“مینوں مارو گے تے نئیں ؟میں اک گل پوُچھنی سی تُسیں مارنا کتھوں سیکھیا اے؟”
یہ ہیں وہ الفاظ جو مرحوم صلاح الدین نے پولیس افسر کو تفتیش کے دوران کہے اور وہ پولیس والا بولتا ہے میں تھانیدار ہوں اور جومار رہے تھے وہ کانسٹیبل ہے۔
میں نے اپنی 37 سالہ سروس میں نہ ایسی تفتیش دیکھی نہ سُنی کہ ایک ایسا لڑکا جو ATM سے صرف اپنا کارڈ نکال رہا ہے تو دو دفعہ ایک دفعہ کیمرہ اور دوسری دفعہ مشین کا مُنہ چڑا رہا ہے کو ڈاکو بنا دیا گیا ۔
کُچھ دن پہلے ٹی وی چینلز پر اس خبر کو مزاحیہ طور پر چلایا گیا پھر خبر چلی کہ فیصل آباد میں واردات کے بعد وہ ڈاکو رحیم یار خان پولیس نے گرفتار کر لیا اور اس ڈاکو کے خلاف پورے پنجاب میں مقدمات درج ہیں اور یہ ایک بین الاضلاعی گروہ کا ممبر ہے۔
دوران تفتیش ویڈیو میں اُس ڈاکو کو پولیس ملازم اُلٹی ہتھکڑی لگا کر جس طرح پیچھے سے کھینچتا ہے اور صلاح الدین جس اذیت سے گزرتا ہے وہ ویڈیو میں محسوس کی جا سکتی ہے میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ عجیب ڈاکو ہے جس نے اپنا نام پتہ اور ٹیلی فون نمبر کلائی پر لکھا ہوا ہے اپنا چہرہ بھی نہیں چھپاتا مگر رحیم یار خان پولیس کے دلیر افسران اور ملازمین اس ڈاکو سے ڈیوائس اور ATM کارڈز بنانے والی مشین برآمد کرنا چاہتے تھے ۔
جبکہ یہ ملازمین اگر فیصل آباد والی ویڈیو دیکھ لیتے تو سمجھ جاتے کہ اس ڈاکو نے صرف اپنا کارڈ نکالا تھا نہ کہ پیسے مگر اتنی فُرصت کہاں ہوتی ہے افسران کا دباؤ میڈیا کا پریشر اور سب سے بڑھ کر کارگزاری دکھانے کی دُھن کہاں چین لینے دیتی ہے کہ سوچ سمجھ کے تفتیش کرتے اور نہ ہی اتنی عقل کہ اُس کے بازو پر لکھے پتے اور ٹیلی فون نمبر پر ایک فون کرکے ملزم کی تصدیق ہی کر لیتے کہ وہ ڈاکو ہے یا دماغی مریض ؟ پھر اُس کی زبان کھلواتے۔۔۔
پھر وہی ہوا جو اکثر ہوتا ہے خبر چلی کہ تھانہ اے ڈویژن کی حوالات میں ملزم صلاح الدین دم توڑ گیا۔ اب اگلا کام پولیس نے یہ کیا کہ ملزم کا پوسٹمارٹم کروانے کی کوشش کی تاکہ جلدی سے لاوارث ڈیکلئیر قرار دے کر دفن کر دیا جائے مگر بھلا ہو میڈیا کا جس نے خبر اس کے ورثا تک پہنچا دی۔۔
مجھے 2007 میں اسی طرح کا وہ واقعہ یاد آگیا جب میں SHO صدر رحیم یار خان تھا جما ل الدین والی میں احمد محمود کے جلسہ کو ناکام بنانے کے لیے پنجاب حکومت کی ہدایت پر ڈی پی او اور DCO نے 16 MPO کے تحت کافی ناظمین اور ممبران کو پولیس کے ذریعے ریڈ کرکے گھروں سے گرفتار کروایا جن میں Si عرفان اکبر جس کی پہلی SHO شپ تھی، تھانہ سٹی اے ڈویژن تھی نے بھی ناظم فخر کانجو مرحوم کو گھر سے اُٹھایا اور اِسی حوالات میں بند کرکے گھر چلا گیا فخر کانجو دل کا مریض تھا اُسے دل کا دورہ پڑا وہ چیختا رہا نہ محر ر تھانہ نے حوالات سے باہر نکالا نہ ہسپتال لے جایا گیا فخر کانجو وہیں دم توڑ گیا۔
المیہ یہ ہے کہ نئے Sho کو غلط مشورہ دیا گیا Dco نے 16 ایم پی او کے آرڈر جاری نہ کیے Dpo نے مشورہ دیا کہ فخر کانجو کی لاش کو لاوارث قرار دے کر ہسپتال لے جائے اور فوری پوسٹمارٹم کے بعد دفن کر دیا جائے چنانچہ نئے اور نو آموز Si نے یہی کیا نقشہ صورت حال میں فخر کانجو کا نام لکھنے کی بجائے نامعلوم لکھا کیونکہ رات کافی ہو چکی تھی ڈاکٹرز نے پوسٹمارٹم سے انکار کر دیا۔
اگلے دن سیاسی حکومت کی پالیسی اور افسران کے حُکم کے مطابق ہماری ڈیوٹی تھی کہ کسی کو جمال الدین والی نہ جانے دیا جائے تاکہ مخدوم احمد محمود کا جلسہ ناکام ہو جائے چنانچہ ضلع کی تمام پولیس نے جمالد ین والی جانے والے تمام راستوں کو بلاک کیا ہوا تھا اور تمام پولیس مصروف تھی۔
ایک صحافی جو کہ فخر کانجو کو جانتا تھا اچانک شیخ زاہد ہسپتال گیا تو اُسے کسی نے بتایا کہ ایک لاوارث لاش پڑی ہے جب اُس صحافی نے لاش دیکھی تو وہ فخر کانجو کی تھی جس پر اُس نے فخر کانجو کے ورثا کو اطلاع دی تمام ورثا مخدوم احمد محمود ہسپتال آئے توڑ پھوڑ ہوئی ملازمین پر 302 ppc کا مقدمہ درج ہوا جن میں عرفان اکبر اور DSP ارشاد اختر گُلاب بھی شامل تھے عرفان اکبر سات ماہ جیل میں رہا افسران نے جنہوں نے غلط مشورہ دیا تھا خود کو بچانے کے لیے عرفان اکبر si کو پکڑ کر جیل بھجوا دیا اور تمام اعلی افسران بچ گئے ۔
اگر Dco صاحب 16 MPO کے آرڈرز جاری کرتا، افسران غلط مشورے نہ دیتے، لاوارث قرار دے کر لاش ہسپتال نہ بھجواتے تو یہ غلط فہمی نہ ہوتی، زندگی اور موت تو میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر جب حقیقت کو چھُپایا جائے تو شکوک و شُبہات پیدا ہوتےہیں ایک ایسا شخص جس کو پورا رحیم یار خان جانتا تھا اور پولیس اُس کو گھر سے پکڑ کر لائی تھی کو لاوارث قرار دیا جانا کیا درست تھا ؟
محر ر تھانہ بر وقت فخر کانجو کو حوالات سے نکال کر طبعی امداد کے لیے ہسپتال لے جاتا تو شاید فخر کانجو بچ جاتا ۔۔
مگر ہوا کیا اعلی افسران نے اپنی جان پچانے کے لیے اپنے جونیئر ملازمین کی قُربانی دے دی اور ایک دفعہ پھر تھانہ اے ڈویژن کی حوالات اور پولیس پوری دنیا میں پولیس کی بدنامی کا باعث بنی۔
صلاح الدین کے کیس میں پتہ نہیں کیا ہوگا مجھے نہیں پتہ کس کی قُربانی ہوگی پوسٹمارٹم رپورٹ میں تشدد ثابت نہیں ہوا، کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ کو دو ماہ لگیں گے، میڈیا پہ کسی اور صلاح الدین کی خبر ہو گی اور انصاف کا بول بالا ہوگا ۔۔
اسی رحیم یار خان ضلع میں کُچھ عرصہ قبل فرائی اور ہاف فرائی کی پالیسی عام تھی نہ تو کبھی شہباز شریف جیسے جابر حُکمران نے پوچھا نہ اُس وقت کے آئی جی صاحب کو ان کالی بھیڑوں کے نکالنے کا خیال آیا
ان میں صادق آباد کا سات بہنوں کا اکلوتا بھائی بھی تھا جس نے صرف چوری کی کار غلطی سے لے لی تھی ،پکڑا گیا کوئی ولی وارث نہ تھا بو ڑھا باپ پیروی نہ کر سکا ،جسکے بعد پولیس مُقابلہ ہوا ،مُقابلہ کرتے وہ سندھ بارڈر کراس کر گیا ،پوسٹمارٹم اُباڑو تحصیل سندھ میں ہوا اور وہیں دفن ہوا دو ماہ بعد ورثا کو علم ہوا قبر کشائی ہوئی، سندھ اور پنجاب کی عدالت عالیہ علاقہ کا تعین نہ کر سکیں اور ورثا کالی بھیڑوں کا تعین ہوتے ہوئے بھی کُچھ نہ کر سکے۔
تین ماہ کے اندر پولیس حراست میں پنجاب میں پانچ ہلاکتیں ہو چُکی ہیں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ پولیس ملازمین نے اپنے علیحدہ علیحدہ پرائیویٹ ٹارچر سیل بنائے ہوئے ہیں کیونکہ آئی جی پنجاب کے حُکم سے تھانہ کی حوالات میں کیمرے لگائے گئے ہیں مگر اب تھانہ پر صرف وہ مُلزمان رکھے جاتے ہیں جن کی گرفتاری روزنامچہ میں ہوتی ہے بقیہ مُلزمان علیحدہ رکھے جاتے ہیں جن کا افسران بالا کو بھی علم ہوتا ہے خاص طور پر قتل اور سنگین مقدمات کے ملزمان جنہیں عدالتی بیلف سے بچایا جاتا ہے۔
قتل اور ضرر کے مُقدمات میں گناہگار اور بے گناہ کا فیصلہ ثبوت کی بجائے کٹھوں سے اور قران پاک پر حلف لیکر کیا جاتا ہے اور اس تفتیش کو مہینوں لگ جاتے ہیں۔۔
اس کی آڑ میں اکثر چھوٹے پولیس ملازمین طمع نفسانی کی خاطر بے گناہ افراد کو اُٹھا لیتے ہیں رقم کے لین دین میں لوگوں کو اُٹھا کر تھانہ سے باہر سیٹلمنٹ کرواتے ہیں یا پھر جرائم پیشہ افراد کو پکڑ کر ان جگہوں پر رکھتے ہیں اور بعد میں پیسے لے کر چھوڑ دیتے ہیں جن کا افسران بالا کو علم بھی نہیں ہوتا ۔۔
یہ سب کُچھ اسی طرح سے ہو رہا ہے۔۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں حُکم دینے والے بچ گئے مگر چھوٹے ملازمین جیل میں سڑ رہے ہیں اب بھی ان ملازمین کو آئی جی صاحب کے حُکم کے مطابق نشان عبرت بنا دیا جائے گا کیونکہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا اگر میڈیا پر خبر نہ آتی تو شاید صلاح الدین کی لاش لاوارث قرار دے کر دفن کر دی جاتی۔
ہمارے تمام اداروں کے سربراہ صرف اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ کوئی نوٹس لے گا تو ہم کام کریں گے اور پھر وہی انکوائری کمیٹیاں جوڈیشل انکوائریاں اور سب آہستہ آہستہ عوام کی نظر سے اوجھل، میڈیا پر نئی خبر اور پھر وزیراعلیٰ یا عدالت عالیہ کا نیا نوٹس۔۔
بڑے بڑے دعوے کیے گئے ،تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے قیام پاکستان کے بعد انگریز کی بنائی گی پولیس کو سیاستدانوں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا گیا صدر ضیا کا مارشل لا بھی پولیس کا کُچھ نہیں بگاڑ سکا، نواز شریف پھر شہباز شریف جیسے حکمرانوں نے نوید سعید عابد باکسر جیسے پولیس افسران کو استعمال کیا ان افسران کو پولیس کے افسران اعلیٰ نے بھی اپنے ناجائز کاموں کے لیے بھی پروموشن کا لالچ دے کر استعمال کیا ان کے ناجائز قبضوں کے بے شمار قصے زبان زدِ عام ہیں۔
اب وزیر اعظم کے نوٹس لینے پر آئی جی صاحب پنجاب کا ایک پیغام پولیس ملازمین اور عوام کے لیے تین چار دن بعد آیا ہے کہ (پولیس میں میرے ہوتے ہوئے کالی بھیڑوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ) تو جناب یہاں تو سب بھیڑیں کالی ہیں اور ان میں بُہت سے سفید بھیڑیئے بھی ہیں آپ کس کس کو نکالیں گے ؟ کالی وردی تبدیل کرنے سے تبدیلی نہیں آتی نہ ہی یہ کالی بھیڑیں نکلتی ہیں۔۔
تبدیلی تو رویے تبدیل کرنے سے آتی ہے اچھی ٹریننگ سے آتی ہے کیا وجہ ہے کہ نئے آنے والے پڑھے لکھے ملازمین بھی وہی کُچھ کر رہے ہیں جو پُرانے اور کم پڑھے لکھے ملازمین کرتے تھے بلکہ یہ نئے اُن سے کرپشن اور ڈسپلن کی خلاف ورزی میں دس قدم آگے ہیں کہیں تو گڑ بڑ ہے سر۔۔
صرف سزائیں دینے سے کُچھ نہیں ہو گا افسران بالا اور ماتحتِ اعلی و ادنیٰ کے درمیان خلیج کو کم کریں پروموشن کے نظام کو بہتر کریں ،بڑے افسران سے لیکر چھوٹے ملازمین تک کا نفسیاتی ٹیسٹ کروائیں ۔۔
پولیس میں زیادہ تشدد کرنے والے یا بد تمیزی کرنے والے ملازمین کو تگڑا پولیس افسر سمجھا جاتا ہے ان ملازمین کا پورے ضلع کو پتہ ہوتا ہے اور ڈی پی او سے یا حلقہ افسر سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہوتی
مجھے رحیم یار خان کے ایک تگڑے انسپکٹر یعقوب کمیانہ یاد ہیں جن کی خوبی یہ تھی کہ تھانہ کے گیٹ میں بیٹھ کر ہر آنے جانے والے سائل اور شریف آدمی کو گالیاں دیتے تھے اور اُن کو دیہاتی تھانوں پر لگایا جاتا تھا اور وہ تگڑے پولیس افسر مشہور تھے۔
محکمہ پولیس میں اصلاحات کی ضرورت ہے مگر یہ ان حکمرانوں کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ چاہیں گے پولیس کے اعلیٰ افسران بھی اس نظام کو آج تک ٹھیک نہیں کر سکے اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کسی بھی ایسے واقعہ پر کسی بڑے افسر یا حکمران کو سزا نہیں ملتی
چھوٹے ملازمین قُربانی کے بکرے اور کالی بھیڑیں ہیں ان کو قُربان کرنے یا نکالنے سے کُچھ نہیں ہو گا سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کاشت تو گندم کریں اور امید کپاس کی رکھیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں