چیخوف کی واپسی(حصہ اوّل)۔۔عارف انیس

وہ خزاں کی ایک اداس شام تھی اور وہ سر جھکائے اپنے ہی کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اب تک نہ جانے کتنے چکر کاٹ چکا تھا. اس کے دماغ میں وہ پندرہ برس پہلے کی یادگار اور پرلطف تقریب کی یادیں یلغار کررہی تھیں جب اس کی ملاقات شہر کے سب سے نامور نوجوان وکیل سے ہوئی تھی اور اس کے ساتھ رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو بہت جلد ایک انتہائی دلچسپ بحث میں تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ خود ایک بڑا دولت مند بینکار تھا اور دوسری کاروباری فرموں کو سود پر بھاری رقم قرض دیا کرتا تھا۔ یہ نوجوان وکیل اس کے ساتھ کاروبار کرنے والی ایک فرم کا قانونی مشیر تھا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اس نے اسے بھی مدعو کر رکھا تھا۔ پیشہ وارانہ ذہانت کے علاوہ یہ نوجوان بلا کا وجیہہ بھی تھا اور اس کی شخصیت بے پناہ سحر انگیز تھی۔ بحث اس بات پر چل نکلی تھی کہ سزائے موت ایک انتہائی ظالمانہ اور قبیح فعل ہے۔ پارٹی میں پروفیسر، صحافی، مصنف اور دوسرے دانشور بھی تھے۔ اکثریت کا خیال تھا کہ قرون اولیٰ کی اس یادگار کو بھی ختم کر دینا چاہئے۔ ہمارا مذہب، معاشرہ اتنی بہیمانہ سزا کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بعض کا خیال تھاکہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دینا چاہئے۔
”میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔“ میزبان بینکار نے بڑے پُرجوش طریقے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”اگرچہ مجھے سزائے موت یا عمر قید سے کبھی واسطہ نہیں پڑا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی مجھے ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں سزائے موت کو اپنے لیے پسند کر لوں گا۔یہ صرف ایک لمحے کی اذیت ہوگی جبکہ عمر قید کا ہر لمحہ پھانسی سے زیادہ اذیت ناک ہوگا۔ میں عمر قید کو سزائے موت کے مقابلے میں زیادہ غیر انسانی سمجھتا ہوں۔ آپ ہی بتائیے جناب کون سی بات زیادہ بُری ہے، اچانک جان سے مار دینا یا سسکا سسکا کر مارنا؟“
”دونوں ہی غیرانسانی ہیں۔“ ایک مہمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ”کیونکہ دونوں کا مقصد قیمتی انسانی جان کو ختم کرنا ہے۔ ریاست یا حکومت خدا نہیں ہوتی۔ اگر یہ کسی کو زندگی نہیں دے سکتی تو اسے زندگی واپس لینے کابھی حق نہیں دیا جاسکتا۔“
”آپ ماہر قانون ہیں۔ آپ کی حتمی رائے کیا ہے؟“ ایک شخص نے نوجوان وکیل کو اظہار خیال کی دعوت دی۔
”سزائے موت اور عمر قید، دونوں بڑی بھیانک اور غیر انسانی سزائیں ہیں ۔ لیکن اگر مجھے ان میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لئے کہا جائے تو میں معزز میزبان کے برعکس عمر قید کو اپنے لئے پسند کروں گا۔ اس طرح زندگی تو ختم نہ ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں بالکل نہ رہنے سے کسی نہ کسی حال میں زندہ رہنا بہتر ہے۔“
”ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔“
”یہ درست کہتے ہیں۔ میرا موقف بھی یہی ہے۔“
”بالکل غلط۔ سراسر غلط۔“
”ایسا زندہ رہنا موت سے بدتر ہوگا۔“
بیک وقت کئی آوازوں سے کمرہ گونج اٹھا۔ بحث میں اچانک حدت پیدا ہوگئی تھی۔
نوجوان میزبان جو اب تک بڑے تحمل سے باتیں کر رہا تھا۔ اچانک جوش میں آگیا اور ہوامیں مکے لہرا لہرا کر کہنے لگا۔
”یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ عمر بھر کی قید کاٹنا آسان نہیں، نوجوان وکیل، تم ایک مہینے کی قید نہیں کاٹ سکتے ۔ عمر بھر کی قید کیا کاٹو گے۔“
”میں نے کہا ہے اگر مجھے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں عمر قید کا انتخاب کروں گا۔“ نوجوان وکیل نے میز پر مکہ مارتے ہوئے کہا۔
”یہ جھوٹ ہے، قید کے پہلے سال ہی میں تمہاری پچکاری نکل جائے گی اور چلا چلا کر کہو گے، مجھے سزائے موت دے دو۔ مجھے عمر قید نہیں چاہئے۔“
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں ایک سال چھوڑ پندرہ سال تک یہ مطالبہ نہ کروں گا۔“
”یہ بات ہے تو آﺅ میں شرط لگاتا ہوں۔ بیس لاکھ ڈالر کی۔“
”بیس لاکھ ڈالر!“ نوجوان وکیل ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔ ”چلو منظور!“ پھر وہ چلایا۔
”منظور۔“
”سب لوگ گواہ رہنا۔“
”ہم سب گواہ ہیں۔“ سب بیک آواز بول پڑے۔ اور بینکار میزبان اور نوجوان وکیل نے آگے بڑھ کر ہاتھ پر ہاتھ مار کر شرط کو فائنل کر دیا۔
”میں اپنی زندگی کے پندرہ برسوں کی قید مسلسل قبول کرتا ہوں!“
”اور میں اس قید مسلسل کی کامیاب تکمیل پر آپ کو بیس لاکھ ڈالر انعام دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔“
اور یوں باتوں ہی باتوں میں بحث اچانک سنجیدہ شکل اختیار کر گئی اور یہ مضحکہ خیز بلکہ وحشیانہ معاہدہ طے پا گیا۔ کچھ دیربعد کھانے کی میز پر بینکار میزبان نے چیلنج قبول کرنے والے وکیل سے کہا۔
”میرے پاس بے اندازہ دولت ہے۔ اتنی کہ میں شمار بھی نہیں کرسکتا۔ بیس لاکھ ڈالر میرے بائیں ہاتھ کا میل ہیں۔ لیکن تم اچھی طرح سوچ لو۔ زندگی بھر کا پچھتاوا خرید رہے ہو۔ ایک دفعہ پھر چانس دیتا ہوں ہوش میں آ جاﺅ۔“
”میں اپنے الفاظ سے پھرنے والا نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھا تجربہ ہی سہی۔“ وکیل نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں کہا.
”میں کہتا ہوں تم اپنی زندگی کے تین چار قیمتی سال یونہی گنوا دو گے۔ تین چار سال اس لئے کہ رہا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ تم اس سے زیادہ مدت قید تنہائی میں زندہ نہ رہ سکو گے۔پاگل ہو جاﺅ گے یا قید خانے کی دیواروں سے سر ٹکرا کر جان دے دو گے۔“
”ایسا کبھی نہ ہوگا۔ اپنے چیلنج پر قائم رہو۔“
”میں اپنے چیلنج پر قائم ہوں مگر تم شاید زندگی سے تنگ آئے ہوئے ہو۔ اپنی خوبصورت اٹھتی جوانی پر رحم کرو، ترس کھاﺅ۔ یہ مت بھولو کہ اپنی مرضی سے قید کاٹنا جبراً قید سے بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ یہ خیال کہ جب تم چاہو شرط ہار کر جیل سے باہر آسکتے ہو تم پر زندگی کا ایک ایک لمحہ عذاب بنا دے گا۔ نوجوان دوست! مجھے تم پر ترس آ رہا ہے۔“
بوڑھا بینکار کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے گزرے ہوئے ایک ایک لمحے کی یادیں تازہ کر رہا تھا۔ پورے پندرہ برس۔ ایک مسلسل فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردے پر آتے چلے جا رہے تھے اور اب وہ سوچ رہا تھا، میں نے یہ احمقانہ بلکہ ظالمانہ چیلنج دیا ہی کیوں تھا۔ باتوں ہی باتوں میں اتنی جلدی کیوں سنجیدہ ہوگیا تھا۔ وکیل نے اپنی زندگی کے پندرہ سال داﺅ پر لگا دیئے تھے اور میں نے بیس لاکھ ڈالر جھونک دیئے تھے۔ لیکن کیا ہماری اس حرکت سے اس بات کا ہمیشہ کے لئے تصفیہ ہوسکتا تھا کہ سزائے موت بہتر ہے یا عمر قید؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں، یہ سب بکواس تھی، پاگل پن تھا ۔ کاش میں نے ہی عقل کے ناخن لیے ہوتے۔ میری طرف سے یہ بے پناہ دولت کی اندھی نمائش تھی اور نوجوان وکیل کی طرف سے دولت کی حرص کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
اب اس کی یادداشت میں پارٹی کے بعد واقعی ہونے والی باتیں تازہ ہو رہی تھیں۔ تب یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ وکیل اس کے باغ کے ایک کونے میں واقع اس کے مکان کے ایک کونے میں قید تنہائی میں پندرہ سال رہے گا۔ اس کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ یہ بھی طے پایا کہ اس عرصے میں وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ دوسرے لوگوں سے ملنے اور ان سے باتیں کرنے یا ان کی شکل دیکھنے کی بھی اجازت نہ ہوگی۔ وہ انسانی آوازیں بھی نہ سن سکے گا۔ البتہ اسے روزانہ اخبار اور مطلوبہ کتابیں مہیا کی جاتی رہیں گی۔ اسے موسیقی کا ایک آلہ مہیا کر دیا جائے گا۔ خط لکھنے اور وصول کرنے کا حق ہوگا۔ شراب اور سگریٹ بھی مہیا کیے جاتے رہیں گے۔ یہ بھی طے پایا کہ وہ بیرونی دنیا سے کمرے میں خاص طور پر بلندی پر بنائے جانے والے دریچے کے ذریعے خاموش رابطہ رکھ سکے گا۔ یعنی اپنی ضروریات کا اظہار رقعہ کے ذریعے کرے گا۔ اس دریچے سے اسے خوراک اور ضرورت کی دوسری چیزیں مہیا کی جائیں گی۔ معاہدہ تحریری اور قانونی طور پر طے پایا اور اس میں تمام تر تفصیلات قلم بند کر دی گئیں۔ یہ بھی لکھ دیا گیا کہ نوجوان وکیل چیلنج کی رو سے 14 نومبر 1870ءکو رات ٹھیک بارہ بجے اپنی قید تنہائی کا آغاز کرے گا اور پندرہ برس کے قید مکمل کرنے کے بعد 14 نومبر 1885 ءکو رات ٹھیک بارہ بج کر ایک منٹ پر اس کو کوٹھڑی کا دروازہ کھول کر اسے رہا کر دیا جائے گا اور چیلنج کی کامیاب تکمیل پر اسے بیس لاکھ ڈالر نقد ادا کر دیے جائیں گے لیکن اگر وہ طے شدہ وقت سے دو منٹ بھی پہلے باہر نکلتا ہے یا کسی اور قسم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ بیس لاکھ ڈالر کا قطعاً مستحق نہ ہوگا اور شرط ہار جائے گا۔“
دریچے کے راستے باہر بھیجی جانے والی چھوٹی چھوٹی پرچیوں سے یہ اندازہ ہوا کہ قید کے پہلے سال وکیل تنہائی اور بوریت سے ازحد پریشان رہا۔ اس کے بند کمرے میں دن رات پیانو بجانے کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ اس نے شراب اور تمباکو اور سگریٹ وغیرہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شراب کے بارے میں اس نے لکھا۔ ”یہ خواہشات کو بھڑکاتی ہے اور خواہشات ایک قیدی کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہیں۔“ اس نے یہ بھی لکھا۔ ”اکیلے بیٹھ کر مے نوشی کرنے سے زیادہ بور کرنے والی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔“ اور تمباکو کے بارے میں اس کی رائے یہ تھی کہ ”یہ کمرے کی بند فضا کو مزید مکدر کر دیتا ہے۔“ قید کے پہلے سال وکیل کو اس کے مطالبے پر ہلکی پھلکی کہانیوں کی کتابیں اور ناول مہیا کئے گئے۔ اس نے محبت اور جرائم، کامیڈی اور تصوراتی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔
دوسرے برس کے دوران پیانو بجنا بند ہوچکا ہے۔ اسے اب اس ساز سے بھی چڑ ہوگئی تھی۔ اب اس نے زیادہ تر کلاسیکی کتابوں کی فرمائش کی۔ پانچویں برس میں اس کے کمرے سے موسیقی کی آوازیں پھر ابھرنا شروع ہوگئیں اور قیدی نے شراب کی فرمائش بھی شروع کر دی۔ چھپ چھپ کرا س کی جھلک دیکھنے والوں نے بتایا کہ یہ سارا سال وہ کھاتا پیتا اور سوتا رہا۔ وہ اکثر بڑبڑانے لگتا اور اپنے آپ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتا۔ اس سال کے دوران اس نے کتابیں بالکل نہ پڑھیں۔ اس سے پہلے کے چار برسوں میں اس کی فرمائش پر تقریباًچھ سو کتابیں خرید کر اسے مہیا کی گئیں تھیں۔ اس کے بے پناہ مطالعے کا نتیجہ تھا کہ ایک روز بینکار کو اس کی طرف سے ایک رقعہ ملا جس پر لکھا تھا۔
”ڈیئر! میں تمہیں یہ خط چھ زبانوں میں لکھ رہا ہوں اسے ان زبانوں کے ماہرین کو دکھاﺅ اور پڑھاﺅ اگر انہیں میرے جملوں میں زبان و بیان کی کوئی غلطی نظر آئے تو میری تم سے درخواست ہے کہ میرے کمرے کے قریب باغ میں کسی جگہ بندوق کا ایک فائر کر دینا۔ اس آواز سے مجھے پتہ چل جائے گا کہ میں نے یہ زبانیں سیکھنے کے لئے جو ریاضت کی وہ ضائع نہیں گئی۔ یہی وہ مختلف عالمی زبانیں ہیں جنہیں مختلف قوموں کے لوگ بولتے ہیں اور جن میں وہ تمام ادوار کے انسانوں کی ذہانت کے انمول خزانے سمٹ گئے ہیں۔ تم میری خوشیوں کا اندازہ نہیں کرسکو گے جو مجھے ان زبانوں پر عبور حاصل کرکے ہوئی ہے۔“
مختلف لسانی ماہرین کو اس کا خط پڑھا دینے کے بعد باغ میں بندوق داغ دی گئی۔ آگے چل کر قید تنہائی کے دسویں سال میں عموماً وکیل کو اپنے مطالعہ کی میز پر ایک ہی کتاب کے آگے سر جھکائے دیکھا گیا۔ یہودی حیران تھا کہ وہ شخص جس نے پہلے چار برسوں میں چھ سو ضخیم اور مشکل ترین کتابیں پڑھ ڈالی ہوں پورا سال صرف ایک کتاب ہی کو پڑھتا رہا۔ یہ سال ختم ہونے پر اس نے اس کی جگہ عالمی مذاہب اور عقائد کے بارے میں ایک نئی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا۔

Facebook Comments