نامعلوم افراد۔اے وسیم خٹک

بہت عرصہ سے نامعلوم افراد کا لفظ سنتے آرہے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اتنی دہشت مچائی ہوئی ہے ۔ یہ لفظ جتنا اب مشہور ہوا ہے اس سے پہلے اتنا  نہیں تھا ۔ ورنہ دو دہائی قبل کے کراچی کے اخبارت اُٹھا کر دیکھیں ۔اخبارات کی شہ سرخیوں میں یہی تھا کہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے بے گناہ  معصوموں کو قتل کردیا ۔ نامعلوم افراد بوری بند لاش پھینک کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر لوگ اس لفظ کو سن کر عاجز آگئے تھے ۔  پھر وہ وقت آیا جب اس لفظ کو تقویت ملی اور ہر جگہ یہ بات چلنے لگی جب کوئی قتل ہوجاتا، کہیں پر دھماکہ ہوجاتا، کوئی اغوا ء ہوجاتا تو آسانی سے پولیس تھانوں میں نامعلوم افراد کے خلاف پرچے کاٹے جانے لگے، بعض اوقات تو پولیس اسٹیشن میں معلوم افراد کو بھی نامعلوم افراد کی لسٹ میں ڈالا جانے لگا ۔ کہ اس قتل کا کوئی سراغ نہیں مل سکتا۔ ایس ایچ او ملزمان سے پیسہ لے کر نامعلوم افراد کے خلاف پرچہ کاٹ لیتے ۔ اور یوں ملزمان قانون کی گرفت سے بچ جاتے اور اب بھی بچ رہے ہیں ۔

ملک عزیز میں دھماکے کرنے کے شبے میں بھی  ایف آئی آر  نامعلوم افراد کے خلاف کٹنے لگی ۔اگر تحریک طالبان یا کوئی دوسری تنظیم ذمہ داری قبول کرلیتی تو ٹھیک ورنہ وہ دھماکہ یا تو نامعلوم افراد یا پھر طالبان کے کھاتے میں آجاتا۔ اور یہ وہ وقت تھا جب پشاور میں کوئی بھی جمعہ دھماکے سے خالی نہیں تھا اور یوں ان دھماکوں میں چالیس ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوئے ۔ اس وقت دیرینہ دشمنی کے واقعات  بھی طالبان یا پھر نامعلوم افراد کے سر آنے لگے کیونکہ خودکش بھی فروخت ہوتے تھے۔ جو لوگ سالو ں کے بدلے نہیں لے سکتے تھے انہوں نے خودکش بمبار  خریدنے شروع کردیے جس سے ان کا کام بھی ہوجاتا اور ان پر کوئی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا تھا ۔ ذمہ داری ویسے بھی تحریک طالبان یا پھر جماعت الاحرار والے لیتے تھے۔ پھر جب حالات میں آپریشنز کے بعد کچھ تبدیلی آئی تو ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی جس میں پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کے جوانوں سمیت تاجر اور عام افراد قتل ہونے لگے اور یوں ایسے واقعات کو  بھی نامعلوم افراد کے کھاتے میں ڈالدیا  جاتا ۔ جن کا آج تک کوئی پتہ نہیں لگ سکا ۔

کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں لکھنے اور بولنے کی آزادی ہے ، آپ کسی کے خلاف کچھ بھی بول اورلکھ سکتے ہیں. یہ ہماری سب سے بڑی خام خیالی ہے، دنیامیں کہیں پر بھی آزادی نہیں ہے خواہ وہ ترقی یافتہ ممالک  ہی کیوں نہ ہوں ،، ملکی امور اور ملکی اندرونی حالات میں جب بھی کسی نے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے ، وہ نامعلوم افراد کے ہاتھوں یرغمال ہوئے ہیں ، اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں کچھ بھی چھپا ہوا  نہیں ہے سب کچھ جس طرح ہمارے سامنے ہے اسی طرح ان کے بھی سامنے ہے۔ حکومتی ادارے ملکی سلامتی کے لیے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور جوبھی شخص رٹ کو چیلنج کرتا ہے ان کی مانیٹرنگ شروع ہوجاتی ہے اورپھر ان کو اُٹھانا کوئی مشکل  کام نہیں ہوتا۔ ہمارے صحافی صاحبان اپنے اداروں کے مالکان کے ساتھ بات نہیں کرسکتے جو مہینوں ان کی تنخواہیں روکے رکھتے ہیں مگر اپنے ادارے کے لیے خطرناک رپورٹنگ سے باز نہیں آتے۔ گزشتہ کئی سالوں میں کتنے صحافیوں کی جان گئی ہے ، ان اداروں نے ان صحافیوں کے لیے کیا کیا ہے؟ ۔ صرف کچھ مذمتی بیانات اخبارات میں شائع کیے ہیں ۔اور  چند  مظاہرے۔

پریس کلب اور یونین سے باہر نہ نکلنے والے سربراہان اپنے لیے کچھ نہیں کرسکتے ۔ وہ عام افراد کو جن کو کوئی جانتا بھی نہیں وہ گمنام صحافی ہیں ۔ ان کا کوئی کیا مداوا کرے گا۔ ہر روز صحافی قتل ہورہے ہیں ۔ اغواء ہورہے ہیں ۔ مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ تو یوں خود کو اور اپنے خاندان کو خطرے میں کیوں ڈالا جائے، جو بچ جاتے ہیں یعنی واپس ہوجاتے ہیں اُن کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے صحافت میں صرف یہی رپورٹنگ تو نہیں رہی کہ بندہ ان اداروں کے خلاف ہی لکھے .جن کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے . اب تو سائبر کرائم بل میں سوشل میڈیا والا بھی  نہیں بچ سکتا.

Advertisements
julia rana solicitors london

حالیہ مثالیں پشتو کا ایک مقولہ یاد آگیا،” چے کم زے دے نہ گریگی نو مائے گاروا”۔ یعنی جس جگہ خارش نہ ہورہی ہو وہاں انہیں کیوں چھیڑا جائے ۔ اور ہمارے بھولے صحافی بھائی یہ نہیں جانتے کہ آپ یورپ میں ہو لو کاسٹ کے بارے میں لکھ سکتے ہیں،کیا اسامہ آپریشن والوں کا کوئی اتہ پتہ ہے؟. صدام اور قذافی کو قتل کرنے والوں کے بارے کوئی ڈیٹا ہے ؟پاکستان میں دیکھیں اوجڑی کیمپ، مرتضی بھٹو مفتی شامزئی اور ضیاء الحق سمیت بے نظیر بھٹو یا دیگر کے قاتلوں کا کچھ پتہ چلا ہے.؟ نہیں نا تو کیوں خود کو تکلیف میں ڈالا جائے صحافی حضرات قلقلا خان بننے سے گریز کرتے ہوئے دیگر اداروں کے بارے میں رپورٹنگ کریں ۔تو بہتر ہے کیونکہ اپنی جان اپنے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply