تهراسیماکس/مبشر حسن

ان کی پیدائش ہوئی 459 قبل مسیح (اندازاً) اور وفات ہوئی  400 قبل مسیح (اندازاً) یونان کا یہ رہنے والا تھا اس کا اہم کام جس کی وجہ سے معروف ہوا ،وہ اس کے ” انصاف کے بارے میں نظریات” تھے۔
کالسیدون کا تھراسیماکس اینٹی فون، کریٹیاس، ہپیاس، گورجیاس اور پروٹاغورث سمیت ’’ پرانے سوفسطائیوں‘‘ میں سے ایک ہے۔ اس کا دور پانچویں   صدی کے اواخر کا ہے۔ تھراسیماکس بِتھینیا میں میگارا کی ایک بستی کالسیدون میں پیدا ہوا اور 427 قبل مسیح تک خود کو ایتھننر میں ایک استاد مقرر اور تقریر نویس کے طور پر ممتاز کر چکا تھا۔ اس کی زندگی اور کام کے متعلق اس کے علاوہ بمشکل ہی کچھ معلوم ہے۔ تھراسیماکس کے پائیدار اثرات کی وجہ افلاطون کی ’’ریاست‘‘ کی کتاب اوّل میں اس کا یادگار مقام ہے ۔ اگر چہ یہ بات واضح نہیں کہ افلاطون نے جو خیالات اس سے منسوب کیے وہ واقعی اس کے ہیں یا نہیں لیکن تصور عدل پر تھراسیماکس کی تنقید زبردست اہمیت کی حامل اور پانچویں صدی قبل مسیح کے اواخر کے ایتھننر میں سوفسطائی روشن خیالی کے نمائندہ سیاسی و اخلاقی نظریات پیش کرتی ہے۔

تھراسیماکس کی تحریروں کے بچے کھچے شذرے اس کے فلسفیانہ نظریات کا بہت کم پتا دیتے ہیں۔ وہ یا تو علم بدائع سے متعلق ہیں یا پھر ان تقریروں کے حصّے ہیں جو غالباً  دوسروں کے لیے لکھی گئیں ۔ لہذا انہیں تھراسیماکس کے اصل خیالات کا نمائندہ قرار دینا مشکل ہے۔

ایک دلچسپ ترین اقتباس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دِیوتاؤں کو انسانی معاملات سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ وہ عَدل نافذ کرنے والے معلوم نہیں ہوتے۔ تاہم دانشوروں کے درمیان اِختلاف
ہے کہ آیا یہ دعویٰ اس نقطۂ نظر سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں جو افلاطون سے تھراسیماکس نے منسوب کیا ۔’’ ریاست‘‘ کی پہلی کتاب میں افلاطون کا بیان کافی تفصیلی ہے۔ یہ بیان تاریخی
اعتبار سے چاہے مشکوک سہی لیکن تھراسیماکس کے فلسفیانہ نظریات پر کافی روشنی ڈالتا ہے ۔

وہ سقراط کی اس رائے پر تنقید کرتا ہے کہ عدل ایک لازمی نیکی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نا انصافی اگر وسیع پیمانے پر ہوتو زیادہ طاقتور زیادہ آزاد اور انصاف کی نسبت زیادہ بااختیار ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دلائل دیتے ہوئے وہ انصاف کے متعلق تین مرکزی دعوے کرتا ہے۔
1- انصاف محض زیادہ طاقتور کے مفاد میں ہے۔
2 انصاف قوانین کا مطیع ہے۔
3 انصاف دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ان تینوں دعوؤں کے درمیان تناؤ واضح ہے۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قانونی ضوابط پر عمل کر نے والاشخص ہمیشہ ( سیاسی طور پر ) طاقتور شخص کو ہی فائدہ کیوں پہنچاتا ہے یا یہ افعال دوسروں کے مفادات ہی کیوں پورے کرتے ہیں محققین نے کسی ایک دعوے کو زیادہ اہمیت دینے کے ذریعہ ان تناؤ کوحل کر نے کی کوشش کی۔
اوّل Zeller اور سٹراس جیسے کچھ محققین موجود ہیں جو انصاف کے متعلق تھراسی ماکس کے خیالات کو اساسی عنصر مانتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ فطری حق کا وکیل ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ ( فطری اعتبار سے ) طاقتور کا کمزور پر حکومت کرنا منصفانہ ہے۔ یہ تفسیر تهراسی ماکس کے دلائل اور ’’گور جیاس‘‘ میں افلاطون کی جانب سے کالی کلیز سے منسوب کر دہ نقطہء نظر کے درمیان مشابہتوں پر زور دیتی ہے۔

ہورانی اور گروٹے جیسے محققین کا دوسرا گر وہ مصر ہے کہ تھراسی ماکس ایک قسم کی ضابطہ پرستی ( Legalism) کا حامی تھا۔ اس شرح کی رو سے وہ ایک علاقیت پسند (Relativist) ہے جو اس بات سے منکر ہے کہ قوانین کی اطاعت کے علاوہ بھی کچھ انصاف میں شامل ہے۔

تیسرا گروپ کہتا ہے کہ تھراسیماکس کا دعویٰ نمبر 3 ہی انصاف کے متعلق اس کی سوچ کا بنیادی عنصر ہے۔ چنانچہ تھراسیماکس ایک اخلاقی اَنا پرست بن کر ابھرتا ہے جس کا کہنا ہے کہ انصاف دوسروں کی فلاح کا نام ہے اور ذاتی مفاد کی خواہش اس کے منافی ہے۔ یوں وہ ایک سیاسی نظر میدان کے بجائے اخلاقی مفکر نظر آ تا ہے۔

اے ای ٹیلر اور Burnet جیسے محققین کا ایک چوتھا گروپ بھی ہے جو تھراسی ماکس کو ایک اخلاقی منکر کل کے طور پر لیتے ہیں ۔ اس نقطہ نظر کے مطابق تھراسی ماکس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ انصاف کا کوئی وجود نہیں اور یہ تصور بالکل لا یعنی ہے۔ Burnet اس حوالے سے لکھتا ہے وہ گورجیاس کے تکوینیاتی انکارکل ( Nihilsm) کا حقیقی اخلاقی ہم مقام ہے۔‘‘

کچھ ایسے محققین بھی ہیں جن کے خیال میں تھراسی ماکس ہڑبڑاہٹ کا شکار مفکر ہے۔ مثلاً کراس اور Woozley نے کہا کہ اس نے عدل کے مختلف معیار پیش کیے اور یہ نہ سوچا کہ وہ آپس میں میل نہیں کھاتے ۔ Maguire کی رائے میں’’ریاست‘‘ کی پہلی کتاب میں تھراسیماکس سے منسوب کردہ خیالات میں سے چند ایک ہی اس کے اپنے ہیں ۔ اور افلاطون نے اپنے دلائل کی بنیاد تیار کرنے کے لیے کچھ اور خیالات کو خواہ مخواہ اس کے سر تھوپ دیا۔

تهراسیماکس سے منسوب دلائل کی مختلف تعبیروں اور اختلاف رائے کے باوجود اخلاق اور سیاسی تھیوری پر اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ اخلاقیات کے میدان میں اس کے خیالات کو اکثر اخلاقی اقدار کی اولین اساسی تنقید کے طور پر دیکھا گیا۔ تھراسی ماکس کا اصرار کہ انصاف محض زیادہ طاقتور کے مفاد میں ہے۔ اس نقطہء نظر کی حمایت میں لگتا ہے کہ اخلاقی اقدار سیاسی لحاظ سے تعمیر ہوتی ہیں اور وہ مخصوص سیاسی طبقات کے مفادات کے عکس کے سوا کچھ بھی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

چنانچہ ہم تھراسیماکس کو نطشے کا نقیب کہہ سکتے ہیں جس نے کہا تھا کہ اخلاقی اقدار کو سماجی حوالے سے دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔ سیاسی اعتبار سے تھراسی ماکس کو اکثر ایک روایتی حقیقت پسندی کا نمائندہ خیال کیا گیا جو’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے قانون کو مانتا ہے۔
یہ نقطہ  نظر تهراسی ماکس کو عموماً ان دلائل کے ساتھ منسلک کرتا ہے جو تھیوسی ڈائیڈز نے “ پیلو یونیشیائی جنگ کی تاریخ‘‘ میں ایتھنز سے منسوب کیے۔ چنانچہ اسے مکیاویلی کی ایک ابتدائی صورت خیال کیا جانے لگا جو’’ دی پرنس‘‘ میں ریاست کار کو ہرقسم کی اخلاقی پابند ہوں سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔
سی ڈی سی Reeve کی رائے میں سقراط اور تھراسی ماکس کے درمیان گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ سوالات کر نے کا سقراطی انداز تهراسی ماکس جیسے کسی شخص کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا جو انصاف کو ایک نیکی ماننے سے صاف انکار کرتا ہے۔ اس لیے افلاطون نے ریاست کی بقیہ کتب میں سقراط کے اخلاقی اصولوں کو تو ڑ مروڑ کر پیش کیا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply