آپ بھی یہ کام کریں۔۔اعظم سلفی مغل

ایک دفعہ دو عالم کے محبوب پیغمبر ﷺ  گلستان پیغمبر کے جھرمٹ میں تشریف فرما کچھ مشاورتی عمل کے لیے منتظر تھے۔
اسی دوران رحمت اللعالمین ﷺ  عرض گزار ہوئے کہ اب آنے والا شخص جنتی ہے ،پاس بیٹھے میرے پیغمبر محمد الرسول ﷺ   کے مہکتے پھولوں میں سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نظر اٹھائی اور دیکھنے لگے کہ وہ کون سا خوش بخت ہے جس کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت سنا دی گئی ہے۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد یہی بات پھر دہرائی کہ اب آنے والا شخص جنتی ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے تین بار یہی الفاظ دہرائے۔
چاند ستاروں کے جھرمٹ میں چمک رہا تھا کہ یکایک سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص آرہے  ہیں، بال بکھرے ہوئے  پیوند لگے کپڑے پہنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دمکتے ستاروں میں اضافہ کرتے ہوئے تشریف فرما ہوئے۔
ذرا تخیل کی دنیا میں ایسے منظر کو دیکھیے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ متحیر اور تعجب کرتے ہوئے اپنے ہی دل کی وادی میں جا کر پوچھ رہے ہونگے ارے عبداللہ!
واہ کیا قسمت پائی ہے اس بندے نے!
ایسی کیا  خاصیت ہو گی، اس بندے میں ،جو نبی اکرم ﷺ   نے تین دفعہ فرمایا کہ یہ بندہ جنتی ہے۔
مجلس برخاست ہوئی تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ اس شخص کے پیچھے ہو لیے اور رفتہ رفتہ اس کے گھر تک پہنچے۔
عرض کیا کہ حضرت مہمان ہوں سفر طویل ہے اپنے پاس ٹھہرا لیجیے۔
اجازت ملی تو تین دن ان کے ہاں قیام فرمایا اور رات کو جاگ کر دیکھتے کہ آخر یہ کون سا ایسا کام کرتے ہیں جس کے سبب پیغمبر دوجہاں  ﷺ  نے ان کو جنت کی بشارت سنائی ہے۔
پہلی رات گزری دیکھا کہ موصوف ساری رات سوئے رہے صبح بیدار ہوئے فجر کی نماز ادا کی اور اپنے کام کاج میں مشغول ہوگئے۔
اگلی  دو راتیں بھی اسی طرح گزریں کہ نہ رات کو کوئی نوافل نہ دوسروں کے مقابلے میں  زیادہ خرچ اور نہ ہی کوئی ایسا عمل جو دوسروں سے مختلف اورزیادہ ہو۔ بس فرض نماز کی ادائیگی کرتے اور اپنی زندگی کے معاملات کو سنبھالتے۔
جب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ واپس جانے لگے تو عرض کی کہ اے اللہ کے بندے رات ٹھہرنا تو ایک بہانا تھا یہ بتائیں کہ آپ کون سا ایسا عمل کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ   کی طرف سے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
آپ کی نسبت بہت زیادہ عبادت اور اللہ کے سامنے گڑگڑا کر حاجات کے سوالی ہیں آپ سے  زیادہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والے ہیں۔ مگر نبی کریم ﷺ   نے جنت کی بشارت آپ کو ہی دی ہے۔
اُس شخصیت نے جو الفاظ کہے سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں۔
وہ الفاظ ہماری زندگی کا نچوڑ ہے، ہمارے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
ہمارے ظاہر و باطن کے لیے تشفی اور تصفیہ قلب کے لیے نہایت مفید ہے۔
فرمانے لگے اے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میرے کچھ خاص اعمال نہیں ہیں میں معمول کے مطابق اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہا ہوں ،فرض نماز ادا کرتا ہوں باقی سارا دن اپنے کام کاج میں مشغول ہوتا ہوں۔
ایک کام ذرا منفرد کرتا ہوں ممکن ہے اس کی وجہ سے نبی کریم ﷺ   نے مجھے جنتی ہونے کی بشارت سنائی ہو۔
وہ یہ ہے کہ جب میں سارا دن گزار کر رات کو بستر پر لیٹتا ہوں تو سونے سے پہلے میں سب کو معاف کر کے اور اللہ سے معافی مانگ کر سوتا ہوں۔
اس چھوٹے سے عمل  سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور نبی کریم ﷺ   کی بشارت سے اندازہ لگائیں۔
اللہ تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس صحابی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت، برداشت اور معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین!

Facebook Comments

اعظم سلفی مغل
حافظ قرآن مطالعہ کا شوقین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply