آمریت اور جمہوریت۔۔۔راجہ کاشف علی

کون نہیں جانتا کہ جمہوریت کا گلہ کاٹنے کے لئے پاسداران جمہوریت ہی آگے بڑھتے ہیں! کسےِ معلوم نہیں کہ بھٹو و نواز سمیت ہماری تقریباً ساری ہی سیاسی قیادت آمریت کی پیدا وار نہیں؟ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اِسے فکری جہالت کے سوا اور کیا کہا جائے کہ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت بہتر ہے۔ آج آئی ایس پی آر کے کسی بیان پر فکر مند ہونے کے بجائے “آمد بہار” کی نوید سنانے والے سیاسی گِدھ،کیا ہردور کی آمریت کے منافع خور نہیں؟سول ملٹری تعلقات درست نہیں چل رہے کی نوید سنانے والے یہ نہیں جانتے کہ سولِ ملٹری تعلقات تو کسی دور میں بھی اچھے نہیں رہے۔ جس کی ایک طویل تاریخ ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں  جاسکتا اگر سولِ ملٹری تعلقات اچھے ہوتے تو سکندر مرزا کبھی معزول نہ ہوتا، بھٹو کو پھانسی ہوتی نہ نواز شریف طیارہ سازش کیس میں جلا وطن ہوتا۔
جب ہماری جمہوریت آمریت کے سایہ تلے پروان چڑھی ہو تو مسائل تو رہیں گے، سیاسی قیادت کے رویوں میں بھی آمریت کی جھلک نظر آئے گی اور معاشرہ بھی آمرانہ رویوں کی آماجگا ہ بن جائے گا۔ چند جرنیلوں کی آئین شکنی کو بنیاد بنا کر پورے ادارے کو شک کی نگاہ دیکھنا بھی درست نہیں تو چند آوازیں سن کر پورا سیاسی نظام بھی لپیٹ دینا کبھی پسندیدہ اقدام نہیں رہا۔
ذاتی مفادات کے حصول کے لئے چور دروازوں کی تلاش کرنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور رہیں گے۔ ماضی کی طویل داستانوں کو ایک طرف رکھیں دیں گزشتہ پانچ سات سالوں کی سیاسی تاریخ سب کے سامنے ہے۔ سیاسی قیادت چور ہے، کرپٹ ہے، اخلاقی لحاظ سے پست ہے تو ایسے ہیرے کہاں سے تراشے جائیں جو قوم کی آنکھ کا تارا ہوں؟ ن لیگ اور پیپلزپارٹی سرٹیفائیڈ کرپٹ ہیں تو تحریک انصاف میں بھی اِسی مافیا سے جھڑتی شاخوں کی پیوند کاری سے گَلِ گلزار ہوئی ہے ۔
جب یہ حقیقت عیاں ہے کہ ہمارا موجودہ سیاسی قبیلہ تعفن زدہ ہے تو آخر کیونکر ممکن ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو توڑ پھوڑ کر دوسری جماعت کھڑی کرنے سے مسائل حل کر لئے جائیں گے یہ ممکن ہوتا تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی سرجیکل سٹرائیک سے مافیا جنم نہ لیتے اور سارا سیاسی کچرا جل چکا ہوتا، کرپشن کا کہیں نام و نشان نظر نہ آتا اور گراس روٹ لیول سے اُٹھانے والی جمہوریت ایک تناور درخت بن چکی ہوتی۔
گزشتہ پانچ سالوں سے سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں ہی رہی ہیں ان پانچ سالوں میں ایسی تاریخ رقم ہوئی ہے جس کی کوئی مثال ہم اپنے “شاندار” ماضی سے بھی نہیں دے سکتے۔ ہر سیاسی قائد کی زبان یہی راگ الاپ رہی ہے کہ کرپشن ہے، انتخابی دھاندلی ہے، تعلیمی حالت نازک ہے، مریض سڑکوں پر مر رہے ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، حکومت ناکام ہوچکی ہے، اداروں کو تباہ کردیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
سندھ کے عوام کو ان کے حقوق کس نے دینے ہیں ؟
خیبر پختونخواکے عوامی مسائل کس نے حل کرنے ہیں؟
پنجاب کے عوام کی داد رسی کس نے کرنی ہے؟
بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم کون رکھے گا؟
اقوام متحدہ نے آکر تو یہ مسائل حل کرنے نہیں ہیں ۔۔ کیا یہ اشرف غنی کی ذمہ داری ہے یا مودی کو بلایا جائے؟ یا کسی اور فرشتہ کا انتظار کیا جائے؟ یا پھر پاکستان چائنا کو ٹھیکے پر دے دیا جائے؟ جب عوام کی اکثریت نے ووٹ ن لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو دیا ہے تو کیا ذمہ داری بھی انہی تین جماعتوں نہیں بنتی؟
بلاول بھٹو حیدرآباد میں جلسہ کرتے ہیں اور تنقید مرکزی حکومت پر فرماتے ہیں، لیکن پاس ہی کھڑے حکومت سندھ کے وزیروں اور مشیروں سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ تھر میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد کتنی ہے؟ پینے کا پانی بھرنے کے لئے تھر میں عورتیں کتنا سفر تپتی دھوپ میں پیدل طے کرتی ہیں؟ یہ تو ذرا مشکل سوالات ہیں۔ کسی سے یہ ہی پوچھ لیتے کہ کراچی کا کچرا اٹھانے کی ذمہ داری شہباز شریف کی ہے یا ڈی جی رینجرز کی ہے؟
عمران خان خدائی فوجدار بنا پھرتا ہے۔ اُن کا تو تکیہ کلام ہی یہ ہے کہ ہائے اللہ دھاندلی، ہائے اللہ کرپشن! لیکن جناب کو خیبر پختونخوا میں ہونے والی کسی کرپشن اور افسر شاہی کا کوئی غم نہیں، نہ ہی جناب نے الیکشن اصلاحات کے لئے کوئی پروگرم  ترتیب دیا۔ تعلیمی اصلاحات کا اندازہ اس  بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے کے اساتذہ مطالبات کی منظوری کے لئے بنی گالا تک پہنچنے کے باوجود صرف وعدے وعید ہی لے کر لوٹ گئے۔
شریفوں کا تو یہ حال ہے کہ ” روک سکو تو روک لو” اور ” مجھے کیوں نکالا” پر پی ایچ ڈی کروانے کی منصوبہ بندی کے سوا کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ۔ بڑے میاں صاحب کچھ ارشاد فرماتے ہیں تو چھوٹے میاں صاحب کچھ۔ایک اداروں سے ٹکرانے کی نیت باندھا کھڑا ہے تو دوسرا مفاہمت کا درس دیتا نظر آتا ہے۔ اب اُن کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ گالیاں دیں کس کو؟ فوج اور عدلیہ کے خلاف بولیں یا پھر عمران خان اور زرداری  کےخلاف۔ باقی عوامی مسائل سے ان کا بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
جب سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کا یہ حال ہوگا تو پھر عوام بھوکی ننگی ہی مرے گی، زچگی کے واقعات سڑکوں پر ہی نظر آئیں گے ، اساتذہ اور ڈاکٹر ہڑتالوں پر ہی ہونگے، انتخابات میں دھاندلی ہی ہوگی، کرپشن اور لوٹ مار جاری ہی رہے گی، بے روزگاری، مہنگائی، فراہمی آب، تعلیم، صحت اور بے شمار عوامی مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے کیونکہ سیاسی جماعتیں، صوبائی اور مرکزی حکومتیں اپنی اپنی ذمہ داریاں اُٹھانے کے بجائے عوامی مسائل کا بوجھ صوبائی حکومتیں مرکز پر ڈال رہی ہیں اور مرکزی حکومت اٹھارویں آئینی ترمیم کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ حکمران طبقہ (بشمول صوبائی و مرکزی) کسی ایک عوامی مسئلہ کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات اور جُگت بازی کے سوا کسی کا کوئی کام نہیں ہے۔ میڈیا بھی اس ثنا ءخوانی میں برابر کا نہ صرف شریک ہے بلکہ اس بازاری تھیٹر کی رونق مزید بڑھانے میں مصروف ہے۔اس پانچ سالہ جمہوری دور میں فساد و الزمات کے نئے ہمالیہ سر کئے گئے۔ عوامی کام صرف وہی ہوئے جن میں وزراء نے بھاری کمیشن اور بیورکریسی نے بھاری رشوت کمانا تھی یا سیاسی لوگوں نے ٹاک شوز میں داد سمیٹنی تھی۔ اس پانچ سالہ دور میں اگر یہ حکمران طبقہ سنجیدہ ہوتا تو کئی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا تھا لیکن مسائل حل کر لئے گئے تو پھر اِن کی سیاست کے لئے کیا بچے گا؟
الیکشن اصلاحات کرلی جائیں تو دھاندلی، دھاندلی کا شور کیسے مچائیں گے؟ تعلیم عام اس لئے نہیں کرتے کہیں بھٹو نہ مرجائے۔کرپشن کی روک تھام کے لئے سخت قوانین اس لئے نہیں بناتے کہ کہیں خود ہی نہ پھنس جائیں ۔ تمام تر اقدامات کا مقصد سیاسی مفادات کے حصول سے شروع ہو کر سیاسی مفادات کی تکمیل پر ہی ختم ہوتا ہے۔اس سب کچھ اور بھی بہت کچھ کے باوجود ایک امید اور حوصلہ افزائی کی بات یہ ہے کہ جمہوری عمل آگے کی طرف بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ نظام کی وہ خامی جو دس سالہ جمہوری دور میں نظر آئی ہیں ان کو درست کرنے کے لئے عوامی سطح سے بھرپور آوازیں بھی اُٹھ رہیں ۔ اب ان حکمران طبقوں کو بھی پتا چل چکا ہے کہ عوام ان کی مکر کہانیوں پر آسانی سے یقین کرنے والے نہیں ۔ دوسری طرف فوجی قیادت نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ ” میرے عزیز ہم وطنو”کہنے کا زمانہ نہیں رہا ۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

 

Facebook Comments

راجہ کاشف علی
سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار، شعبہ تعلیم سے وابستہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply