پاکستانی سیاست میں استعفوں کی دستک ۔۔اطہر شہزاد

لگتا یہی ہےکہ پی ڈی ایم ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ قمر زمان کائرہ اور مریم نواز کے بیانات سے ایسا ہی دکھتا ہے، اگر یہ فیصلہ ہوجائے، تو یہ ایک بہت مشکل اور ممکنہ طور پر تباہ کن دور کا آغاز ہوسکتا ہے، پی ڈی ایم میں شامل جہاندیدہ اور تجربہ کار قیادت سے اس قسم کے فیصلے  کی توقع نہیں  کی جانی چاہیے۔

ذرا دیکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں اس وقت پارٹی پوزیشن کیا ہے ؟ اور ممکنہ استعفوں کے بعد پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کس طرح کا بن سکتا ہے ؟

اس وقت 342 کے ایوان میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور اے این پی کی مجموعی نشستیں 154 ہیں اور اگریہ سب کے سب مستعفیٰ  ہوجائیں تب بھی قومی اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی اور خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرواکر نئے اراکین منتخب کیے جاسکتے ہیں۔

اگر ضمنی الیکشن ہوئے ؟ تو پی ڈی ایم استعفیٰ  دی  گئی نششتوں پر دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں  لے گی۔۔۔۔ اور لوٹا کریسی کے ٹول کے سہارے، تقریباً تمام ہی سیٹوں پر تحریک انصاف کے لوگ کامیاب قرار پائینگے۔ اس طرح ایوان میں برسراقتدار پارٹی کو پہلے سے بہت زیادہ مستحکم پوزیشن حاصل ہوجائے گی۔

ایک دوسرا سوال پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کا بھی ہے، کیا بلاول سندھ حکومت سے دستبردار ہونے کو تیار ہوجائیں گے ؟ ایک مہنگا ، بہت مہنگا سودا۔۔۔سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے اور اگر سب کے سب 96 ارکان مستعفی ہوجائیں تو صوبائی اسمبلی تحلیل ہوسکتی ہے۔

اجتماعی استعفوں سے جو سب سے بڑا آئینی و نظریاتی خطرہ نظر آرہا ہے وہ اٹھارہویں ترمیم کی منسوخی، اسمبلی توڑنے کے اختیار کی صدر کو واپسی، ناموس رسالت قانون کی تنسیخ اور تحفظ ختم نبوت  ترمیم کی تحلیل ہے۔ایف اے ٹی ایف کے پس منظر میں پاکستان پرناموس رسالت اور ختم نبوت ترمیم کی تنسیخ کیلئے سخت دباؤ ہے۔ اگر ایم ایم اے کے مٹھی بھر مولوی اسمبلیوں سے نکل گئے تو روشن خیالوں کو کھل کھیلنے کاموقع مل جائیگا۔

پاکستان کی سیاست میں استعفوں کے کبھی اچھے نتائج نہیں  نکلے، تم روٹھے ، ہم چھوٹے کے مصداق، استعفوں کے بعد برسراقتدار پارٹی مزید مضبوط ہوجائےگی، ملک میں طالع  آزماؤں کے لئے نئے مواقع پیدا ہونگے، لوٹا کریسی کو فروغ ملے گا، نظریاتی محاذ پر اسلام پسندوں  کا توازن   مزید خراب ہوجائےگا، ضمیر کی خرید و فروخت کی وجہ سے ، ملک کے غریب اور مشکلات میں پھنسی عوام کا مزید بھیانک نقصان ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستانی سیاست میں بائیکاٹ اور استعفوں کی سیاست،
یعنی مملکت پاکستان کے لئے خسارے کا سودا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply