جذبات (12)۔۔وہاراامباکر

ہم ایسے رنگ کا تصور نہیں کر سکتے جو ہم نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ یہ فیکٹ ہمیں ایک بہت گہری انسائیٹ دیتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے کوالیا کی حد کہاں پر ہے۔ اس سے آگے ہم جا ہی نہیں سکتے۔ بالکل نئی حسیات کی تخلیق کی پیشگوئی اپنے ساتھ اس پیشگوئی سے متصل ہے کہ ان حسیات کے احساس کی وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ مثلا، جامنی رنگ کیسا ہے؟ اس کے لئے جامنی رنگ کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔ کسی کلربلائنڈ شخص کے لئے خواہ جتنے بھی علمی طریقے سے وضاحت کر دی جائے، وہ یہ نہیں سمجھ سکتا کہ جامنی کیا ہے؟ کسی پیدائشی نابینا دوست کو نہیں بتا سکتے کہ دیکھنا کیسے لگتا ہے۔ آپ کا نابینا دوست آپ کے جوش و خروش سے سمجھانے پر، ہو سکتا کہ کہ تائید میں سر بھی ہلا دے لیکن یہ ایک بے ثمر کاوش ہو گی۔ دیکھنا بیان نہیں کیا جا سکتا، صرف دیکھنے کی حس کا ذاتی طور پر تجربہ کر ہی اس کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور طریقہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اگر آپ ایک نئی حس کا کوالیا ڈویلپ کر لیں تو کسی اور کو بیان نہیں کر سکیں گے۔ اس کے لئے زبان میں کوئی لفظ ہی نہیں ہو گا۔ اور ہو بھی، تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آئے گا۔ زبان ہر شے کو بیان نہیں کر سکتی۔ یہ صرف ان چیزوں پر لیبل لگاتی ہے جس پر ہم اتفاق کر لیتے ہیں۔ یہ ایک کمیونیٹی کے احساسات کے ایگریمنٹ کا نظام ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ نئی حس کو بیان کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔ صرف یہ کہ کسی اور کے پاس وہ بنیاد ہی نہیں ہو گی کہ وہ اس کو سمجھ پائے۔
اور ان تجربات میں ابتدائی نتائج میں ایسا ہی نظر آتا ہے۔ مقناطیسی بیلٹ پہہننے والے شرکا بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی perception میں کیا تبدیلی آئی ہے لیکن یہ ان کو کیسے بتائیں جو اس سے آشنا نہیں۔
نئی حسیات کی تخلیق میں شاید ایسا ہو کہ لوگوں کو ڈیٹا فیڈ کیا جائے اور ایسے لوگ ان کو محسوس کرنا سیکھ لیں۔ آج سے کچھ دہائیوں بعد ایسی کمیونیٹی بن جائے جس میں وہ لوگ ہوں جنہیں ایسی اِن پُٹ مل رہی ہو۔ وہ اپنے نئے محسوسات شئیر کرنے کے لئے نئے لفظ بنا لیں۔ ذافلابش، بنکارپ، غایاٹن؟۔ اور اس کمیونیٹی سے باہر یہ الفاظ کچھ معنی نہ رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر نئی حس کا اضافہ کیا جا سکا تو پھر صرف ایک کا ہی کیوں؟ دماغ کا ایک اور کارنامہ اپنا علاقہ بہت الگ اقسام کے ڈیٹا کے ساتھ جگہ شئیر کرنے کا ہے۔ ایسے چوہے جنہیں انفراریڈ سنسرز کی حس دی گئی، وہ ہر لحاظ سے ان کے لئے اضافہ تھا۔ یعنی انہوں نے کچھ بھی دوسرا نہیں کھویا تھا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اضافی حس کا مطلب دوسری حسیات کی ریزولیوشن میں کمی ہو۔ کیا نئی حس سے سننے کی صلاحیت پر فرق پڑے گا؟ اس میں حدود کا کوئی بھی جواب تُکا ہی ہو گا۔ لیکن آنے والے برسوں میں اس کو ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کتنی حسیات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے سے زیادہ ایک اور دلچسپ سوال ہے۔ احساس بہت اقسام کے ہیں۔ رنگ و بو، ذائقے، لمس، آواز، بھوک، گرمی، سردی، تکلیف اور دوسرے بے شمار کوالیا کا تعلق صرف محسوس کر لینے سے نہیں، ہمارے جذبات سے بھی بہت گہرا ہے۔ مثلاً، گاجر کے حلوے کی مہک اور کچرے سے آنے والی بدبو کا ہم پر اثر مختلف ہوتا ہے۔ ہماری حسیات محض صفر اور ایک کے سگنل کی طرح نہیں، یہ مکمل جذباتی ریسپانس رکھتی ہیں۔ نئی حس کا تعلق جذبات سے کیسا ہو گا؟
گاجر کے حلوے سے اڑنے والے مالیکول یا کچرے سے آنے والے مالیکیول میں خود کچھ ایسا نہیں کہ ہم اسے خوشبو یا بدبو کہیں۔ یہ صرف اڑتے ہوئے کیمیکل ہیں۔ ویسے ہی جیسے چائے، گائے، گوبر، مرغے، روسٹ چرغے، دارچینی یا تازہ رنگ سے آنے والے مالیکیول۔ صرف ان کے مالیکیولز کی شکلوں میں کچھ فرق ہے۔
لیکن گاجر کے حلوے کی خوشبو پسند آتی ہے اور کچرے کی ناپسند۔ سرسبز میدان سے آنے والے فوٹون مسرت دیتے ہیں، پرانی پڑی لاش دیکھ کر جھرجھری آتی ہے۔ سریلی آواز لطف دیتی ہے، کسی دردبھری چیخ سے جذبات ایسے نہیں ہوتے۔ یہ جذبات ڈیٹا کی مدد سے “معنی” کا احساس ہیں۔ ان میں سے کچھ کی وضاحت ارتقائی ٹائم سکیل پر کی جا سکتی ہے لیکن بہت سے جذبات کا تعلق ہماری اپنی زندگی کے تجربات سے ہے۔ کوئی دھن اچھی پرانی یاد واپس دلا دیتی ہے۔ ذائقے، بو، مناظر، اچھے برے واقعات حسیات کے ساتھ ہی گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔
اگر یہ ماڈل درست ہے تو اس کی پیشگوئی یہ ہے کہ نئی حس بھی بالآخر جذباتی تجربہ بن جائے گی۔
انٹرنیٹ سے ڈیٹا کی فیڈ ہنسا دے گی، دل توڑ دے گی، رونگٹے کھڑے کر دے گی۔ تصور کریں کہ آپ سٹاک مارکیٹ سے منسلک ہو گئے۔ آپ کو انفارمیشن ملی کہ جس جگہ سرمایہ کاری کی تھی، وہاں مندا جا رہا ہے۔ کیا ناگوار لگے گا؟ نہیں، ویسا نہیں جیسا خبر پڑھ کر لگتا ہے بلکہ جذباتی طور پر، ویسا جیسے بُسے ہوئے گوشت کی بو کا یا چیونٹی کے کاٹنے سے ناگواری کا احساس ہوتا ہے؟ یا پھر اچھی انفارمیشن سے ویسی خوشی ہو گی جیسے بچے کی کلکاری کی یا چاکلیٹ کے منہ میں گھل جانے کی؟
یہ تصور عجیب لگے کہ ایسے جذباتی ری ایکشن ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں ایک بار پھر یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ جذبات مختلف ڈیٹا سٹریم سے اخذ کردہ معنی ہیں جو ہماری زندگی کے مقاصد کے تناظر میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اضافی ڈیٹا ضرورت سے زیادہ ڈیٹا ہو گا؟ جو سٹریس میں مبتلا کر سکتا ہو گا؟ غالباً نہیں۔ جیسے آپ کا نابینا دوست اصرار کرے کہ کھربوں فوٹون کا احساس کرنے اور ان سے معنی نکالنے والی حس کتنا بھاری بوجھ ہو گی۔ کسی بینا شخص کے لئے یہ انفارمیشن پراسسنگ بغیر کسی تعطل کے جاری رہتی ہے اور بوجھ محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے معنی سے اخذ کردہ نتیجہ خوبصورت بھی ہو سکتا ہے، ناگوار بھی، بورنگ بھی۔ آنکھ سے موصول ہونے والا یہ ڈیٹا باقی سب کے ساتھ گھل جاتا ہے۔ ڈیٹا کے بہاوٗ کو پراسس کر کے باقی سب کے ساتھ ملا لینا۔۔۔ یہی تو دماغ کی مہارت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے موجودہ علم کے حساب سے، ایسی کوئی رکاوٹ نہیں جو حسیاتی توسیع کی حدود میں رکاوٹ بن سکے۔ اور اگر آپ کہیں کہ اگر ایسا ہو گیا تو یہ مستقبل میں امیر اور غریب کے درمیان ایک بڑی تفریق ہو گی۔ وہ جو نئے ذائقے، آوازیں اور بہت کچھ محسوس کر سکتے ہوں اور دوسرے عام لوگ؟ غالباً نہیں۔ کیونکہ ایسی کوئی ڈیوائس بہت مہنگی نہیں ہوں گی۔ سمارٹ فون کی ٹیکنالوجی نے دنیا کے ہر ملک میں عام لوگوں کو ٹیکنالوجی کے انقلاب سے متعارف کروایا ہے اور یہ محض امیروں کا شوق نہیں رہا۔ حسیاتی ٹیکنالوجی اس سے بھی کم قیمت پر ہو سکتی ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ مختلف مہارتوں کے لوگ مختلف اقسام کی حسیاتی توسیع میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک سپیسی ایشن ایونٹ بھی بن جائے۔ فلموں کے سپرہیروز کی پاور اصل ہو سکیں۔ مستقبل کی دنیا کے بارے میں کوئی بھی پیشگوئی آسان نہیں لیکن قدرت نے اچھی ماں کی طرح ہمیں صلاحیت دے دی ہے۔ ہم اپنی دنیا کو کئی جہتوں میں وسیع کر سکتے ہیں۔ یہ ہماری کوگنیٹو کیپیسیٹی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک کی تمام گفتگو اِن پُٹ کے بارے میں تھی۔ حسیات سے آنے والے ڈیٹا کے بارے میں۔ لیکن دماغ کا ایک دوسرا کام آوٗٹ پُٹ ہے۔ جسم کو حرکت دینا۔ شاید آپ سوال کریں کہ کیا یہ بھی لچکدار ہے؟ کیا ہم اپنے جسم کو بھی توسیع دے سکتے ہیں۔ اضافی بازو؟ روبوٹک اعضاء؟ یا پھر اس سے آگے ۔۔۔ سوچ کی مدد سے کسی آواتار کو دور سے ہی کنٹرول کر لینا؟
اچھا کیا کہ آپ نے پوچھ لیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply