ہمارے امام۔۔۔عارف خٹک

ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ جہاں امام کے پیچھے نماز صرف رمضان  میں ادا کی جاتی تھی۔وہ بھی خصوصی طور پر پاس کے مدرسے سے بامعاوضہ زیر مطالعہ طالب علم کو بطور امام ہائیر کیا جاتا۔ اور پورا مہینہ نماز اور تراویح پڑھانے کا معاوضہ دو من گندم اور مبلغ دو ہزار روپے ادا کئے جاتے۔ یہ الگ بات کہ گاؤں کے ستر گھروں سے یہ پیسے ہم کیسے اکھٹے کرتے تھے یہ ہم جانیں اور ہمارا خدا۔

پہلے سال جس امام کو ہائیر کیا گیا تھا۔ عید سے ایک رات پہلے اپنی امامت کے فرائض سے سبکدوش ہوگیا۔ اگلے دن اپنے ماموں کا قتل کرڈالا۔
اگلے سال جو امام ہائیر کیا گیا۔ اس کی آواز میں جو درد اور سوز تھا لوگ خصوصی طور پر ان سے نعتیں سننے دور دور سے  آتے۔ ہمارے گاوں میں ایک ماہ تراویح پڑھانے کے بعد عید کے تیسرے دن اپنی  آڈیو کیسٹ بمعہ طبلہ اور ہارمونیم کے ریکارڈ کرلی اور داڑھی مونڈھ لی گئی۔

بڑی مشکل سے ایک اور امام کافی ضمانتوں اور منتوں کے بعد مدرسے کے مہتمم نے دیا اور آخری وارننگ دی کہ آخری بار دے رہا ہوں۔ الحمداللہ مہینہ سکون سے گزر گیا۔ امام صاحب نے اگلے ہی دن اپنے گاؤں کی  لڑکی بھگا لی۔اور کالک ہمارے گاؤں کے چہرے پر مل دی۔
چوتھے سال مدرسے والوں نے امام دینے سے معذرت کرلی کہ جو بھی امام آپ لوگوں کے پاس گیا وہ بگڑ گیا۔ سو بہتری اسی میں ہے کہ اب کوئی امام آپ لوگوں کو نہیں دیا جائیگا۔

ہمارے دادا حضور جو نمبردار بھی تھے۔ بڑی مشکل سے بنوں سے ایک نوجوان مولانا کو ساتھ لیکر آئے۔ امام صاحب خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے۔ لال ہونٹ، نیلی انکھیں، گورا چٹا رنگ اور بھرا بھرا جسم۔ بلکہ یوں سمجھیں سید محمد سمیع کی کاپی تھے۔ چار کلومیٹر دور گاؤں سے بھی لوگ اب ہماری چھوٹی سی مسجد میں تراویح پڑھنے آجاتے تھے۔حالانکہ ان کے اپنے گاؤں میں ختم قرآن کا اہتمام ہوتا تھا۔ گاوں کی اس چھوٹی سی مسجد میں اچانک نمازیوں کا جم غفیر ہوجاتا۔ یہ الگ بات کہ کافی سارے نمازیوں کو میں اپنی گناہگار آنکھوں سے اس وقت نیت باندھتے دیکھا جب امام صاحب سجدہ ادا کررہے ہوتے۔ دو دن تک دادا ہر گھر میں خود گئے اور ہر نوجوان کو ماں بہن کی گالیاں دے دیں ایڈوانس میں، کہ خبردار اگر اس مولانا کو کسی نے خراب کیا۔ ایک ہفتہ خیر خیریت سے گزرا۔ اگلے ہفتے حالت سجدہ میں امام صاحب کو کسی نے انگلی کردی۔
امام صاب نے دادا سے شکایت کی کہ ان کو دوران نماز کسی نے غلط جگہ انگلی کی ہے۔ اگلی رات کی تراویح میں دادا نماز سے پہلے کھڑے ہوگئے اور سب کو وہ ننگی گالیاں صف اول پر کھڑے ہوکر دیں کہ سب کی طبعیت صاف ہوگئی ۔ دادا بھاری بھر کم آواز میں صلواتیں سنا رہے تھے۔ اور آخر میں کہا خبردار امام صاحب کو کسی نے دوبارہ غلط جگہ انکلی کی۔ بے غیرتو! انگلی غلط جگہ نہیں بالکل صحیح جگہ کرنی ہوتی ہے۔

اگلے دن سے ساری نمازیں اور تراویح سب نے باجماعت مسجد میں اکیلے اکیلے پڑھ لیں۔ کیونکہ امام صاحب فرار ہوچکے تھے۔

اب اگر گاؤں میں جنازہ ہوتا تو مدرسے میں
سے ضمانت دے کر امام کو بحفاظت   لایا جاتا اور دعا کے بعد فوراًًً  بعد ان کو بحفاظت واپس کردیا جاتا۔ سو گاؤں والوں نے سر جوڑ کر یہ فیصلہ کیا کہ اپنے بچوں میں سے کسی کو مدرسے میں داخل کرا کر امام بنا دیتے ہیں تاکہ روز روز کی بھیک سے جان چھوٹ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سال ماشاءاللہ اپنے گاوں سے تین لونڈے ہائی پروفائل علماء بن چکے ہیں۔ جن کی شہرت کے ڈنکے دور دور تک بج رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان علماء کو دیکھ کر ہم کیا ہمارے گاؤں کی ساری کھوتیاں باجماعت رستہ بدل لیتی ہیں۔ اگر ان کھوتیوں کے بس میں ہوتا تو منہ پر گز بھر لمبا گھونگھٹ نکال کر فورا ًًً زمین پر بیٹھ جائیں۔ مگر کھوتیاں ہیں۔۔ ہماری عورتوں کی طرح وہ بھی بے بس ہیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”ہمارے امام۔۔۔عارف خٹک

  1. صاحب مضمون کسی ایسے ہی امام کی معیت میں چند راتیں گزار چکے ہیں جن کی روداد شامل حال نہ کی گئی ہے اگلی قسط کا انتظار فرمائیں.

  2. اے خدائے ذوالجلال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب بے ہدایتوں کو ہدایت عطا فرمائیں۔ آمین

Leave a Reply