سن چھیالیس کے آخری مہینے میں جگن ناتھ آزاد ایک دن راجہ بازار میں تیز تیز قدموں سے جاتے ہوئے نظر آ گئے۔ میں پیچھے ہو لیا، کہ کہیں ٹھہریں گے تو بات کروں گا۔ جاتے جاتے بازار تلواڑاں کی طرف مڑ گئے جہاں کتابوں کی دکانیں تھیں۔ ایک دکان پر رکے۔ کچھ پوچھ ہی رہے تھے کہ میں نے جا لیا۔
”آداب عرض ہے، محترم آزاد صاحب!“ میں نے کہا، لیکن ملانے کے لیے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا کہ مجھے یقین نہیں تھا، وہ مجھ سے ہاتھ ملائیں گے۔
”آداب عرض، صاحبزادے، مجھ سے کوئی کام ہے آپ کو؟“ اور انہوں نے اپنا ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھا دیا۔
”جی،“ میں نے کہا، ”میرا نام ستیہ پال آنند ہے۔ میں شاعر ہوں۔ تخلص کا گنہگار نہیں ہوا کیونکہ آنند میرا خاندانی نام ہے۔ آپ سے ملنے کی بہت خواہش تھی۔ آپ کے والد محترم پروفیسر تلوک چند محروم صاحب کے نیاز تو حاصل کرتا ہی رہتا ہوں۔“ میں ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا۔
آزاد صاحب نے میرا کندھا تھپتھپایا، ”ہاں، والد صاحب نے تمھارا ذکر کیا تھا، کہتے تھے کہ بڑا ہونہار شاعر ہے۔“
”میں ان کا ممنون ہوں،“ میں نے کہا، ”کہ وہ مجھ نا چیز کو اتنا مان دیتے ہیں، میں تو بس ایک اسکول اسٹوڈنٹ ہوں۔“
”کہاں جا رہے ہو؟“ آزاد صاحب نے پوچھا۔
”کہیں نہیں۔ بس راجہ بازار میں آپ کو تیز تیز جاتے دیکھا توآپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا کہ کہیں تو ٹھہریں گے۔ یہاں آپ رکے تو آپ سے بات ہو گئی۔“
”آؤ، میرے ساتھ چلو،“ آزاد صاحب نے کہا۔ ”کچھ دوری پر ہی موجی صاحب کے ہاں ایک نشست ہے۔ موجی صاحب خود تو شعر نہیں کہتے لیکن شاعروں کی آؤ بھگت ضرور کرتے ہیں۔ وہاں کچھ سنانا بھی۔“
موجی صاحب سکھ تھے۔ ایک بک اسٹال کے مالک تھے، نشست انہی کے بک اسٹال کے بالا خانے میں تھی۔ ہم جب پہنچے تو آٹھ دس لوگ پہلے پہنچ چکے تھے۔ آزاد صاحب کے احترام میں سب لوگ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ آزاد صاحب جائے صدر پر براجمان ہوئے اور گول تکیے کو پیچھے رکھ کر آرام سے بیٹھ گئے۔ میں بھی ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ تب تعارف کا سلسلہ شروع ہوا۔ سبھی شاعر میرے لیے اجنبی تھے، تاہم ایک دو نام اخباروں کے سنڈے ایڈیشن میں دیکھنے میں آئے تھے اور مجھے مانوس لگے۔
کسی بھی نشست میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں شامل ہوا۔ تقدیم و تاخیر کا لحاظ کیے بغیر سبھی شعرا نے ایک سرے سے اپنا اپناکلام سنانا شروع کیا۔ غزلیں، غزلیں اور غزلیں۔ جب میری باری آئی تو میں نے فی الفور کہا، ”میں صرف نظم لکھتا ہوں، اس لیے صاحب صدر کی اجازت سے میں نظم سناؤں گا۔“ سبھی نے میری طرف حیرت سے دیکھا کہ میں حالانکہ ان سب سے دس پندرہ برس چھوٹا تھا لیکن پھر بھی دل جمعی اور خود یقینی کے لہجے میں ان سے مخاطب ہو رہا تھا۔ آزاد صاحب نے حامی بھری۔ کہا، ”والد صاحب اس نوجوان کی بہت تعریف کرتے ہیں کہ یہ خوبصورت رومانی نظمیں لکھتا ہے۔“
یہ جملہ میری پیٹھ ٹھونکنے کے مترادف تھا۔ میں نے ایک نظم سنائی، جو میری پرانی نظموں کی بیاض میں آج تک موجود ہے، چہ آنکہ میں نے اسے اپنے کسی مجموعے میں شامل نہیں کیا۔
نظم کا عنوان ”کھیل“ تھا، جو میں نے دو بار پڑھا، تا کہ حاضرین محفل کے دلوں پر نقش ہو جائے۔ ایک صاحب نے جو دو پلی ٹوپی پہنے ہوئے تھا، مزاحیہ انداز میں کہا بھی، ”ہاں، اس عمر میں کھیل کے سوا اور سوجھے گابھی کیا شاعر کو!“ لیکن جب آزاد صاحب نے اس کو گھور کر دیکھا تو وہ خاموش ہو گیا۔
نظم یہ تھی۔
زمیں پہ تنکے سے لکھا تھا میں نے تیرا نام
اور اس کے بعد مرا نام لکھ دیا تو نے
جو میں نے پوچھا کہ اب پھر کہاں ملیں گے ہم
یہیں اسی جگہ کل شام، لکھ دیا تو نے
واہ واہ اور سبحان اللہ اور ”کیا تصویر کشی ہے!“ ”کیا شوخی ہے، کیا ندرت ہے!“ وغیرہ داد کے جملوں نے مجھے اتنا سہارا دیا کہ میرا حوصلہ بڑھ گیا۔ اگلے بند میں نے دو دو بار پڑھ کر سنانے شروع کر دیے۔
بھلا دیے ہیں وہ وعدے، وہ ملنا چوری چھپے
تری شنگھار سے آراستہ جوانی نے
بنا کے نقش ِ ِ تمنا سا مجھ کو چھوڑ دیا
تلاش کر لیا عنواں نئی کہانی نے!
سندھوری ہو گئی ہے ان تو تیری کوری مانگ
سنا ہے مہندی رچا لی ہے تو نے ہاتھوں میں
رسیلی آنکھوں میں اب رتجگوں کے ڈورے ہیں
کسی کا پیار ہے تیری سلونی راتوں میں
ایک بار پھر واہ واہ کے شور میں میری آواز دب کر رہ گئی۔ آزاد صاحب جیسے اپنے کسی بچے کی کامیابی پر خوش ہوں، بڑھ بڑھ کر داد دے رہے تھے۔ ایک صاحب نے کہا، ”نوجوان کا اس بالی عمریا میں ہی دل ٹوٹا ہوا سا لگتا ہے،“ تو ایک قہقہہ پڑا لیکن پھر آزاد صاحب نے اپنے اکھڑ میانوالی کے لہجے میں سرزنش کی۔ ”ویکھ زاہد انوری۔ توں تاں ہِک مصرع وی آپ موزوں نئیں کر سکدا۔ اس ُمنڈے توں ہی کُجھ سکھِ لے، بے غیرتا!“ (دیکھو، زاہد انوری۔ تم تو ایک مصرع بھی خود موزوں نہیں کر سکتے۔ اس لڑکے سے کچھ سیکھ لے، اے بے غیرت!“
میں نظم کے آخری دو بند گہری خاموشی میں پڑھتا ہوں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مجھ سے دس پندرہ بیس برس بڑے یہ شاعر اب مجھے اپنے معیار کے ہی نہیں، خود سے بھی بہتر شاعر سمجھنے پر مجبور ہیں۔
نتیجہ کچھ بھی نہیں، پھر بھی بیٹھ جاتا ہوں
بس ایک سوچ کی گہری اداس چھاؤں میں
ہر ایک یاد اندھیرے میں لڑکھڑاتی ہے
کہ جیسے دن ڈھلے پہنچا ہو کوئی گاؤں میں
”کہ جیسے دن ڈھلے پہنچا ہو کوئی گاؤں میں“ آزاد صاحب مصرع دہراتے ہیں اور پھر ایک بار داد و تحسین کا شور بلند ہو جاتا ہے۔ کیا تشبیہہ ہے! کیا منظر نامہ ہے! کیا حسین خیال ہے! پہلے آج تک کسی نے نہیں باندھا! رومانی نظمیں اختر شیرانی کے ہاں سب سے زیادہ ہیں،لیکن یہ خوب صورت تصویریں۔ جزاک اللہ!
میں آخری بند پڑھتا ہوں، تو جیسے بساط الٹ جاتی ہے۔
کچوکے دیتی ہے ہر وقت اب یہ سوچ کہ جب
مرے لیے تری تنہایاں تھیں، میں تھا کہاں؟
چلی تھی جب تو دلہن بن کے سسکیاں بھرتی
تو شادیانے تھے، شہنائیاں تھیں، میں تھا کہاں؟
آزاد صاحب حاضرین محفل کو مخاطب کر کے کہتے ہیں۔”آپ نے دیکھا اس نوجوان نے اگر طرز ِ تخاطب مد ِ مقابل کے لیے ”تُو“ استعمال کیا ہے تو نظم میں ہر جگہ ”تری“،”ترا“،یعنی صیغہئ واحد ہی آیا ہے، کہیں بھی تم، تمہارا یا تمہاری نہیں آئے۔ یہ چلن ہے اچھے شاعروں کا۔ ہم سب کو اس نوجوان سے سبق سیکھنا چاہیے! “
میں نے فی الفور کہا، ”یہ نکتے محترم استاذی محروم صاحب سے ہی سیکھے ہیں!
چائے کے بعد محفل برخواست ہوتی ہے تو آزاد صاحب مجھ سے پوچھتے ہیں، ”تانگہ میں چلو گے؟ میں تمہیں روز سنیما کے چوک پر اتار دوں گا۔“
میں جھجکتا بھی ہوں اور خوش بھی ہوتا ہوں۔ تانگہ کا کرایہ فی سواری ایک آنہ ہے، جو میرے پاس نہیں ہے اور دو تین میل تک پیدل چلنے کی ہمّت بھی مجھ میں نہیں ہے۔ تانگہ میں بیٹھتے ہی آزاد صاحب پوچھتے ہیں۔ ”کسی لڑکی سے عشق ہو گیا ہے کیا؟“
میں بغلیں جھانکتا ہوں۔ ”….جی نہیں، بس یونہی…“
”تو خیالی معشوقہ ہے؟“ آزاد صاحب پوچھتے ہیں۔
جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جائے۔ ”جی آپ نے درست فرمایا۔“ میں کہتا ہوں
زیر لب ہنستے ہیں۔ ”اگر ایک خیالی معشوقہ کے فراق میں اتنی اچھی نظم لکھ سکتے ہو تو اگر واقعی زندگی میں اس قسم کا واقعہ ہو گیا تو پھر..اختر شیرانی بن جاؤ گے!“
میں ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہوں۔ ”لیکن سلمےٰ بھی تو ایک خیالی محبوبہ ہے۔“
”کون جانتا ہے،“ کہتے تو سبھی یہی ہیں“۔۔۔”ارے بھئی، روکو، تانگے والے، یہ جو سردار جی سڑک کے کنارے جا رہے ہیں، انہیں بھی بٹھا لو، انہیں میرے گھر کے قریب ہی جانا ہے۔“
میں روز سنیما کے چوک پر اتر جاتا ہوں اور اپنے گھر یعنی موہن پورہ کا رخ کرتا ہوں، میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر سے تو میں ”لطف ِ شباب“ کا نیا شمارہ خریدنے نکلا تھا جس میں اشاعت کے لیے میں نے ایک غزل بھیجی تھی۔ آزاد صاحب کو راجہ بازار میں جاتے ہوئے دیکھ کر یہ کام ذہن سے اتر گیا اور ان کے تعاقب میں چل پڑا۔
جاری ہے۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں