مردم شماری کیوں ضروری؟؟

مردم شماری کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر تی ہے۔ اس کے ذریعے ملکی وسائل کی تقسیم بہتر اور درست انداز میں ہو سکتی ہے ۔ساتھ ساتھ یہ انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تر قی یافتہ ممالک ملک و قوم کی خوشحالی کے لیے ہر دس سال بعد مردم شماری کراتے ہیں تاکہ ملک و قوم کی مزید ترقی کو یقینی بنایا جاسکے…
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں دیگر معاملات تاخیر کا شکار ہیں وہیں مردم شماری ان میں سے ایک ہے پاکستان میں 1951 سے 1981 تک پہلی چار مردم شماریاں اپنے وقت پر ہو ئیں مگر پانچویں اور چھٹی تاخیر کا شکار ہو گئیں ۔موجودہ مر دم شماری کے لیے کو شش تو 2008 سے جاری ہے مگر یہ اب 2017 میں بالآ خر ہو نے جارہی ہے ۔اس بار ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ خواتین اور مردوں کے ساتھ ساتھ تیسری جنس کا اندارج بھی کیا جائے گا۔
موجودہ مردم شماری میں 18.5 ارب روپے خرچہ آرہا ہے جس میں سے چھ ارب روپے پاک فوج، 6.5 ارب روپے ٹرانسپورٹ اور چھ ارب سول انتظامیہ کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ مردم شماری دو مراحل میں مکمل ہوگی۔ پہلا مرحلہ پندرہ مارچ سے پندرہ اپریل تک جبکہ دوسرا مر حلہ پچیس اپریل سے پچیس مئی تک جاری رہے گا مردم شماری کے نتائج ساٹھ دن کے اندر جاری کیے جائیں گے ۔افغانیوں سمیت تمام لوگ جہاں بھی رہ رہے ہیں انہیں بھی شمار کیا جائے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ دہری شہریت والوں کو بھی گنا جائے گا.
پاکستان بے روزگاری امن و امان کی خراب صورتحال سمیت جن مسائل کا شکار ہے ان میں مو جودہ مردم شماری بے حد اہم کر دار ادا کر سکتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی کا 38 فیصد حصہ چودہ سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے جبکہ 64 فیصد افراد کی عمر 25 سال سے کم ہے جبکہ بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ ڈگری ہاتھ میں لیے نوجوان در بہ در نوکری کے لیے دهکے کھا رہے ہیں ۔اگر یہی حال رہا تو آئندہ دس سالوں میں بے روزگاری مزید بڑهے گی۔ امن و امان کو بھی مزید خطرات لاحق ہوں گے ۔
موجودہ ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے بعد حکومت پندرہ سال سے کم عمر بچوں کے لیے بھی ایسے ہنر متعارف کروائے جسے حاصل کر کے وہ آگے چل کر اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں تاکہ وہ کسی دہشت گردی کا شکار ہو نے سے بچ جائیں۔ مردم شماری میں تاخیر کی وجہ سےاس بات کو جاننا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ اس وقت ملک کی درست آبادی کتنی ہے ؟کن کن شعبوں میں عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہورہی ہیں۔ اب تک ہر شعبے میں صرف اندازوں سے کام لے کر کام نہیں چلایا جاسکتا ۔وسائل کی منصفانہ تقسیم موجودہ حالات میں ناممکن ہے ۔سرکاری اسپتال اس وقت کتنے فیصد عوام کی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں؟ اسکول کالجز جامعات کتنے فیصد طالب علموں کی علمی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں؟ کیا ان کی تعداد آبادی کے حساب سے ٹھیک ہے یا نہیں؟پانی بجلی گیس خوراک جیسی بنیادی سہولیات کی تقسیم کتنی شفافیت سے ہو رہی ہے؟ ان تمام مسائل کا حل مردم شماری کے ذریعے با آسانی کیا جاسکتا ہے۔ اگر سیاسی مفادات سے ہٹ کر بروقت اور مؤ ثر مردم شماری کروائی جاتی تو ملک اس قدر پیچیدہ مسائل کا شکار نہ ہوتا..

Facebook Comments

زرمینہ زر
feminist, journalist, writer, student

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply