ٹارگٹ،ٹارگٹ ،ٹارگٹ۔کرنل ضیا شہزاد/قسط14

پکے راگ!
اگست 2012 میں جب ہم نے مجاہد آرٹلری کی ایک مایہ ناز فیلڈ یونٹ کی کمانڈ سنبھالی تو وہ کشمیر جنت نظیر کے حسین پہاڑوں پر ڈیپلائے تھی۔ ہمارا ہیڈکوارٹر ایک الگ تھلگ جگہ پر واقع تھا۔ نہایت دلکش لینڈ سکیپ پر مشتمل وادی کے بیچوں بیچ واقع ہمارا میس بھی اپنی مثال آپ تھا۔ فیملی کا جھنجھٹ بھی نہ تھا کہ دو ہفتے کے بعد ویک اینڈ پر دو دن کے لئے گھر کا رخ کرنے کی اجازت ملا کرتی تھی۔ غرض قدرت کی عنایات کی کمی نہ تھی لیکن مسئلہ فقط یہ تھا کہ ان سب نعمتوں سے استفادہ کیسے کیا جائے۔ شمشیر و سناں پر کافی وقت صرف کر نے کے باوجود بھی ہمارے پاس بہت سا فارغ وقت بچ جاتا تھا جسے ہم نے حسبِ قاعدہ طاؤس و رباب میں صرف کرنے کا فیصلہ کیا۔

پہلے قدم کے طور پر شام کو تمام افسروں پر میس میں حاضری لازم قرار دے دی گئی ۔ میس میں کسی قسم کی فائل یا موبائل فون لانا بھی سختی سے منع قرار پایا تاکہ یکسوئی کا ماحول پیدا کیا جاسکے۔ لارج سکرین ایل سی ڈی میس میں پہلے ہی سے موجود تھی جسے انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک کر کے اس پر من پسند نغمے چلائے جانے کی سہولت بہم پہنچائی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ ایک کنگ سائز کی لکڑ ی کی سکرین بھی بنوائی گئی جس پر سفید پینٹ کر کے باہر لان میں نصب کر دیا گیا۔ شام کے وقت پروجیکٹر کی مدد سے اس سکرین پر بھی پرانے گیت اور غزلیں چلائی جانے لگیں۔ غرض چند ہی دنوں میں میس میں پکے راگوں اور پرانی فلموں کا دور دورہ ہوگیا۔

ہمارے ہردلعزیز ٹو آئی سی کو بھی موسیقی سے خصوصی شغف تھا اور یہ تمام کارروائی انہی کی سرکردگی میں ہوا کرتی۔شمشیر و سناں اور طاؤس و رباب کا یہ حسین امتزاج کچھ اس طرح سے رنگ لایا کہ اچانک یونٹ نے فارمیشن میں پے درپے مقابلے جیتنا شروع کر دیے۔ چند ماہ بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یونٹ بریگیڈ سے لے کر کور تک تمام مقابلوں میں فاتح قرار پائی۔ باقی یونٹوں کے افسران ہماری یونٹ کی شاندار اور چھپر پھاڑ قسم کی کامیابیوں پر رشک کرتے اور اس کے پیچھے چھپے راز سے پردہ اٹھانے کی کھوج میں مبتلا رہتے۔ ہم بھی انہیں مزید پریشان کرنے کے لئے کہہ دیا کرتے کہ قدرت کی یہ خاص عنایت پکے راگوں کی بدولت ہے جسے وہ بظاہر سچ سمجھ لیتے۔

اس علاقے میں دو ایک مقامی گلوکار بھی پائے جاتے تھے جن کو خاص خاص مواقع پر میس میں لائیو پرفارم کرنے کے لئے بلایا جاتا تھا۔ ایک دن ایسے ہی ایک خاص موقعے پر ہم نے پورے بریگیڈ کے افسروں اور فیمیلیز کو کمانڈر کے ہمراہ کھانے پر مدعو کیا۔جس مقامی گلوکار کو پرفارم کرنے کی دعوت دی گئی اس نے عین وقت پر طبیعت کی خرابی کے باعث آنے سے معذرت کرلی البتہ طبلہ نواز کو بھجوا دیا۔فنکشن شروع ہونے والا تھا اور ہمارے پاس کوئی آپشن باقی نہیں بچا تھا۔ مشکل کو بھانپتے ہوئے ہمارے ٹو آئی سی نے ایک دوسرے بیٹری کمانڈر کے ساتھ مل کر یہ مہم سر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مہمان خصوصی تشریف لائے تو ہم نے انہیں آگاہ کردیا کہ گلوکاری کا مظاہرہ ہمارے اپنے گلوکار کریں گے۔

ٹو آئی سی نے جب ’’یاد پیا کی آئے‘‘کی تان اٹھائی تو ایک نرالا سماں بندھ گیا اور استاد بڑے غلام علی خان کی یاد تازہ ہو گئی۔انہوں نے دو عدد ٹھمریاں گا کر بریک لی تو دوسرے میجر صاحب نے مہدی حسن اور غلام علی کی غزلیں گا کر داد سمیٹنا شروع کردی۔رات گئے تک غزلوں ، ٹھمریوں اور دادروں کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں طبلہ نواز ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور بولا’’حضور ہم جدی پشتی خان صاحب لوگ ہیں لیکن آپ جیسی تانیں تو ہمارے دادا پردادا بھی نہیں لگا سکتے۔‘‘ ہماری کمانڈ کے دوران بے شمار شیلڈز ، ٹرافیاں اور انعامات یونٹ کے نام ہوئے جن پر ہم آج بھی فخر کرتے ہیں لیکن ایک صاحبِ فن کی جانب سے یہ منفردخراجِ تحسین بھی بہت بڑے اعزاز کی بات ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ہاں مگر سچائی اور فن کا معیار اپنا اپنا۔

مشین کا دل!
بچپن میں بڑے بوڑھوں سے سنا تھا کہ کسی کا دل دکھانا بہت بری بات ہے۔ یہاں تک تو ہم مانتے ہیں کہ اس ’’کسی‘‘ میں انسانوں کے ساتھ ساتھ بے زبان جانوروں کا بھی شمار کیا جاتا تھا لیکن یہ یاد نہیں پڑتا کہ کسی مشین کا دل دکھانے کے بارے میں کبھی کسی بزرگ نے ہمارے سامنے بھولے سے بھی کچھ ارشاد فرمایا ہو۔ ہم بہرحال خود ایک ایسی ہی صورتحال کا شکار ہوئے جس میں ہم نے ایک مشین کا دل دکھایا اور اس کے فوری نتائج بھگتنا پڑے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہمارے والد صاحب کے پاس ایک عدد سوزوکی موٹر سائیکل تھی جو انہوں نے ہماری پیدائش سے بھی پہلے خریدی تھی۔ سنہ 2003 میں یہ موٹر سائیکل اپنی عمر کی تیس بہاریں دیکھ چکی تھی اور اس لحاظ سے اسے بزرگ موٹر سائیکلوں کی کیٹیگری میں شامل ہوئے بھی ایک عرصہ بیت چکا تھا۔ والد صاحب کی اس موٹر سائیکل سے محبت اور اپنائیت دیدنی تھیں اور وہ اسے جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔

ہمارا معاملہ البتہ ذرا سا مختلف تھا۔ زمانہ طالب علمی کے دوران جب ہم اس موٹر سائیکل پر بیٹھ کر دوستوں کے گھر جاتے تو وہ آواز سن کر دودھ والے برتن اٹھا کر باہر آ جاتے۔ اب بھلا اس میں ہمارا کیا قصور کہ ہماری موٹر سائیکل کی آواز ان موٹر سائیکلوں سے ملتی جلتی تھی جو ان دنوں زیادہ تر گوالوں کے زیرِ استعمال ہوا کرتی تھیں۔جب اس طرح کے واقعات کثرت سے وقوع پذیر ہونے لگے تو ہم نے عوام الناس کومزید شبہے میں ڈالنے کے بجائے موٹر سائیکل کی سواری سے کنارہ کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔البتہ والد صاحب سے ہم نے کئی مرتبہ اصرار کیا کہ آپ نئی موٹر سائیکل خرید لیں، جس کا جواب ان کی طرف سے یہ آتا کہ ’’برخوردار! میری موٹر سائیکل جاپان اسمبلڈ ہے اور اس میں اصلی جاپانی پرزے لگے ہوئے ہیں۔ اس کا آج کل کی پاکستان اسمبلڈ موٹر سائیکلوں سے بھلا کیا مقابلہ۔‘‘ ان کی اس دلیل کے سامنے ہم اور موٹر سائیکل بنانے والے ادارے دونوں یکساں طور پر بے بس تھے۔ حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ اس ’’عفیفہ‘‘ کے اصلی جاپانی پرزوں میں سے شاید ہی کوئی اپنی اصل صورت میں باقی بچا ہو۔

ہمارے شہر میں ان دنوں ایک پرانا مستری ہوا کرتا تھا جو اس قسم کی موٹرسائیکلوں کی مرمت کیا کرتا تھا۔ ہماری موٹر سائیکل سال میں سے چھ مہینے اس مکینک کے زیرِ علاج رہ کر گزارتی۔ والد صاحب اس مستری پر اعتماد تو بہت کرتے تھے لیکن مرمت کا کام ہمیشہ اپنے سامنے بیٹھ کر ہی کرواتے۔ دراصل ان کو یہ خوف لاحق تھا کہ مستری موٹر سائیکل کے اصلی پرزے نکال کر ان کی جگہ نقلی پرزے فٹ نہ کر دے۔ اس موٹر سائیکل کو والد صاحب نے کبھی تالا لگوانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ دن ہو یا رات اس کو چوروں سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔بالفرض محال اگر کوئی چور اسے اٹھانے کی غلطی کر بھی لیتا تو ہاتھ جوڑ کر واپس کرجاتا۔ ٹریفک کے سپاہی بھی اس کو دور سے ہی سلیوٹ کرنے کے بعد راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ کبھی کبھار والد صاحب اپنی موٹر سائیکل کا ایک اور فائدہ بھی گنوایا کرتے تھے ،وہ یہ کہ سن رسیدگی کے باعث اس کی سالانہ ٹوکن فیس بھی معاف ہو چکی تھی جبکہ ظاہر ہے کہ یہ شاندار سہولت بھی نئی موٹر سائیکلوں کو ہرگز حاصل نہیں تھی۔

2002 کے اوائل میں ہماری پوسٹنگ سکول آف آرٹلری میں ہوگئی۔ ہم نے قبلہ والد صاحب سے گزارش کی کہ ہمارے ساتھ رہ کر خدمت کا موقع دیا جائے۔ وہ پہلے تومصروفیات کا بہانہ بنا کر ٹالتے رہے لیکن پھر اس شرط پر رضامند ہوئے کہ پہلے ان کی عزیز از جان موٹرسائیکل کوبھی نوشہرہ منتقل کیا جائے۔ ہم نے ریلوے والوں کے تعاون سے ان کی یہ خواہش پوری کی تبھی والد صاحب نے نوشہرہ آنے کی ہامی بھری۔ موٹر سائیکل نوشہرہ تو پہنچ گئی لیکن یہاں پر اسے شدید اکیلے پن کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ نہ تو وہاں اس قبیل کی کوئی اور موٹرسائیکل موجود تھی اور نہ ہی اس کے دکھ درد جاننے والا کوئی مستری۔ سن رسیدگی کے باعث اس میں اور مسائل تو پیدا ہوئے ہی تھے ایک مرضِ شدید نے نوشہرہ پہنچ کر اسے آن لیا۔ وہ یہ کہ موٹر سائیکل کے انجن سے قطرہ قطرہ انجن آئل ٹپکنا شروع ہو گیا۔ ہم نے والد صاحب کے ساتھ مل کر بہتیری کوشش کی لیکن کسی بھی طرح اس کا علاج ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ موٹر سائیکل کو استعمال کے بعد عموماً گھر کے باہر برآمدے میں کھڑا کیا جاتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں برآمدے کی سطح انجن آئل کے داغوں سے بھر گئی۔ بیگم صاحبہ کو اس پر شکایت پیدا ہونا قدرتی امر تھا لیکن حفظِ مراتب کی وجہ سے اس بات کا اظہار کھلے عام نہیں کیا جا سکتا تھا چنانچہ دل ہی دل میں بھڑاس نکال لیا کرتی تھیں شاید۔۔

ان دنوں ایک عدد سیکنڈ ہینڈ سوزوکی مہران ہمارے زیر استعمال ہوا کرتی تھی۔ بیگم کا اصرار تھا کہ ان کو بھی ڈرائیونگ سکھائی جائے تاکہ وہ بچوں کو سکول سے لانے‘ لے جانے اور دیگر روزمرہ کے امور ہماری غیر موجودگی میں سہولت کے ساتھ سرانجام دے سکیں۔ ہم نے جان چھڑانے کی ازحد کوشش کی لیکن بیگم کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہی بنی اور ایک دن ہم انہیں ڈرائیونگ سکھانے کے لئے اے ایس سی سکول کے ڈرائیونگ ٹریک پر لے جانے کے لئے راضی ہو ہی گئے۔ گھر سے قدم باہر نکالا تو برآمدے میں کھڑی موٹر سائیکل پر نظر پڑی جس سے انجن آئل رس رس کر فرش پر بہہ رہا تھا۔ بیگم کو موقع ہاتھ آ گیا اور انہوں نے چلتے چلتے موٹر سائیکل کو سخت سست سنانا شروع کردی۔ ہم نے انہیں چپ کروایا اور گاڑی میں بٹھا کر ڈرائیونگ ٹریک کی راہ لی۔ ڈرائیونگ ٹریک شہر کے مضافات میں پتھریلے علاقے کو صاف کر کے بنایا گیا تھا۔ ہم نے بیگم کو سٹیئرنگ ، کلچ، گئیر ، ایکسیلیٹر اور بریک وغیرہ کے بارے میں کچھ دیر سمجھانے کے بعد گاڑی ان کے حوالے کر دی۔ انہوں نے ہماری ہدایات کے مطابق آہستہ آہستہ چلاتے ہوئے ٹریک کے دو چکر مکمل کئے۔ تیسرے چکر میں نہ جانے کیوں گھبرا کر انہوں نے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھا دیا جس کے باعث گاڑی نے رفتار پکڑ لی۔ جس کے نتیجے میں سٹیئرنگ بھی قابو میں نہ رہ سکا اور گاڑی آناً فاناً ٹریک سے اتر کر سائیڈ پر موجود بڑے بڑے پتھروں پر چڑھ کر رک گئی۔

ہم نے وہاں موجود گارڈ کی مدد سے گاڑی کو دھکا لگا کر پتھروں سے نیچے اتارااور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی۔ گاڑی کو بظاہر تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا تھا لیکن اتنا شدید دھچکا کھانے کی وجہ سے اس کی چال ڈھال میں فرق ضرور آ گیا تھا۔ ہم نے وہاں سے سیدھا ایک ورکشاپ کا رخ کیا۔ معائنے کے بعد انکشاف ہوا کہ باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن غیر معمولی رگڑ کھانے کے باعث گاڑی کے انجن آئل والے کنٹینر میں معمولی سا کریک پڑ گیا تھا جس سے انجن آئل قطرہ قطرہ رِسنا شروع ہو چکا تھا۔ مستری نے بہرحال تین گھنٹے اس کی مرمت میں صرف کرنے کے بعد ہمیں تسلی دی۔ ہم واپس گھر پہنچے اور گاڑی کو گیراج میں کھڑا کر دیا۔

صبح آفس جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھنے لگے تو یہ دیکھ کر ہم نے سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا کہ گیراج کا فرش انجن آئل کے نشانات سے بھر چکا تھا۔ اس کے بعد ہم نے دور نزدیک کے مستریوں سے اس گاڑی کا بہتیرا علاج کروایا لیکن وہ مرض دور ہونا تھا، نہ ہوا۔ اس بات سے ہمیں یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو ہماری موٹرسائیکل ولایت کے درجے پر فائز ہو چکی تھی جس کا ذرا سا دل دکھانے کی اتنی بڑی سزا ہمیں بھگتنا پڑی۔اس کے بعدسے ہم نے موٹر سائیکلوں سمیت جملہ اقسام کی مشینوں کا دل دکھانے سے توبہ کر لی۔ اس نیک فیصلے میں ہماری بیگم بھی ہم سے پوری طرح متفق تھیں۔

بیچلر سی او!
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لوگ سیر و تفریح اور شاپنگ کے لئے پشاور کا رخ کیا کرتے تھے۔ پی ایم اے میں جب ہماری پوسٹنگ اناؤنس کی گئی تو ساتھ ہی سٹیشن پشاور کینٹ بتایا گیا۔ یار لوگوں نے پشاور کی دلکشی کے قصے خوب مزے لے لے کر سنائے اور ہمارے شوق کو اور مہمیز کیا۔ لیکن قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ خلیل خان جب فاختہ اڑانے کے لئے پشاور پہنچے تو ہاتھوں کے طوطے فی الفور اڑ گئے۔ یہ جان کر ہمارے بن کھِلے ارمانوں پر منوں اوس پڑ گئی کہ ہمارے سی او بیچلر ہیں۔ فورسڈ بیچلر نہیں بلکہ سچ مچ کے، اصلی والے بیچلر۔ ان کے پاس پروفیشن کے علاوہ اور کوئی کام نہ تھا۔ ہم صبح سے لے کر شام تک یونٹ میں ان سے عزت افزائی کروانے کے بعد کمرے کا رخ کرتے تو احتیاط کے مارے سانس بھی آہستہ لیتے کہ ساتھ والا کمرہ ان کا تھا۔ کھانا کھانے کے لئے میس کا رخ کرتے تو وہاں پر بھی ان کی پرہیبت شکل نظر آتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے اپنی سروس کا زیادہ تر حصہ انٹیلی جنس میں گزارا ہوا تھا اور ہر بات کی ٹوہ لگانا ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی۔ آرٹلری کا یہ کریلا جاسوسی کی نیم چڑھ کر حد درجہ کڑوا ہو چکا تھا۔

عام طور پر ان کو یہ خدشہ لاحق رہا کرتا تھاکہ افسران ان کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ عنایات صرف افسروں کے لئے خاص نہ تھیں بلکہ سارا زمانہ ان کے قدموں میں تھا کیا جے سی او، کیا این سی او اور کیا سپاہی کوئی بھی ان کی مہربانیوں سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ ان کی کوشش ہوتی کہ لوگوں کو ہر وقت ڈرا سہما کر رکھا جائے اور اس قسم کا نظام تشکیل دیا جائے کہ ان کو پل پل کی خبر ملتی رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ کوئی بھی طریقہ روا رکھنے کے قائل تھے۔

ایک مرتبہ ہم میس کے ٹی وی روم میں بیٹھے کھانا لگنے کا انتظار کر رہے تھے۔ یکایک ایک ویٹر نے چپکے سے آکر کان میں بولا کہ آپ کو سائیڈ روم میں کیپٹن جمیل اور لیفٹیننٹ کبیر یاد کر رہے ہیں۔ یہ دونوں افسران ہم سے دو ڈھائی سال سینئر تھے اور ان کا تعلق ایک دوسری یونٹ سے تھا۔ہم پہلے تو شش و پنج میں پڑ گئے کہ ان کو ہم سے آخرکیا کام آن پڑا ہے جو ہمیں تخلیے میں طلب کیا جا رہا ہے۔ یہی کچھ سوچتے ہوئے سائیڈ روم میں پہنچے تو دیکھا کہ دونوں افسران ایک صوفے پر براجمان ہیں۔ ہم نے سلام کیا تو سامنے والے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا۔ رسمی سلام دعا کے بعد لیفٹیننٹ کبیر نے پوچھا کہ سنا ہے کہ آج کل آپ کے سی او آپ پر بہت ظلم رو ا رکھے ہوئے ہیں۔ کیپٹن جمیل بھی ساتھ میں گویا ہوئے کہ آپ لوگ تو بہت سختی جھیل رہے ہیں۔ ایسے سی او کے ساتھ کام کرنا تو انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہم کچھ دیر تو سنتے رہے پھر بولے ’’سر آپ لوگ ہوتے کون ہیں میرے سی او کے خلاف کوئی بات کرنے والے۔ ان جیسا قابل اور محنتی افسر روئے زمین پر اور کوئی نہیں ہے۔ ہم انہیں دل و جان سے پیار کرتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بات سننا ہمیں ہرگزگوارا نہیں۔معاف کیجئے گا !آپ لوگ مجھ سے بہت سینئر ہیں لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک سینئر آفیسر کی غیر موجودگی میں اس کے خلاف اس طرح سے بات کرنا اخلاقی اور قانونی تقاضوں کے عین منافی ہے اور اگر میں ان کو اس بارے میں مطلع کر دوں تو آپ دونوں کے خلاف سخت ایکشن بھی لیا جا سکتا ہے۔‘‘

ان دونوں افسران کو ہم سے اس قسم کی حق گوئی و بیباکی کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ وہ تو ہم سے سی او کی برائیاں سننا چاہ رہے تھے لیکن یہاں تو معاملہ بالکل الٹ نکلا۔ بہرحال ہم تو اپنے سی او کی شان میں قصیدہ پڑھنے کے بعد سکون سے ڈائننگ روم میں پہنچ گئے۔ کھانا کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ سی او کا بیٹ مین پیغام لے کر پہنچ گیا کہ ہمیں یاد فرمایا جا رہا ہے۔ ہم سی او کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے کھڑے ہو کر ہمارا استقبال کیا۔ ہمارے لئے چائے منگوائی گئی اور جاتے ہوئے پندرہ دن کی چھٹی بھی عنائت فرمائی۔ بات دراصل یہ تھی کہ جب ہمارا انٹرویو لیا جا رہا تھا تو موصوف بنفسِ نفیس پردے کے پیچھے چھپ کر ساری باتیں سن رہے تھے اور انہوں نے خود ہی ان دونوں افسروں کو اس واہیات کام کے لئے تیار کیا تھا۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ وہ ساری برائیاں جو ہم ان کی پیٹھ پیچھے کیا کرتے تھے، وہ اپنے کانوں سے سن سکیں۔ لیکن ہمارے منہ سے برائی کے بجائے اپنی اس قدر تعریف سننے کے بعد ہمارے بارے میں ان کا موقف یکسر تبدیل ہو گیا۔ اب ان کو پوری یونٹ میں ہم سے زیادہ لائق افسر کوئی اور نظر نہیں آتا تھا۔

(اب آپ سے کیا چھپائیں کہ ویٹر نے ہمیں پیغام دیتے ہوئے کان میں یہ بھی کہہ دیا تھا’’سر! سی او صاحب پردے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ آپ بات چیت کرتے ہوئے احتیاط کیجئے گا۔)

Advertisements
julia rana solicitors london

…جاری ہے!

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply