• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد کیا دوسرے ممالک سے امریکی افواج کی گھر واپسی ہو سکے گی یا نہیں؟۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد کیا دوسرے ممالک سے امریکی افواج کی گھر واپسی ہو سکے گی یا نہیں؟۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

امریکہ میں9/11 کی دہشت گردی کے بعد 19 سال ہو چکے مگر امریکی افواج ابھی تک دوسرے ممالک میں ڈیرے لگائے بیٹھی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2016ء کے الیکشن جیتنے کے لئے چلائی جانے والی اپنی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان اور عراق سمیت دنیا بھر میں موجود امریکی افواج کو واپس بلوا لیں گے۔ اس وعدے کی بنیاد پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو کافی ووٹ ملے تھے اور وہ امریکی افواج کی ہیروئن ہیلری کلنٹن کو غیر متوقع طور پر شکست دے کر وائیٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ اپنے 4 سالہ دور صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ کچھ مسائل کی وجہ سے افغانستان اور عراق سے اپنی افواج نہیں نکال سکے۔ حالانکہ ٹرمپ نے سنہ 2020ء کی اپنی انتخابی مہم کے دوران افغانستان میں جنگ کا خاتمے کا وعدہ کیا تھا اور اکتوبر میں ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ کرسمس یعنی 25 دسمبر تک امریکی فوجیں افغانستان سے باہر نکل سکتی ہیں۔

ٹرمپ الیکشن میں شکست فاش کے بعد دنیا بھر میں لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا نو منتخب امریکی صدرجو بائیڈن 20 جنوری سنہ 2021ء میں ذمہ داری صدارت سنبھالنے کے بعد دوسرے ممالک سے امریکی افواج واپس بلوا لیں گے یا نہیں؟۔ ٹرمپ نے حال ہی میں مارک ایسپر کی جگہ کرسٹوفر ملر کو قائم مقام وزیر دفاع نامزد کیا تھا جس نے زمہ داری سنبھالتے ہی اشارہ دیا ہے کہ وہ افغانستان اور مشرق وسطیٰ سے امریکی افواج کی واپسی کے عمل میں تیزی لاسکتے ہیں۔

وزارت دفاع کی ویب سائٹ پر امریکی مسلح افواج کے نام اپنے پہلے پیغام میں کرسٹوفر ملر کا کہنا تھا کہ ‘تمام جنگوں کو اختتام پر آنا چاہیے۔ دوسرے ممالک میں فوجیں بھجوانے اور انہیں واپس بلوانے جیسے اہم ترین فیصلے چونکہ امریکی صدر اکیلا نہیں کرتا بلکہ اس میں صدر کے علاوہ قومی سلامتی کے ادارے اور پینٹاگون بھی شامل ہوتے ہیں لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ کرسٹوفر ملر کے اس بیان کے پیچھے صرف ٹرمپ کا وعدہ ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے اداروں اور پینٹاگون کی پالیسی میں تبدیلی بھی شامل ہے۔

دوسری طرف امریکی پالیسی ساز اداروں میں یہ احساس بھی موجود ہے کہ جب و افغانستان اور مڈل ایسٹ سے اپنی افواج واپس نکالیں تو اسے ان جنگی میدانوں میں امریکی شکست سے مامور نہ کیا جائے بلکہ ان تمام ممالک سے امریکی افواج کی واپسی ایک باعزت معاہدہ کے ذریعہ ہی ممکن ہونی چاہئے۔ اسی لئے کرسٹوفر ملر کو یہ بیان بھی دینا پڑا کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کے 19 برس بعد بھی امریکہ القاعدہ کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہے۔ کرسٹوفر ملر نے کہا کہ “ہم القاعدہ اور اس کے حمایتیوں کو شکست دینے کے قریب ہیں لیکن ہمیں ماضی کی سٹریٹجک غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہئے جس کی وجہ سے ہم جنگ کو اختتام تک پہنچانے میں ناکام ہوں”۔ امریکی پالیسی سازی میں یہ تبدیلی اس وجہ سے بھی آئی ہے کہ امریکی عوام میں جنگی جنون کے خلاف رائے عامہ بڑھتی جا رہی ہے نیز سالہا سال سے دوسرے ممالک میں موجود امریکی افواج میں شدید بےچینی اور فیملی، دوستوں اور اپنے گھر سے دوری نے شدید اضطراب اور بے چینی پیدا کر دی ہے۔ اسی لئے کرسٹوفر ملر نے کہا کہ “بہت سے لوگ جنگ سے تنگ ہیں، میں ان میں سے ایک ہوں، لیکن یہ ایک اہم مرحلہ ہے جس میں ہم اپنے کردار کوایسی جنگوں کی قیادت کرنے سے منتقل کر کے اپنے حلیف ممالک کے مددگار کا کردار اپنا لیں گے”۔

امریکی قیادت کا یہ کہنا درست ہے کہ جنگوں کو ختم کرنے کے لئے سمجھوتے اور شراکت داری کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ پچھلے کئی سالوں سے افغانستان، شام اور عراق سے اپنی تمام افواج نکالنے کے لئے معاہدے کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ امریکی افواج کو دنیا بھر میں اس وقت سخت مزاحمت افغانستان اور عراق میں مل رہی ہے۔ یہاں امریکی افواج پر ہونے والے حملے اتنے زیادہ اور جانی نقصانات سے بھرپور ہیں کہ امریکی فوجی اہلکار ان ممالک میں اپنی تعنیاتی کو ٹالنے کے لئے نوکری چھوڑنے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان ممالک سے امریکہ مخالف گروپوں کے حملوں میں زخمی ہونے والوں اور مارے جانے والوں کی لاشیں جب امریکہ واپس پہنچتی ہیں تو جنگ کےمخالف امریکی وہاں اپنی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہیں۔ ان مظاہروں اور احتجاجوں سے پیدا ہونے والے عوامی دباؤ کی شدت کہا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جنونی اور انتہا پسند امریکی صدر ٹرمپ بھی اقتدار میں آنے کے وقت سے افغانستان اور عراق سے امریکی افواج واپس بلانے پر زور دیتا رہا ہے۔

اپنا 4 سالہ دور صدارت پورا کرنے اور امریکی افواج واپس گھر بلوانے کا فیصلہ کرنے کے لئے ٹرمپ کے پاس صرف 65/66 دن ہی باقی بچے ہیں کیونکہ پھر 20 جنوری کو نو منتخب صدر جو بائیڈن باقاعدہ طور پر صدرارت سنبھال لیں گے۔بائیڈن کے لئے افغانستان سے طالبان جنگجوؤں نے پیغام نشر کر بھی دیا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ دوحہ۔ قطر میں طالبان ۔ امریکی مذاکرات کے نتیجہ میں ہونے والے فروری 2020ء معاہدہ کے مطابق افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کے انخلا پر عمل پیرا رہے۔اس معاہدہ کے مطابق کچھ سکیورٹی ضمانتوں کے تحت امریکی فوجوں کا یہ انخلا مئی 2021ھ تک مکمل ہو جائے گا جبکہ ان دنوں طالبان دوحہ ۔ قطر میں افغان حکومت کے ساتھ ملک کے سیاسی مستقبل اور امن کے قیام کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں۔طالبان کا کہنا ہے کہ وہ نو منتخب امریکی صدر اور مستقبل کی انتظامیہ پر زور دینا چاہتے ہیں کہ معاہدے پر عمل درآمد دونوں ممالک کے مابین تنازعے کے خاتمے کا سب سے مناسب اور موثر ذریعہ ہے۔

واضح رہے کہ امریکی افواج کی باعزت اور بحفاظت واپسی کے عمل کے دوران کچھ تعطل بھی پیدا ہو چکا ہے اور قطر کے دارالحکومت میں ہونے والی بات چیت بھی تاخیر کا شکار ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ افغانستان کے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ جمانے کے لئے طالبان کے حملے کے ساتھ پورے ملک میں تشدد کا رجحان بڑھنے اور کچھ معاملات میں امریکہ کے فضائی حملوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان کے ان حملوں میں شدت اس وجہ سے بھی آ چکی ہے کہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ نے طالبان کے ساتھ مل کر زیادہ بڑے دہشت گرد خارجی گروہ داعش افغانستان پر حملوں میں تیزی اور شدت پیدا کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے حلقے بھی یہ بیان دے رہے ہیں کہ القاعدہ گروپ آج کل طالبان کے ساتھ بہت زیادہ سرایت کر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ داعش میں افرادی قوت زیادہ تر ان افراد پر مشتمل ہے جو کبھی القاعدہ کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ داعش کے زیادہ شدت پسندانہ نظریات کی کشش سے متاثر ہو کر القاعدہ چھوڑنے والوں کارکنان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صرف القاعدہ ہی نہیں بلکہ اس فہرست میں طالبان کے کارکنان بھی شامل ہیں جو طالبان کی بجائے داعش کو آئیڈیلائز کر رہے ہیں۔ اسی لئے القاعدہ اور طالبان کو اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے داعش افغانستان کے خلاف کھڑا ہونا لازمی ہے ورنہ اس کے کارکنان داعش افغانستان میں ضم ہوتے رہیں گے۔

طالبان کی القاعدہ کے ساتھ مل کر داعش کے ساتھ لڑائی سے افغانستان میں موجود 5 ہزار امریکی افواج بالکل لا تعلق نظر آتی ہیں۔ اس حوالہ سے صدر ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ داعش اور دوسرے دہشت گردوں سے لڑنا طالبان کا کام ہے۔ ہم قیامت تک افغانوں کی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ عراق میں بھی صورتحال سخت غیر یقینی ہے۔ ایرانی افواج کے الفدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی مزاحمتی تحریک حشد الشعبی کے سربراہ مہدی المہندس کی امریکی ڈرون حملہ میں ہلاکت کے بعد امریکی افواج پر حملے بڑھ چکے ہیں۔ ان پے درپے حملوں کی وجہ سے عراق میں تعینات امریکی سپاہی شدید خوف اور دباؤ میں ہیں، جس کی بنا پر بہت سے فوجی ایک مخصوص دماغی عارغے میں مبتلا ہوئے ہیں جسے PTSD کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے حالات کی وجہ سے باقی دنیا کے علاوہ خود امریکہ میں بھی اس غیر نتیجہ طویل المدتی 19 سالہ جنگ سے دباؤ بڑھ رہا ہے لہذا یہ تو طے ہے کہ امریکی افواج کو بالآخر افغانستان اور مشرق وسطی سے نکلنا پڑے گا۔ جنگ ختم کرنے کے عوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ افغانستان اور عراق میں سرایت کی ہوئی کرپشن، سفارش اور اقرباپروری میں لتھڑی حکومتوں کے رویہ سے بھی شدید مایوس ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام اور حکومت کی اعانت پر واشنگٹن ہر سال 70 ارب ڈالر اور عراق میں ہر سال 27 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے دوسری طرف اس رقم کا بڑا حصہ حکومتی اہلکاروں اور قبائلی سرداروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان اور عراق سے امریکی افواج کے مکمل طور پر نکل جانے والی صورت حال تاخیر کا شکار بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں امریکی صدور کے مزاج میں بہت فرق موجود ہے۔ ٹرمپ روایتی سیاست دانوں کی طرح گومگو کے قائل نہیں، وہ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اور جب کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو اس پر عمل درآمد میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔ دوسری طرف جو بائیڈن دوسرے امریکی قائدین کی طرح عسکری و سفارتی قیادت اور وزارتِ خارجہ کے افسران کے ساتھ مراکز دانش (Think Tanks) کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ طالبان کے بارے میں امریکی فوج اور سیاست دانوں کی رائے بہت منفی ہے۔ دانش ور طبقوں میں فوج کے غیر مشروط انخلاء کو امریکہ کی شکست گردانا جا رہا ہے۔ کابل انتظامیہ نے مخصوص مفادات کے لئے کام کرنے والے ترغیب کار (Lobby) اداروں کی خدمات حاصل کی ہیں جو طالبان امریکہ امن معاہدہ منسوخ کرانے کے لئے رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو پاک و ہند کے لبرل اور قوم پرست طبقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس صورت حال میں یہ ممکن ہے کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن عراق سے تو امریکی افواج کی فوری واپسی کی پالیسی جاری رکھیں لیکن افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی میں کسی حد تک تاخیر ہو جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply