ڈپریشن کا علاج شکر گزاری/انور مختار

جوں جوں انسان مادی ترقی کے مدارج و منازل طے کر رہا ہے، اسی رفتار سے اس کی ذہنی و نفسیاتی کشمکش اور اس کا روحانی اضطراب بھی مسلسل بڑھ رہا ہے، اور اس میں مزید اضافے کا رجحان ہے۔ نفسیاتی امراض کے حوالے سے ہونے والے سروے، مختلف تحقیقی رپورٹیں اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے نتائج متواتر اس امر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ مادیت کی دوڑ میں جو جس قدر آگے ہے (الا ماشاءاللہ) وہ اسی قدر روحانی و نفسیاتی اعتبار سے بے اطمینانی و بے سکونی، روحانی صدمے، بے چارگی، اور اتنی ہی زیادہ تنہائی کی کیفیات سے دوچار ہے اور یہ ہی وجہ ہےکہ زہنی تناؤ اور نفسیاتی دباؤ جدید دور کے سب سے عام بیماریوں میں سے ایک ہے جیسا کہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی کا تقریبا چھ فیصد ذہنی عوارض کا شکار ہیں اور اسی فیصد بیماریوں کا آغاز ذہنی تناؤ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات نے اس بیماری سے مقابلہ کرنے کے لئے کئی راہوں کی نشاندہی کی ہیں اور اسلام بھی کئی صدیوں میں کامیاب ہوا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں کے مختلف نسلوں کے لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ اور جذب کرے اور ان کی طرز زندگی کو تبدیل کرتے ہوئے ان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے لئے اچھے قوانین وضع کرئے۔ بے شک دین مبین اسلام نے ان راستوں کی معرفی کی ہے کہ اگر ہم اسے کسی نفسیات شناسی کی تنظیم کا نام نہ بھی دیں تب بھی قرآن نام کا ایک نفسیات شناس ڈیوائس اس کے پاس موجود ہے، اسی لئے اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرنا سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے اور یہ خود اپنی جگہ قرآن کریم کی عالمگیر عظمت، اعجاز ، اور قرآن مجید کے ساتھ زیادہ مانوس ہونے اور اس میں دلچسپی بڑھنے کا سبب بنیں اہل بصیرت اور اصحابِ علم و فضل کے نزدیک نفسیاتی الجھن اور ذہنی کشمکش کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ سے، اپنے خالق و مالک اور معبودِ حقیقی سے علمی و عملی طور پر مکمل و مستقل جدائی و انحراف کے بعد یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان سے اس کا مقصدِ حیات چھین کر اس مشینی زندگی میں خود اسے بھی ایک مشین کا درجہ دے دیا ہے انسان بنیادی طور پر جسم اور نفس یا روح کا مرکب ھے روحانی نفسیات روحانیت اور سائنس کی ایک آمیزش ہے۔ یہ روایتی نفسیات کے عناصر اور روحانیت کے استعمال سے افراد کو بہتر بننے اور زندگیوں سے مطمئن ہونے میں معاون ہے اس موضوع پر جاوید چوہدری روزنامہ ایکسپریس میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ چند دن قبل چلتے چلتے ایک آیت میرے کانوں سے ٹکرائی اور میں سکتے میں چلا گیا‘ یہ سورۃ الاعراف کی آیت204 تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’جب قرآن پڑھا جائے تواسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ اس آیت میں کوئی ایسی کشش تھی جس نے مجھے بے بس کر دیا اور میں کئی دن غور سے سنو‘ خاموش ہو جاؤ اور رحم کیا جائے کے کمبی نیشن پر غور کرتا رہا‘ یہ کام یابی کی شان دار تکون ہے‘ انسان بے شک جب تک کوئی چیز خاموشی سے‘ غور سے نہیں سنتا تو وہ بات اس وقت تک اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور وہ بات یا وہ چیز جب تک سمجھ نہیں آتی انسان پر اس وقت تک اﷲ کا رحم نہیں ہوتا‘ میں نے اس کے بعد عادت بنا لی‘ میں روزانہ صبح اٹھنے کے بعد دس پندرہ منٹ قرآن مجید اور اس کا ترجمہ سنتا ہوں اور اس کے بعد اﷲ کا رحم اور کرم مانگتا ہوں اور اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں۔ قرآن مجید اﷲ تعالیٰ کا انسان پر بے انتہا کرم ہے لیکن آپ یقین کریں سورۃ رحمن دنیا کی سب سے بڑی اینٹی ٹینشن‘ اینٹی ڈپریشن اور اینٹی اینگزائٹی میڈیسن ہے‘ میرا دعویٰ ہے آپ اینگزائٹی‘ ڈپریشن اور ٹینشن کے خواہ کتنے ہی بڑے مریض کیوں نہ ہوں آپ بس کسی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کریں اور سورۃ رحمن کی تلاوت اور ترجمہ سنیں‘ آپ ان شاء اﷲ چند دنوں میں ڈاکٹرز اور ادویات کی محتاجی سے نکل آئیں گے‘ بھارت میں میرا ایک سکھ دوست ہے‘ یہ پچھلے دنوں کاروباری مسائل کی وجہ سے بہت پریشان تھا‘ اسے دو دو دن نیند نہیں آتی تھی‘ اس نے مجھ سے مشورہ کیا اور میں نے اسے سورۃ رحمن کا لنک بھجوا دیا‘ اس نے میرا دل رکھنے کے لیے تلاوت سننا شروع کر دی. چوتھے دن اس کا فون آیا اور وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہا تھا‘ اس کا کہنا تھا جاوید جی میری ساری پریشانیاں ختم ہو چکی ہیں‘ میں سارا سارا دن اپنے رب کی بلیسنگز (Blessings) گنتا رہتا ہوں‘ صبح سے شام ہو جاتی ہے مگر اﷲ کی بلیسنگز کی فہرست مکمل نہیں ہوتی‘ اس کا کہنا تھا میں نے کل رب کی نعمتوں اور اپنے مسائل کی فہرست بنائی تو آپ یقین کرو رب کی مہربانیاں پہاڑ اور میرے مسائل چٹکی برابر تھے اور یہ مسائل بھی میرے اپنے پیدا کیے ہوئے تھے‘ قدرت کاان میں کوئی قصور نہیں تھا‘ میں نے سکھ دوست سے کہا ’’تم بس اسی طرح اپنے اور ہمارے مولویوں سے بچ بچا کر قرآن سنتے رہا کرو‘ تمہیں کسی ڈاکٹر اور کسی دوا کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور یہ اب روز صبح آدھ گھنٹہ تلاوت اور ترجمہ سنتا ہے اور پھر گردوار ے میں جا کر میرے لیے دعا کرتا ہے۔ میں ایک غیر مذہبی‘ لبرل اور پریکٹیکل انسان ہوں‘ میں جھاڑ پھونک اور وظیفوں کا قائل نہیں ہوں‘ میں نے قرآن مجید بھی صرف ترجمے کی شکل میں پڑھا ہے‘ مذہب کا علم بھی احادیث کی چند کتابوں‘ تاریخ اور سیاحت تک محدود ہے لہٰذا میں عقیدت کا قائل نہیں ہوں مگر آپ یقین کریں سورۃ رحمن کے اثرات نے مجھے حیران کر دیا‘ میں روز جب بھی ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ سنتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور میں اپنے اللہ کی نعمتیں گنتا جاتا اور روتا جاتا ہوں اور آخر میں نئے جذبے اور نئے ولولے کے ساتھ اٹھ بیٹھتا ہوں‘ آپ بھی کسی دن ذرا اﷲ کی نعمتیں گنیں‘آپ کے حالات بھی بدل جائیں گے۔ دنیا کے 75 فیصدمرنے والے لوگوں کو صبح نصیب نہیں ہوتی‘ یہ رات بسترپر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں جب کہ ہم آج بھی اپنے بستر سے اٹھ رہے ہیں‘ کیا یہ اﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا میں 24 کروڑ لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار ہیں‘ ان کے پھیپھڑے کام نہیں کرتے‘ یہ اﷲ کی بخشی آکسیجن سے لطف نہیں لے سکتے جب کہ ہمارے پھیپھڑے دن رات دونوں اوقات میں آکسیجن کھینچتے بھی ہیں اور باہر بھی پھینکتے ہیں‘ کیا یہ اﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا کے 27 فیصد لوگوں کے پاس چھت اور بستر نہیں جب کہ آدھی دنیا کرائے کے گھروں‘ جھونپڑ پٹیوں‘ ٹینٹوں‘ فٹ پاتھوں‘ پلوں‘ قبرستانوں اور غاروں میں رہتی ہے جب کہ ہم اپنے بستر اور اپنی چھت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارے پاس تکیے‘ گدے اور چادریں بھی ہیں اور ہمارے فرش پر قالین بھی بچھے ہیں‘ کیا یہ اس کا رحم نہیں؟ دنیا کی 60 فیصد آبادی کے پاس اپنا ٹوائلٹ‘ اپنا باتھ روم اور صاف پانی کا اپنا ذخیرہ نہیں جب کہ ہم روزانہ ٹونٹی کھول کر گیلنوں کے حساب سے میٹھا اور صاف پانی ضایع کرتے ہیں اور ہمیں اس پر ملال بھی نہیں ہوتا‘ کیا یہ بھی اﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا کی 65 فیصد آبادی تین وقت کھانا افورڈ نہیں کر سکتی‘ لوگ 24 گھنٹے میں ایک وقت کھانا کھاتے ہیں اور انھیں اپنے اگلے کھانے کا یقین نہیں ہوتا جب کہ ہم ’’فوڈ پانڈا‘‘پر اپنی مرضی کے تین چار کھانے آرڈر کرتے ہیں‘ تھوڑا تھوڑا چکھتے ہیں اور باقی کتے بلیوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں‘ کیا یہ اﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا کی 65 فیصد آبادی کے پاس اپنی سواری نہیں‘ لوگ سارا سارا دن بس‘ وین‘ موٹر سائیکل اور گدھے گھوڑے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جب کہ ہمارے پاس اپنی سواری بھی ہے اور ہم اس میں پٹرول بھی ڈلوا لیتے ہیں‘ کیا یہ اﷲ کا رحم نہیں؟ دنیا کے 42 فیصد بچے تعلیم اور علاج سے محروم ہیں‘ لوگ اپنے ٹوٹے ہوئے بازو ہاتھ میں اٹھا کر ڈاکٹر تلاش کرتے رہتے ہیں‘ مائیں فٹ پاتھوں اور رکشوں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں ‘ خود بھی مر جاتی ہیں اور ان کے بچے بھی‘ لوگ ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہیں اور آٹھ ہزار روپے کا ٹیکا نہیں خرید سکتے‘ پاکستان میں 8 فیصد لوگ بلڈ پریشر کے مریض ہیں‘ شوگر‘ دل کے امراض‘ کینسر‘ گردوں کے ڈائیلائسز اور جوڑوں کے درد نے کروڑوں لوگوں کی زندگی عذاب کر رکھی ہے‘ دنیا کی ایک ارب آبادی سن نہیں سکتی اگر سن لے تو دیکھ نہیں سکتی‘ دیکھ لے تو بول نہیں سکتی‘ دیکھ‘ سن اور بول لے تو ہاتھوں اور ٹانگوں کا رعشہ کنٹرول نہیں کر سکتی اور اگر یہ سب کچھ بھی کر لے تو یہ ریڑھ کی ہڈی‘ مہروں میں درد‘ جوڑوں میں اکڑاؤ‘ معدے کی تکلیف یا پھر پیشاب میں تعطل کے عارضے میں مبتلا ہے جب کہ ہم کم و بیش ان تمام تکلیفوں سے بچے ہوئے ہیں اور ہم اگر ان میں مبتلا بھی ہیں تو بھی ہم علاج افورڈ کر سکتے ہیں۔ دنیا میں اربوں لوگ اپنی تعلیم پوری نہیں کر پاتے‘ یہ اسکول نہیں جا سکتے یا پھر یہ مالی حالات کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ دنیا میں اربوں لوگ خالی جیب پھرتے ہیں‘ ان کے پاس بینک بیلنس‘ سیونگز اور پلاٹس نہیں ہیں اور یہ مستقل روزگار سے بھی محروم ہیں‘یہ روزی کے لیے روز نکلتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں جب کہ ہم چیک سائن کر سکتے ہیں یا اے ٹی ایم سے رقم نکال لیتے ہیں اور کیا یہ اﷲ کا رحم نہیں اور کیا ہم نے کبھی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کیا؟۔ہم انسان بہت تھوڑ دِلے‘ بہت ہی چول ہیں‘ ہمیں اپنی انگلی کی چھوٹی سی چوٹ فوراً نظر آ جاتی ہے لیکن ہم ہاتھ‘ بازو اور پورے جسم کی نعمت بھول جاتے ہیں‘ ہم اﷲ کے اس رحم کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں جس کے ذریعے ہماری چوٹ کو شفاء اور درد سے چھٹکارا ملتا ہے‘ہمیں ہماری عینک تکلیف دیتی ہے لیکن ہمیں آنکھوں کا نور نظر نہیں آتا‘ ہمیں دیوار کی سیم اور ہاتھوں کے نشان ڈسٹرب کر دیتے ہیں لیکن ہم دیوار‘ فرش اور چھت کی نعمت بھی بھول جاتے ہیں اور ہمیں دیوار کے پیچھے کوکتی کوئل‘ چہچہاتی چڑیا اور اڑتے کبوتر نظر نہیں آتے‘ ہم اپنی کوتاہ فہمی کے پردے میں چھپ کر آسمان کے نیلے پن‘ بہتے پانی کے سرگم‘ کھلتے پھولوں کے رنگ اور سبز گھاس کے شیڈز کو بھول جاتے ہیں‘ ہم روز مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ ہم روز سیاسی افراتفری کا ماتم کرتے ہیں اور ہم روز زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے پر غم زدہ ہوتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے مہنگائی کے باوجود ہمیں قوت خرید دے رکھی ہے‘ ہم زیادہ نہیں کم ہی سہی مگر ہم خرید سکتے ہیں‘ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں ہم اول نہیں آئے مگر ہم فیل بھی نہیں ہوئے‘ ملک میں سیاسی افراتفری ہے لیکن ہم اس کے باوجود ایک ملک کے شہری ہیں اور ہمارے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی ہے جب کہ دنیا میں اس وقت بھی 12 کروڑ لوگ مہاجر ہیں اور ان کے پاس کسی ملک کی شہریت اور شناخت نہیں‘ بے شک ہماری عدالتیں لڑ رہی ہیں۔پارلیمنٹ ربڑ
اسٹیمپ ہے اور ملک میں کوئی مستحکم معاشی پالیسی نہیں لیکن اس کے باوجود انڈسٹری بھی چل رہی ہے‘ بجلی اور گیس بھی موجود ہے اور ہماری ایک پارلیمنٹ‘ ایک حکومت اور ایک سپریم کورٹ بھی ہے جب کہ دنیا کے کروڑوں لوگ آج 2023میں بھی ان نعمتوں سے محروم ہیں لہٰذا کیا یہ بھی اﷲکا خصوصی کرم نہیں؟ آپ یقین کریں ہم اﷲ کے پسندیدہ ترین اور رحم یافتہ ترین لوگ ہیں‘ اﷲاگر ہمیں 2023 کے بجائے 1923میں پیدا کر دیتا تو ہم آج کی 76 فیصد نعمتوں سے محروم ہوتے‘ ہمارے پاس اسمارٹ فون سے لے کر انسولین تک 26 ہزار نعمتیں نہ ہوتیں‘ہم آج کے زمانے میں موجود ہیں۔ یہ اﷲ کا ہم پر خصوصی کرم ہے لیکن ہم اس کے باوجود اداس‘ پریشان اور ڈپریس ہیں‘ کیوں؟کیوں کہ ہم ناشکرے ہیں اور اﷲ تعالی ناشکروں سے اپنی سب سے بڑی نعمت سکون چھین لیتا ہے لہٰذا میری درخواست ہے آپ روز سورۃ رحمن سنا کریں‘ اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کی فہرست بنایا کریں اور شکر ادا کیا کریں‘ اﷲ تعالیٰ جواب میں آپ کو اطمینان کی نعمت واپس کر دے گا‘ آپ ڈپریشن سے نکل آئیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply