غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔7)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھُلا
جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔

طالبعلم ایک
ـ’’یک قدم وحشتـ ‘‘؟ فقط اک ہی قدم کیا، اور بس؟
سر حد ِ قائم مزاجی سے پر ے بس اک قدم؟
اک قدم ہی بر دباری کے مکاں سے انخلا ؟

طالبعلم دو
ہاں، یہی لگتا تو ہے شاعر کا مطلب اس جگہ

طالبعلم ایک
کیا ہے آخر اہمیت ـ’’امکاں‘‘ کی غالب کے تئیں؟
اور کیا ہے ـ’’یک قدمـ‘‘ یا ’’ایک نقشِ پا‘‘ کا راز؟ ؎۱
’’دشت ِ امکاں‘‘ میں ملا غالب کو بس اک نقش ِ پا ؎۲
اور سرگرداں رہے پھر دوسرے کی کھوج میں

طالبعلم دو
اے رفیق ِ کار، ’’درس ِ دفتر ِ امکاں‘‘ ہے کیا؟
جس کی خاطر ـ’’یک قدم وحشتـ ‘‘ ضروری ہیے یہاں؟

طالبعلم ایک
محترم استاد، فرمائیں تو کچھ اس ضمن میں
تشنہ ٗ تکمیل ہے اپنا تو باب ِ ِ عینیت

استاد ستیہ پال آ ٓنند
کیا توافق ہے،؟ رسائی کس قدر انساں کی ہے؟
دسترس میں ، خیر ِ امکاں میں بھلا کیا ہے حصول ؟
حضرت ِ غالب رہے ہیں عمر بھراس کھوج میں
یہ تجسس ، اسد اللہ خاں کا ہے اصلی جنوں

طالبعلم ایک
جی، حضور، اتناسمجھنا تو کوئی مشکل نہیں
پر ہمیشہ ـ’’اک قدم‘‘(پہلا قدم)ہی کیوں ، جناب؟

استاد ستیہ پال آ ٓنند
یہ قدم ہی ’’وقت‘‘ سے ’’لا وقت‘‘ تک لے جائے گا
یہ قدم سمت القدم ہے ـ’’لا مکاں‘‘ـ کی راہ پر
یک قدم وحشت ‘‘ ہے اس کا کل بیانِ این وآں

طالبعلمایک
کیا ہے ’’وحشت‘‘ سے مراد اس ضمن میں، سمجھائیں تو
مضطرب،آشفتہ ۔۔۔ یا مدہوش ہونے کا خیال؟

طالبعلم ایک
ہاں، یہی لگتا تو ہے شاعر کا مطلب اس جگہ

استاد ستیہ پال آ ٓنند
جی نہیں، شاعر کا مطلب یہ نہیں، کچھ اور ہے

طالبعلم ایک
کیا ہے پھر شاعر کا مطلب، محترم استاد ِ من؟

استاد ستیہ پال ا ٓنند
اس جگہ’’وحشی‘‘ کا مطلب’’اوچھا‘‘، ’’بد تہذیب‘‘ہونا؟
جی نہیں! بالکل نہیں ہے ۔ کیا ہے ، یہ دیکھیں ذرا

طالبعلم دو
میں کہوں کچھ؟ گر اجازت ہو تومیں بولوں، حضور

استاد ستیہ پال آ نند
ہاں ، کہو، ’’وحشت‘‘ کی کیا تفسیر ہےاس شعر میں؟

طالبعلم دو
والہانہ کیفیت، دیوانگی، مجنون ہونا
خود فراموشی میں ’’خود‘‘ کو بھول جانا کلیتاً
سر پھرا، شوریدہ سر ہونے کی حالت ، سر بسر
عین ایسا نہ بھی ہو شاعر کا مطلب ، مغز یہ ہے

طالبعلم ایک
اب ذرا آگے بڑھیں، دیکھیں کہ کیا کچھ اور ہے
’’یک قدم‘‘ کے بعد؟ ’’درس ِ دفتر امکاں کھلا‘‘
پھر کلید ِ کل وہی!۔۔۔ ’’امکاں‘‘ کہ جس کی کھوج تھی
گویا اس نے آگے بڑھ کر۔۔۔۔۔

طالبعلم دو
بات کاٹ کر۔۔۔دفتر امکاں میں مخفی

طالبعلم ایک
(بات کاٹ کر) ۔۔۔درس ِ اول لے لیا ہے

استاد ستیہ پال آنند
واہ ، نوٹنکی کا نظارہ ہے ، بچو، شکریہ
اور کیا کچھ پوچھنا ہے ، بولتے جاؤ ، عزیزو

طالبعلم ایک
درس؟ ر شد و رہنمائی؟ ناظرہ؟ آموختہ؟
درس؟ تشریح و خطاب و پند؟ یا کچھ اور بھی؟
کس طرح کا درس تھا وہ؟ آؤ، سمجھیں
دفتر ِ امکاں سے جو کچھ بھی ملا، کیا شے تھی وہ؟
آپ، استاذی، بتائیں، کیا سبق آخر تھا وہ؟

استاد ستیہ پال آنند
سیدھا ، سادہ، اک سبق تھاتم بھی سن لواب ، میاں
خود کو پہچانو، کہ کیا کچھ اہلیت رکھتے ہو تم
د ر خور ِ امکاں صلاحیت ہے کیا تم میں، میاں؟
یہ سبق تھا ، ۔’’پہلے خود کو، اور پھر دنیا سمجھ

طالبعلم ایک
’’جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا‘‘
دشت کا شیرازہ کیا تھا؟ جادہ اجزائے دو عالم
وہ جو اک رستہ تھا، یعنی اِس جہاں اور اُس جہاں کے
فاصلے کو جستہ جستہ پار کرنے کا ذ ریعہ

طالبعلم دو
بات کاٹتے ہوئے۔۔ دو جہانوں کو ملانے کی کڑی تھا
دو جہانوں، عالم ِ ناسوت اور لاہوت یعنی

طالبعلم ایک
(بات کاٹتے ہوئے۔۔۔ یک قدم، یعنی وہ پہلا اک قدم مشکل ہے
اس کے بعد تو رستہ کھلا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎ا ہے کہاں تما کا دوسرا قدم یا رب

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش ِ پا پایا

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا