  رائے کے ساتھ اپنی تشخیص بھی بیا ن کر دی
اللہ اس کو صحت دے میں نے یہ کہہ کر اس سے پوچھا، اچھا یہ بتاؤ تم نے واپس  سکول میں داخلہ لے لیا تھا؟
ارے کہاں  انکل جی۔ وہ پیسے بابے نے اماں سے لے لئے کہ میرے بیاہ پر خرچ کرے گا۔
انکل جی چائے پی لیں ٹھنڈی ہو جائے گی۔ آپ ہی تو کہتے تھے، ٹھنڈی چائے میں بھی بھلا کوئی مزہ ہوتا ہے۔ وہ بات کا رخ موڑنا چاہتی تھی۔
صاحب اور باجی شادی ہال دیکھنے اور چھوٹی بی بی بیوٹی پارلر چلی گئی ہیں۔۔
آپ کو کوئی کام ہو تو بتا دیں ۔ ابھی میرے پاس وقت ہے
میں نے اس کی آفر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، چلو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں، وہ پیسے شادی پر ہی کام آ جائیں گے ۔۔
یہ سن کر وہ بالکل خاموش ہو گئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔
انکل جی چھ بجے شادی ہال جانا ہے، آپ کو کپڑے استری کروانے ہیں تو مجھے دے دیں۔ اگر باجی نے آ کر کسی اور کام میں لگا دیا تو پھر مشکل ہو جائے گی۔۔ اب اس کا انداز ناصحانہ ہو گیا تھا۔
شکریہ روبینہ مگر میری تو سب تیاری مکمل ہے۔ میں نے اسے آگاہ کیا۔
اس نے میرے خاندان کی خیریت معلوم کی خصوصاً  میری  بیٹی آرزو کے بارے میں پوچھا جو روبینہ کی ہم عمر ہے، پچھلے سفر میں پورا خاندان ساتھ آیا تھا اسے سب لوگ یاد تھے۔
ہاں بھئی وہ ٹھیک ہے اب یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے ۔
میرا جواب سن کر اس کے چہرے پر شفقت بھرے جذبات دکھائی دیئے
اللہ کامیاب کرے، بہت خوش رکھے۔ اس نے دعا دی۔
اللہ تمہیں بھی خوش رکھے ، میں نے بھی جواب میں دعا دی۔
وہ ایک مرتبہ پھر خاموش ہو گئی ۔۔۔
ایک توقف کے بعد کہنے لگی، میں بہت خوش ہوں انکل جی۔ صاحب اور باجی میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ مجھے اوروں سے زیادہ پگار دیتے ہیں، ماں کی دوا اور ڈاکٹر کا خرچہ بھی اٹھاتے ہیں۔ ایسے لوگ نصیب والوں کو ملتے ہیں ۔ اب میں نے یہاں پر ہی ساری زندگی گزار دینی ہے۔
اس کی  خوش نصیبی کے اس بیانیہ سے کچھ کچھ قسمت کا گلہ بھی ظاہر ہو رہا تھا۔
میں نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا، یہ سب تو ٹھیک ہے روبینہ لیکن ایک دن تمہارا اپنا گھر بھی آباد ہو گا۔
اس مرتبہ اس نے خاموش نہ رہنے کا فیصلہ کیا اور دھیمے لہجے میں کہنے لگی،
انکل جی۔۔۔ آپ سے کیا چھپانا۔ دو برس پہلے میرا بیاہ ہوا تھا۔ میرا مرد دل کا اچھا تھا مگر نشے میں پڑ کر نکما ہو گیا۔ ہر وقت غصہ کرتا تھا۔ میری کمائی سے اس کے خرچے پورے نہیں ہوتے تھے۔ مار تو میں سہہ لیتی تھی مگر ایک دن اس نے میرے بابے اور ماں کو گالیاں نکالیں۔ میری بھی بس ہو گئی انکل جی۔ میں بھاگ کے گھر واپس آ گئی۔
اس نے ایک ہی سانس میں پوری کہانی سنا ڈالی۔
بہت افسوس ہوا سن کر۔ اس کے علاوہ میری زبان سے کچھ اور نہیں نکل سکا۔ مگر میرا دل دہل گیا تھا۔ میرے لہجے میں تشویش سنی جا سکتی تھی
انکل جی ، جانے دیں پرانی بات ہو گئی ۔ میرا چہرہ دیکھ کر وہ الٹا مجھے تسلی دے  رہی تھی۔
روبینہ، اچھے لوگوں پر برے حالات بھی آ جاتے ہیں۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے ۔ انشا اللہ دوسری بار اچھا ہو گا۔ میں نے نہ جانے کیوں اس کو دوسری بار کا اشارہ دینا ضروری سمجھا۔
میری ماں اور بابے نے بہت کوشش کی کہ میں واپس چلی جاؤں یا دوسرا بیاہ کر لوں مگر اب میرا من نہیں کرتا۔ اس نے اپنا نکتہ نظر واضح کر دیا۔
اس مرتبہ خاموش ہونے کی باری میری تھی۔ ایک با صلاحیت زندگی سے بھر پور انسان کا ایسا حال سن کر میں اداس ہو چکا تھا، اور مختلف خیالات میں بھٹکنے لگا۔
نہ جانے اس میں کون سا حوصلہ تھا۔۔ اس کی کھنکتی ہوئی آواز مجھے خیالی دنیا سے واپس لے آئی۔
انکل جی۔۔۔ آپ ہی کہتے ہیں ناں ۔۔ ٹھنڈی چائے میں بھی بھلا کوئی مزہ ہوتا ہے۔
تو بس۔۔۔

ارے دیکھیں میری  باتوں میں آپ کی چائے ٹھنڈی ہوگئی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

لائیں  میں پھر سے گرم کرکے لاتی ہوں ،اس نے چائے کا مگ اٹھایا،اور جلدی سے کمرے نکل گئی۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply