• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈار صاحب!غلط کاموں اور بولے گئے جھوٹوں سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہوجاتا ہے۔۔غیور شاہ ترمذی

ڈار صاحب!غلط کاموں اور بولے گئے جھوٹوں سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہوجاتا ہے۔۔غیور شاہ ترمذی

ایک یونیورسٹی میں 4 دوست ایک رات پارٹی کرتے رہے اور اپنی موج مستی میں انہوں نے اگلے دن ہونے والے اپنے ٹیسٹ کی تیاری بھی نہیں کی۔ یہ ٹیسٹ سمسٹر کا فائنل ٹیسٹ تھا۔ اب صبح انہیں اپنے ٹیسٹ کی بہت فکر لاحق ہونی شروع ہو گئی۔ انہوں نے یونیورسٹی جاتے ہوئے ایک منصوبہ سوچا اور یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے اپنے کپڑوں پر گریس اور مٹی مل لی۔ اپنے استاد کے پاس اس حال میں پہنچے کہ جیسے وہ بہت دور سے پیدل چل کر آ رہے ہیں اور بہت بری حالت میں ہیں۔ انہوں نے اپنے استاد کو بتایا کہ کل رات وہ ایک شادی میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے مگر جب وہ واپس آ رہے تھے تو اُن کی گاڑی کا ٹائر برسٹ ہو گیا۔ راستے میں تمام دکانیں بند تھیں لہذا وہ اپنی گاڑی کو دھکا لگاتے ہوئے پیدل سیدھا یونیورسٹی پہنچ تو گئے ہیں مگر اب اُن کی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ ٹیسٹ دے سکیں۔ اُستاد نے کچھ لمحوں تک سوچا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ 3 دن بعد دوبارہ ٹیسٹ دے سکتے ہیں۔

ٹیسٹ کی مکمل تیاری کر کے جب وہ تیسرے دن اُستاد کے سامنے ٹیسٹ دینے کے لئے پیش ہوئے تو اُستاد نے اُن چاروں کو الگ الگ کمروں میں بٹھا دیا۔ جب 100 نمبروں کا وہ ٹیسٹ اُن کے سامنے آیا تو اُس میں صرف 2 سوال تھے۔ پہلا سوال 1 نمبر کا تھا کہ طالب علم کا نام کیا ہے؟- دوسرا سوال 99 نمبر کا تھا کہ گاڑی کا کون سا ٹائر برسٹ ہوا تھا۔ پہلی چوائس اگلا دایاں ٹائر، دوسری چوائس اگلا بایاں ٹائر، تیسری چوائس پچھلا دایاں ٹائر اور چوتھی چوائس پچھلا بایاں ٹائر۔ اس کہانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماضی میں کئے اپنے غلط کاموں اور غلط فیصلوں کا بوجھ خود اٹھانا پڑتا ہے۔

اس کہانی کی یاد یوں آئی کہ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار پاکستان کو درپیش معاشی مسائل، اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی اور مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف کے فوجی قیادت پر سنگین الزامات کے حوالہ سے   بی بی سی کے اینکر سٹیفن سیکر کے شو ’ہارڈ ٹاک‘ میں انٹرویو دینے پہنچ گئے۔ اس انٹرویو کے دوران سٹیفن سیکر نے اسحٰق ڈار پر تابڑ توڑ حملے کئے اور یوں لگتا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے استاد کی طرح سوچ سمجھ کر اپنے طالب علموں کو 3 دن بعد ٹیسٹ دینے کی اجازت دے کر اُن کا منصوبہ ایکسپوز کرنے والے ہیں۔ اس انٹرویو کے دوران ایک موقع پر جب اسحٰق ڈار نے سول سپریمسی کی بات کی تو سٹیفن نے انہیں یاد دلایا کہ اُن کے (اسحٰق ڈار کے) باس میاں نواز شریف کئی سالوں تک جنرل ضیاء کے ساتھ کام کر رہے تھے اور اب آپ سول سپریمیسی کا بیان دے رہے ہیں، کیا یہ منافقت کے مترادف  نہیں ہے؟۔ اگرچہ سٹیفن کے اس استدلال کے ساتھ اسحٰق ڈار کا یہ کہنا تھا کہ “میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ یہ ارتقا کا عمل ہے” لیکن حقیقت یہی ہے کہ میاں نواز شریف کا جنرل ضیاء الحق سے پرانا تعلق ایک سلگتا تازیانہ ہی ہے۔

اینکر سٹیفن سیکر نے ان سے یہ سوال بھی کیا کہ اسحٰق ڈار خود بھی قانون سے بچنے کے لئے لندن آئے ہوئے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں اشتہاری اور مطلوب ہیں۔ اس پر اسحٰق ڈار کا جواب تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ گزشتہ 73 برسوں کے دوران مختلف آمریت کے ادوار میں کرپشن کے بیانئے کو بار بار مخالف سیاستدانوں کے لئے استعمال کیا جا چکا ہے اور اِس مرتبہ بھی یہ ماضی سے کچھ مختلف نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک پوشیدہ آمریت ہے، ایک جوڈیشل مارشل لا ہے۔ اس موقع پر سٹیفن سیکر تھوڑا چوک گئے کیونکہ انہیں اسحق ڈار کو باور کروانا چاہیے تھا کہ سنہ 90ء کی دہائی میں نون لیگ کی حکومت نے پیپلز پارٹی کی لیڈڑشپ پر کرپشن کے جو مقدمات بنوائے تھے وہ 30 سالوں کے دوران کہیں بھی ثابت نہیں ہو سکے۔ پھر بھی اس سے سبق نہیں حاصل کیا گیا اور نون لیگ نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی قیادت کو نشانہ پر رکھتے ہوئے کرپشن کے مقدمات درج کروا دئیے۔ اگرچہ نون لیگ ان نئے مقدمات درج کرنے کا الزام بھی سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد اورآب پارہ والوں کے گٹھ جوڑ پر عائد کرتے ہیں۔ سٹیفن سیکر نے البتہ یہ لقمہ ضرور دے دیا کہ نون لیگ والے جب حکومت میں ہوتے ہیں تو اُن کے لئے جنرل ٹھیک ہوتے ہیں لیکن جب اِن کے ہاتھ سے اقتدار چلا جاتا ہے تو وہی آرمی جنرل برے بن جاتے ہیں ۔

اپنے اوپر لگے کرپشن کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اُن پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ اُن کا نام پاناما پیپرز میں بھی نہیں تھا۔ اینکر سٹیفن سیکر نے تسلیم کیا کہ بےشک اُن کا نام پانامہ پپیرز میں نہیں مل سکا لیکن سنہ 2016ء میں جاری ہونے والی دستاویزات کے مطابق پاکستان سے بڑی تعداد میں پیسہ باہر منتقل کیا گیا تھا اور اس میں ملک کے چند بااثر اور اعلیٰ خاندان ملوث تھے۔ چونکہ اُس وقت اسحق ڈار وفاقی وزیر خزانہ تھے تو یہ رائے قائم کرنے کی بڑی ٹھوس وجہ بنتی ہے کہ اتنے زیادہ پیسے کی بیرون ملک منتقلی میں صرف نواز شریف کا خاندان ہی نہیں بلکہ خود اسحٰق ڈار کا خاندان بھی ملوث ہو سکتا ہے؟۔ اس کے جواب میں اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ اُن کا نام ان دستاویزات میں بھی کہیں درج نہیں ہے۔ سٹیفن نے اس موقع پر لقمہ دیا کہ پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے پانامہ دستاویزات جاری ہونے کے بعد بہت غور سے اُن کے اکاؤنٹس کا جائزہ لیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اُن کے اکاؤنٹس کے ساتھ سنگین مسائل ہیں۔ اس کے جواب میں اسحٰق ڈار نے اس تاثر کی نفی کی اور کہا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا قیام  عمل میں لایا  گیا تھا، جو سپریم کورٹ کی جانب سے ماورائے عدالت اقدام تھا اور اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں 2 فوجی افسران بھی شامل تھے جو دراصل اس پوری ٹیم کی نگرانی کر رہے تھے۔ اس لئے اس جانبدار کمیشن کی رپورٹ قابل اعتماد قرار نہیں دی جا سکتی۔ نیب سے متعلق ایک جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ اپنی اہمیت بہت پہلے ہی کھو چکا ہے۔ اب یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام کے لئے استعمال ہوتا ہے اور وہ خود حکومت میں رہتے ہوئے بھی نیب کی جانب داری پر پریس کانفرنس کر چکے ہیں۔

اسحٰق ڈار سے جب یہ پوچھا گیا کہ اُن کی اور اُن کے خاندان کی کل کتنی جائیدادیں ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ شفافیت پر یقین رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے تمام اثاثے اپنے گوشواروں میں ظاہر کئے ہوئے ہیں۔ اُن کے پاس صرف ایک پراپرٹی پاکستان میں ایک گھر تھا جو موجودہ حکومت نے ضبط کر لیا ہے۔ سٹیفن سیکر نے اُنہیں بتایا کہ مؤقر خبروں کے مطابق اُن کی دبئی اور لندن میں جائیدادیں ہیں جبکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے خاندان کے پاس صرف ایک پراپرٹی تھی جسے حکومت ضبط کر چکی ہے۔ اِس پر اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ یہ (الزامات) درست نہیں۔ اُن کے بچوں کا صرف ایک ولا ہے جو اُن کے بیٹوں کی ملکیت ہے کیونکہ وہ 17 سال سے اپنا الگ کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ آزاد ہیں اور اسحٰق ڈار کی سرپرستی میں نہیں ہیں۔ اب یہ بات مغربی معاشرہ میں تو ممکن ہے کہ بالغ بچے 18 سال کے  ہوتے ہی والدین سے الگ ہو جائیں مگر پاکستان میں ایسا عموماً ممکن نہیں ہوتا اور والدین کی موت تک بچے اُن کی سرپرستی میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسحٰق ڈار اس انٹرویو میں سکون سے نہیں بیٹھے ہوئے تھے بلکہ وہ شدید پریشان تھے۔ بیماری، عدالتوں میں پیش نہ ہونے اور جائیداد کے معاملہ پر وہ سٹیفن سیکر کے تند و تیز سوالات کا جواب اعتماد سے نہیں دے رہے تھے۔ نون لیگ کا ماضی فوجی جنتا کی سرپرستی میں گزرا ہے۔ اس تعلق پر وہ پشیمانی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ وہ اپنے ماضی سے شرمندہ ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ وہ مستقبل میں ایسی غلطی پھر نہیں دہرائیں گے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ میثاق جمہوریت کرتے وقت نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے سول سپریمیسی کے عہد و پیماں کئے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نون لیگی قیادت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی مگر نون لیگ کے دور حکومت میں جیسے ہی پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت سے عمران خاں کا دھرنا ناکام ہوا تو نون لیگی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد نے پیللز پارٹی قیادت کے خلاف مقدمات قائم کرنے شروع کر دئیے جس کے نتیجہ میں اس وقت پیپلز پارٹی قیادت پر عمران خاں حکومت قہر ڈھائے ہوئے ہے، اگر نون لیگ نے اپنے کئے پر شرمندگی کا صحیح منوں میں اعتراف کرنا ہے اور اُس سے سبق سیکھنا ہے تو یاد رکھنا ہو گا کہ بھلے سے وہ گریس اور مٹی سے کپڑے گندے کر لیں، اُستاد کے ٹیسٹ میں وہ ایکسپوز ہو ہی جائیں گے۔

Facebook Comments