مورخہ 10دسمبر 2020میرے لئے اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے وفاقی شرعی عدالت میں خلع کی شرعی حیثیت پر قرآن وسنت کی روشنی میں چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سامنے ناظم اعلی وفاق المدارس العربیہ پاکستان قاری محمد حنیف جالندھری دامت فیوضھم سمیت متعدد علما کی موجودگی میں چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت کی اجازت سے تقریبا ًچھ منٹ کے قریب اپنا مدعی بیان کرنے کی توفیق دی جس کو تینوں فاضل ججز نے بغور سنا ۔
اہل فتویٰ جانتے ہیں کہ پاکستان کے بعض قوانین صریح طور پر قرآن وسنت کی روح کے منافی ہیں ان میں سے ایک قانون خلع کی پاکستان کے عدالتی نظام میں رائج شکل بھی ہے جسکی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ رائج نظام کے مطابق جب کوئی خاتون اپنے شوہر سے ناخوش ہوتو وہ فیملی کورٹ میں جاکر خلع کا دعویٰ دائر کرتی ہے۔ پاکستان کا عدالتی نظام یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم اس خاتون کے حقوق کو پورا کررہے ہیں یا اس کی قانونی مدد کررہے ہیں ہفتہ دس دن کے اندر اس خاتون کے حق میں شوہر کی رضامندی کے برخلاف یکطرفہ خلع کی ڈگری جاری کردی جاتی ہے۔ اس خاتون کے رشتہ دار جب وہ ڈگری کسی دارالافتا میں لیکر جاتے ہیں تو وہاں سے یہ فتویٰ جاری ہوتا ہے کہ عدالت کا اس طور پرخلع کی ڈگری جاری کرنا خلاف شرعیت ہے لہذا نکاح بدستور باقی ہے اس لئے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی درست نہیں ،اسکے باوجود نکاح ثانی کیا گیا تو نکاح منعقد نہیں ہوگا اور یہ خاتون دوسرے شخص کے حق میں نامحرم ہے اور انکے جنسی تعلقات زنا کے حکم میں آتے ہیں ۔اب اس صورتحال سے جو گھرانہ دوچار ہوتا ہے وہ عجیب وغریب کشمکشِ میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس صورتحال میں مبتلا خاتون اور اس کا گھرانہ بھی بعض اوقات لاعلمی میں اسلام کے قانون پر سوالات اٹھاتے ہیں اور بعض لاعلم لوگ اسلامی قانون کو ظالمانہ اور خواتین کے حقوق کے لئے ناکافی سمجھتے ہوئے عجیب وغریب تبصرے بھی کرتے ہیں اور وہ تبصرے بعض اوقات ان کے ایمان کو بھی ختم کردیتے ہیں۔
اب ذرا خلع کے قانون کی طرف آتے ہیں وہ یہ ہے کہ شرعا ً خلع کی مشروعیت اس طور پر ہے کہ جب بیوی یہ سمجھے کہ میرا نباہ اپنے اس شوہر سے مشکل ہے میں اسکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اگر وہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور شوہر طلاق دیتا ہے تو معاملہ ختم لیکن اگر شوہر طلاق دینے پر راضی نہیں ہوتا تو بیوی مہر کے بدلے میں یا کسی اور رقم یا پلاٹ وغیرہ پر شوہر کو راضی کرے کہ آپ مجھے آزاد کردیں اگر شوہر راضی ہوجاتا ہے تو ٹھیک نہیں ہوتا ہے تو شوہر کو راضی کرنے کے بغیر دنیا کی کوئی طاقت یا عدالت شرعی طور پر شوہر کی مرضی کے خلاف خلع کی ڈگری جاری نہیں کرسکتی ہے اگر جاری کرے گی تو شرعا اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
اب بعض لوگ جن کو لبرل کہتے ہیں یا دین بیزار ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھیں اسلام نے عورتوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا حالانکہ حجۃ الوداع پر جہاں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر اہم امور پر امت کو خصوصی تعلیم اور ڈائریکشن دیں وہیں ماتحت لوگوں اور خواتین کے بارے میں خصوصی ہدایات دیں اور انکے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کا خصوصی حکم فرمایا کیونکہ جب اللہ کا ڈر اور خوف دل میں آجائے تو کوئی بھی شخص کسی پر ظلم نہیں کرسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی خاتون پر اسکا شوہر ظلم کرتا ہے اسکے حقوقِ پورا نہیں کرتا تو اس عورت کی جان خلاصی کا شرعی طریقہ کیا ہے ۔؟
توآئیں ذرا اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس میں اسلام کیا مدد کرتا ہے اس مظلوم عورت کی ۔
اسلام ایسی صورت میں عورت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ قاضی کی عدالت میں جاکر اپنا مدعی پیش کرے اور اپنے ساتھ اپنے شوہر کے ناروا سلوک سے قاضی کو آگاہ کرے قاضی حقیقت حال جاننے کے لئے تحقیق کرے تحقیق کے بعد اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ واقعتا اس عورت کا شوہر ظالم ہے وہ اس کے حقوق پورا نہیں کررہا ہے تو عدالت کو شرعیت اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ انکے درمیان تنسیخ نکاح کا حکم جاری کرکے علیحدگی کردے اور شوہر نے اگر کوئی ایسی حق تلفی کی ہے کہ جسکا ازالہ شرعاً ہوسکتا ہو تو عدالت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعہ اس شخص سے اسکی سابقہ بیوی کے حقوق کی ادائیگی کروا سکتی ہے ۔یہ آسان سا حل ہے اس میں شوہر کی رضامندی بھی ضروری نہیں۔ مہر معاف کرنے کی بھی ضرورت نہیں ،اب آپ بتائیں یہ کام آسان اور اچھا ہے خاتون کے لئے یا خلع کے جھنجھٹ آسان ہیں؟
میں ایسی تمام خواتین کو قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی کررہا ہوں جو کسی ظالم شخص کے جبر کا شکار ہیں بیوی ہونے کیوجہ سے وہ وفاقی شرعی عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کرکے اپنی مشکلات کا حل پاسکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام بیزار حلقوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین یارب العالمین
Facebook Comments