پست،گھٹیا،اور جاہل قسم کے لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کہنے والے نے ان کی موافقت میں بات کہی ہے یا اُن کی مکالفت میں،
جبکہ موافق کو دوست گردانتے اور نوازتے ہیں،اور مخالف کے دشمن بن جاتے ہیں۔مگر بلند حوصلہ اور عالی ظرف لوگ موافقت سے اوپر اُٹھ کر سوچتے ہیں۔وہ اصل بات کو دیکھتے ہیں۔نہ کہ یہ کہ جو کہا گیا ہے وہ ان کے موافق ہے یا اُن کے خلاف۔۔اور جسے کہا گیا ہے وہ صاحب ِ اقتدار ہے یا محض مجبور مقہور۔۔اس بات یا قدر کو عالی ظرف و حسن کردار کہتے ہیں۔آج جب کہ اقدار کا نہیں اقتدار کا دور ہے،آئیے آپ کو ان مٹتی ہوئی اقدار کی چند مثالوں سے روشناس کرواؤں۔
دورِ نبوی کے بعد دورِ خلافت راشدہ،دورِ بنی اُمیہ،دورِ عباسیہ۔دورِ فاطمیہ،دورِ عثمانیہ،دورِ سلجوقیہ، دورِ خخلجیہ،دورِ غزنویہ،دورِ مغلیہ وغیرہ وغیرہ۔۔یہ واقعہ دورِ عباسیہ کا ہے۔
خلیفہ منصور عباسی نے ایک روز،شام کے اعراب کی ایک جماعت کے سامنے تقریر کی،اس نے کہا کہ اے لوگو!تم کو چاہیے کہ تم میرے جیسے خلیفہ کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو،کہ جب سے میں خلفہ ہوا ہوں،اللہ نے تم سے طاعون دور کردیا ہے،اس کے بعد سننے والوں میں سے ایک نے کہا کہ اللہ اس سے زیادہ کریم ہے۔کہ وہ ایک وقت میں ہمارے اوپر سے طاعون اور منصور دونوں کو جمع کردے۔
اعرابی کا یہ جملہ سخت توہین آمیز تھا،عام طریقہ کے مطابق چاہیے تھا کہ خلفہ منصور عباسی اس کو سُن کر بھڑک اٹھے اور مذکورہ شخص کے قتل کا حکم دے دے۔مگر خلیفہ منصور نے نہایت بلند حوصلہ آدمی تھا۔اس سے اعرابی کے جملہ میں گستاخی کا پہلو دیکھنے کے بجائے جرات اور ذہانت کے پہلو کو دیکھا،اس نے اس کی قدر کی اور حکم دیا کہ اس شخص کو خزانہ خاص سے انعام دیا جائے۔اور اس کو عت کیساتھ رخصت کیا جائے۔
دوسری مثال۔۔ فوج کا ایک اعلیٰ افسر کسی رجمنٹ کا معائنہ کررہا تھا،گھومتے گھومتے وہ ایک لیفٹننٹ کے پاس پہنچا،دورانِ معائنہ اُس نے کہا کہ اس کی وردی میں ایک بڑا نقص ہے۔افسر نے لفٹین کو سختی سے ڈانٹا۔۔قریب تھا کہ منہ سے جھاگ اُڑاتا،افسرِ اعلیٰ کچھ اور کہتا کہ نوجوان لیفٹین جذبات سے مغلوب ہوگیا۔
اس نے پستول نکالا اور افسر پر فائر کرنا چاہا۔۔لیکن پستول نہ چلا سکا۔۔
یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے افسر نے اُسی وقت حکم دیا کہ لیفٹننٹ کو ایک ہفتے تک کوارٹر گارڈ میں رکھا جائے،کہ اُس کا پستول صحیح حالت میں نہ تھا۔۔۔
ایک اور واقعہ سُنیے۔۔۔
پنڈٹ جواہر لال نہرو جب بھارت کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے پولیس کیا ایک اعلیٰ افسر سے کہا کہ انگریزوں کے دور میں اُن کے خلاف جو فائل تیار کی گئی تھی،وہ اُنہیں دکھائی جائے۔۔کافی دنوں کے بعد پولیس کے افسر نے پنڈٹ نہرو کے حکم کی تعمیل نہ کی تو انہوں نے دوبارہ اُس پولیس افسر کو طلب کیا۔۔تم نے کوئی وعدہ کیا تھا۔۔اُس کا کیا ہوا؟
پنڈٹ جی نے کہا۔۔جناب ہم وہ فائل تلاش کررہے ہیں۔افسر نے جواب دیا۔۔وزیراعظم جواہر لال نہرو سے ذرا تلخی سے پوچھا۔۔آخر وہ فائل کہا ں چلی گئی،مل کیوں نہیں رہی؟
افسر نے جواب دیا پولیس کی فائلیں سیاسی لوگوں کے خلاف ہوتی ہیں،اور خلاف ہی رہتی ہیں۔لوگ نیچے جاتے ہیں تو فائلیں اوپر آجاتی ہیں،اور جب لوگ اوپر آجاتے ہیں تو فائلیں نیچے دب جاتی ہیں۔
پنڈٹ نہرو مسکرا کر رہ گئے۔۔۔
مندرجہ بالا واقعات گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام دیکھنے پر مجھے یاد آئے۔۔برطانیہ کے سابقہ وزیر خارجہ جیک سڑا نے اس ٹی وی پروگرام میں اعتراف کیا کہ ایم آئی فائیو نے ان کی گزشتہ سرگرمیوں کے بارے میں ایک فائل بنا رکھی تھی۔اسی حوالے سے پروگرام میں بتایا گیا کہ 1970کے عشرے میں جیک سٹرا کو سیاسی تخریب کا ر سمجھا جاتا تھا، اس وقت وہ نیشنل سٹوڈنٹس کے صدر تھے۔،مگر۔۔اس وقت جبکہ وہ وزیر خارجہ کے عہدے اور ایک بااختیار عہدے پر فاء تھے۔ انہوں نے واضح کردیا کہ وہ اپنے دورِ گزشتہ کی فائیلیں نہیں دیکھنا چاہتے،کہ ایسا کرنا بطور خارجہ سیکرٹری اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھانا ہے۔انہوں نے انٹر ویو میں بتایا کہ جیسا کہ ایک عام شہری کو اس کا حق حاصل نہیں کہ ویسا ہی انہیں بھی اس فائل کو دیکھنے کا حق حاصل نہیں ہے،نہ صرف یہ بلکہ ان کے ٹیلی فون ٹپ کیے جاتے تھے،سفید کپڑوں میں پولیس ان کا پیچھا کرتی تھی وغیرہ وغیرہ۔۔
ان سب باتوں کے جواب میں خارجہ سیکرٹری کا اپنے اختیارات کا ناجاء استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی ہی برطانوی معاشرہ کی اعلیٰ اقدار کا پتہ دیتی ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر واقعہ کے دوپہلو ہوتے ہیں۔ایک منفی اور دوسرا مثبت۔۔۔
منفی پہلو آدمی کے اندر صرف تکریبی نفسیات کو جگاتا ہے،اور مثبت پہلو اس کے اندر تعمیری نفسیات کو جگا کر اس کو اس قابل بناتاہے کہ وہ اپنے لیے بھی کارآمد بن سکے،اور دوسروں کے لیے بھی۔۔اس دنیا میں کوئی بڑا کام وہی لوگ کرتے ہیں،جو واقعات کے مثبت پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہی نہیں کہ اپنا حساب دینا ہے
میرے دُکھوں کا بھی تجھ کو جوان دینا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں