ووتیز تیز چلا جا رہا تھا رستے پر
وہ کس قبیل سے تھا ، کس سے یہ سوال کروں؟
رکاتھا صرف اک لمحے کو مرے پاس وہ شخص
کہ جس کے ماتھے پہ روشن تھے نقش راہوں کے
ہزار برسوں کی لمبی مسافتوں کے نشاں
ابھرتی، پھیلتی، مٹتی ہوئی وہ ریکھائیں
جنہیں نہ دیکھ کر دیکھیں، تو چلتی پھرتی ہوئی
نشانیاں نظر آتی تھیں گزرے وقتوں کی
رکا تھا ، اور اشارے سے کچھ کہا تھا مجھے
’’وہ راستہ توہے، پر خط ِ مستقیم نہیں
اسی پر چلتے چلو، قوت ِ ارادی سے
تلاش کرتے چلوسب نشانیاں اپنی
وہ موڑ جن پہ تمہیں مڑ کے آگے بڑھنا ہے۔‘‘
کہاں گیا ہے مرا ایک پل کا رہبر ِزیست
میں جانتا نہیں،پر پھر بھی چلتا جاتا ہوں
ہر ایک موڑ ہدایات کا پلندہ ہے
کہیں پہ ’داخلہ ممنوع ہے‘ کا سگنل ہے
کہیں پہ تیروں سے، انگشت نما قوسوں سے
نشان زد ہیں سبھی راستے ، ٹھہر جاؤ
بنظر ِ غور پڑھو، کس طرف کو جانا ہے
میں ایک لمحہ توقف کے بعد چلتا ہوں
ہدایتوں کا پلندہ، معّمہ رستوںکا
یہ کیسی بھول بھلّیاں ہے مذہبوں کی کہ میں
پھنسا ہوا ہوں مومنات و دینیات کے بیچ
تمام عمر گنوائی ہے یوں بھٹکتے ہوئے
سکندروں کے قبیلے سے میں نہیں تھا مگر
مجھے بھی خضر نے رستے میں لا کے چھوڑ دیا!
Facebook Comments