سردار اختر مینگل کرے تو کیا کرے۔۔۔۔شہزاد سلطان بلوچ

سردار اختر مینگل 10 کروڑ میں بک گئے، سردار اختر مینگل نے بلوچوں کا نام مٹی میں ملا دیا، اور تو اور اس کا یہ آج کا کام نہیں وہ نسلوں سے یہی کام کرتا آرہا ہے۔ پانچ ارب ٹھکرا کر دس کروڑ پر راضی ہوئے شاید وہ پانچ ارب کو پانچ کروڑ سمجھ رہے تھے، گویا  نہ اسے حساب آتا ہے نہ اسے بلوچی غیرت و حمیت سے کوئی لینا دینا ہے۔

کچھ ایسے کمنٹس ہمیں پڑھنے اور سننے کو ملے جب سردار صاحب کی پارٹی نے مرکز میں ایک بار پھر پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا۔۔۔

پہلے اعتراض یہ تھا کہ سردار صاحب کی پارٹی اپوزیشن اور حکومت دونوں کی کشتیوں میں بیک وقت سواری کا مزہ لے رہی ہے حالانکہ وہ نہ حکومت کی کشتی میں ہے نہ اپوزیشن کی ، بلکہ وہ اسمبلی میں موجود ان بنچوں پر ہے جہاں وہ اپنی  شرائط کے بدلے حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی کی بھی حمایت کا فیصلہ کرسکتے ہیں  ۔ البتہ اس کے اور پی ٹی آئی کے بیچ ایک معاہدہ بلکہ دو معاہدے طے ہوئے ہیں تو اسے ان معاہدوں میں موجود شرائط کے پورے ہونے کی صورت میں حکومت کا ساتھ بہرحال دینا ہوگا ۔

میں پی ٹی آئی کا سخت مخالف ہوں اور بی این پی کی سیاست کا بھی ناقد، سردار صاحب میرے حلقے کا ایم این اے ہے اور میں گزشتہ وزارتوں میں اس کے مقامی کام سے بھرپور واقف ہوں، لیکن اس سب کے باوجود میں سردار صاحب کے اس فیصلے کا بھر پور خیرمقدم کرتا ہوں۔
سردار صاحب نے قومی اسمبلی کے بجٹ تقریر میں جس طرح سے بلوچستان کا مقدمہ لڑا میرے خیال میں تاریخ میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ مقدمہ لڑنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ جہاں بلوچستان میں حادثات میں روزانہ سڑکوں پر اموات ہوتی  ہیں، جہاں لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے وہاں خضدار جیسے شہر سے بائی پاس بنانے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

سردار صاحب  نے حب سے لے کر بیلہ، گوادر سے لے کر نصیر آباد تک پورے بلوچستان کا مقدمہ لڑا، تاریخ کی بدترین قسم کی صوبائی غلام حکومت کے غیر سیاسی غلامانہ اقدام کو جہاں تنقید کا نشانہ بنایا وہاں بلوچستان کو این ایف سی کے ملنے والے کوٹے میں کٹوتی پر احتجاج بھی کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اٹھارویں ترمیم پر حکومت کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کیا، یہ تاریخ میں پہلا واقعہ ہے کہ صوبے  میں حکومت کسی اور کے پاس ہے اور آپ اپوزیشن میں ہوکر مرکز میں اس نااہل حکومت کا مقدمہ لڑیں۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ سردار صاحب بک گئے یا 6 نکات کی قیمت وصول کرلی ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جناب کچھ پڑھا بھی کریں اور معلومات رکھا کریں۔
سردار صاحب کی پارٹی نے دو معاہدے کیے  ہیں جن میں 9 نکات والا معاہدہ بھی ہے۔
ان نکات میں کچھ ایسی باتیں شامل ہیں۔۔
وفاق میں بلوچستان کے لیے  ملازمتوں کا کوٹہ 6 فیصد لازم بنایا جائے گا، کوئٹہ سے تفتان، چمن ٹو کراچی، خاران ٹو بیسیمہ نوشکی روڈ کو ڈبل کیا جائے گا، گوادر میں انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن ریسورسز ڈویلپمنٹ کا قیام، گوادر کے پانی کے بحران کو فوری طور پر حل کرنا، پورے بلوچستان میں اسپیشلائزڈ  ہسپتالوں کا قیام، بلوچستان کے تمام اضلاع میں ٹراما سینٹرز کا قیام، اور ہیلتھ انشورنس کے صحت کارڈ کا اجراء ، بلوچستان میں چھوٹے بڑے ڈیمز بنائے جائیں گے اور سولر پاور ٹیوب ویلز بھی بنانا، جو اضلاع نیشنل گرڈ سٹیشن سے منسلک نہیں ہیں انہیں منسلک کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

سردار صاحب کی  جن دو باتوں کی وجہ سے انہیں مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے میرے نزدیک وہ اس کی سیاست کے لیے پلس پوائنٹ ہیں، جو فنڈ ا نہیں ملا  وہ فنڈ اس کے اوپر اٹھنے والے ہمیشہ کے اعتراض کو ختم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا  کہ اسے مقامی سیاست اور ترقیاتی پراجیکٹس میں دلچسپی نہیں ہے۔
اور دوسرا جو سب سے بڑا اعتراض ہے کہ اس نے اے پی سی میں کیوں شرکت نہیں کی۔۔
اے پی سی میں وہ کس حیثیت سے شرکت کرتا؟

کیا اپوزیشن نے حکومت گرانے کا مکمل فیصلہ کرلیا تھا اور سردار صاحب کی  شرائط کو من وعن تسلیم کرلیا تھا کہ چلو پی ٹی آئی نے شرائط پوری نہیں کیں  تو یہ کریں گے، حالانکہ یہاں وہ ن لیگ ہے جس نے 2012 میں سردار اخترکے انہی 6 نکات کی حمایت کی مگر دو تہائی اکثریت اور بلوچستان میں حکومت کرنے کے باوجود مسئلہ بلوچستان پر اس طرح کا واضح قدم نہیں اٹھایا، اور وہ پیپلز پارٹی ہے جس کے ابتدائی ادوار میں بلوچ لیڈرز کو اگر جیلوں میں بند کیا گیا تو آخری دور میں بلوچستان کو بدترین بدامنی کی  دلدل میں دھکیل دیا گیا، اور وہ جے یو آئی جس کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا عہدہ ملا مگر ایک بھی قانون سازی تو درکنار مسئلہ بلوچستان پر کوئی واضح موقف تک نہیں اپنایا۔

سردار اختر صاحب اور اس کی پارٹی کا احسان ہے کہ لاپتہ افراد کا ہرکوئی نام لیتا اور اور اس موضوع پر بات کرتا ہے، کیا پچھلی حکومتوں میں کوئی اس طرح نام لے سکتا تھا؟ کیا بلوچستان کے کیس کی اہمیت کا فیصلہ اس سے پہلے بلوچستان سے باہر کسی نے سمجھا تھا، حد تو یہ کہ جس دن اختر مینگل نے اے پی سی میں جانے کا عندیہ دیا تو اگلے دن اس کے خلاف چند مخصوص ذہنیت کے  اینکرز نے زہر اگلنا شروع کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ مقتدر حلقے کس حد تک اختر کی سیاست سے پھنسے ہوئے ہیں۔

بلاشبہ سردار اختر کے پاس جو سب سے بہترین راستہ تھا اسی کا چناؤ کیا ہے، اور سب کو پتہ ہے کہ لوگوں کی اس حد تک چیخ وپکار کیوں ہے، کیوں کہ سردار صاحب نے ایک غیر منتخب اور غیر سرکاری مافیا کو فنڈ جاری کرنے کے خلاف جو بات کی، سردار صاحب کے فنڈ لینے پر اعتراض کرنے والے کیا یہاں کی بے ضابطگی پر دو بول بول پائیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:مضمون میں بیان کردہ نقاط  لکھاری کی ذاتی رائے ہے،جس سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply