کئی خط اک متن میں سے ایک اور خط۔۔اعظم معراج

محترم سلیم صافی صاحب 07-11-2019
سینئر صحافی و اینکر پرسن
جنگ گروپ

السلام علیکم !
جناب میں اعظم معراج تحریک شناخت کا ایک رضا کار ہوں۔

یہ فکری تحریک پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادی ہند، قیام تعمیر و دفاع پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے شاندار کردار کے ذریعے مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر شناخت کو اجاگر کرنے کی تحریک ہے اس تحریک کی بنیاداس خیال پر ہے کہ کوئی فرد یا کمیونٹی کسی بھی ایسے معاشرے میں ترقی نہیں کر سکتے ہیں جسے وہ جانتے نہ ہوں نہ اپنا مانتے ہوں۔ لہٰذا پاکستانی مسیحیوں معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمہیں اپنے آبا کی سرزمین پر درپیش حالات دستیاب موقعوں ا پنی کمزوریوں اور توانائیوں کے صحیح تخمینے کے ساتھ دھرتی سے اپنی نسبت اور اپنی اس شاندار شناخت کی وارثت کو جان کر اس معاشرے میں فخر اورشان سے جینا ہے گو کہ حالات واقعات اور رویے بعض اوقات امتحان لیتے ہیں ان سے دل برداشتہ ہو کر اپنی اس قابل فخر شناخت کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔

اس تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے دیگر اقدامات مثلاً نوجوانوں اور مذہبی، سماجی، سیاسی کارکنوں سے فکری نشستیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں اسی اجتماعی خود آگاہی، خود شناسی کے ساتھ خود انحصاری کو اپنانے پر زور دیا جاتا ہے ان فکری نشستوں میں اس سبق کودوہرایا جاتا ہے کہ کہ تم اس دھرتی کے بچے ہو آزادی کی جنگ میں تمہارے اجداد قائد کے ہمراہی تھے، تم وطن کے سپاہی ہو، قوم کے معمار ہو، قابل فخر، قابل دید ہو، محافظ غازی اور شہید ہو، شہداءکے وارث ہو، حیدران کے ساتھی ہو، ہلال جرات کے استعارے ہو، جرا ت کے ستارے ہو، بسالت کے نشان ہو، اور سب سے بڑھ کر اس سبز و سفید پرچم کی شان ہو، لہٰذا پاکستانی مسیحیو ں دھرتی سے اپنی نسبت اپنے اس ورثے اور شان، پہچان اور شناخت کو اپنی روحوں میں اُتار لو اور اپنے آبا کی اس سرزمین پرفخر سے جیو۔ نیز اس مقصد کے حصول کے لئے میں نے مندرجہ ذیل گیارہ کتب بھی لکھی ہیں۔
دھرتی جائے کیوں پرائے؟
شناخت نامہ
سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ وشہدا
شہدائے وطن
شان سبزو سفید چوبیس چراغ
حیدران کے مسیحی ساتھی
افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل
کئی خط اِک متن
اسٹوری آف ٹو لیٹر
پاکستان کے مسیحی معمار

ان کتب میں بھی مسیحیوں کی اسی شناخت کو اجاگر کرنے کے ساتھ پاکستانی مسیحیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب موقعوں اور ان کی کمزوریوں کے ساتھ توانائیوں کو بھی حقائق اور اعدادو شمار کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔اس فکری تحریک کا نہ کوئی مذہبی، سیاسی ایجنڈا ہے ۔یہ صرف اجتماعی خود شناسی کی ایک آگاہی مہم ہے اور نہ ہی یہ کوئی این جی اوز ہے۔ میری روزی روٹی رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے آتی ہے ۔ اور میں بھی اس تحریک کا ایک رضاکار ہوں ”

محترم صافی صاحب میرے سامنے 20 جولائی2018ءکی ایک تصویر ہے جسے سہیل راندھاوا نے فیس بک پر شیئر کیا تھا اس میں سہیل راندھاواآپ کو ایک کتاب”شان سبزو سفید“پیش کر رہے ہیں۔ سہیل راندھاوا بھی میری طرح اس تحریک کے ایک رضا کار ہیں۔یہ کتاب دفاع پاکستان میں مسیحیوں کی 70 سالہ تاریخ بیان کرتی ایسی تاریخی دستاویز ہے جو86مسیحی شہداءکی مکمل فہرست کے ساتھ ان میں سے کئی کی ایمان افروز داستانوں اور افواج پاکستان کے5 دو ستارے22 ایک ستارے والے مسیحی جرنیلوں کے ساتھ7ستارہ جرات 3تمغہ جرات 9ستارہ بسالت11تمغہ بسالت اور حیدران کے5مسیحی ساتھیوں3اعزازی شمشیریافتگان کے علاوہ شہداء، غازیوں اور محافظوں کی ایمان افروز داستانوں پر مبنی یہ کتاب نہ صرف مسیحیوں کی موجودہ اور آنے والی نوجوان نسلوں میں شہداءکے لہو ، غازیوں ،محافظوں کی جرات کی بے مثال داستانوں سے عزم و حوصلہ وطن پرستی پیدا کر رہی ہے بلکہ پاکستانی قوم میں بین المذاہب اور معاشرتی ہم آہنگی کا سبب بھی بن رہی ہے”

اس لئے اس تحریک کے رضا کاروں کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کی نمایاں شخصیات سے پاکستانی مسیحیوں کی یہ قابل فخر اجتماعی شناخت ضرور شیئر کریں جب سے تحریک شناخت کے بینر تلے یہ معلومات منظر عام پر آئی ہیں تاریخ کے جبر امتیازی قوانین، امتیازی سماجی رویوں کی بدولت زندگیاں گزارنے نفرت انگیز سماجی رویوں کے وار سہتے اور اپنے آباکی سرزمین پر اجنبیوں کی طرح رہتے یہ دھرتی واسی اب یہ قابل فخر اجتماعی شناخت خوشی اور فخر کے ملے جلے جذبات سے بانٹتے ہیں۔ سہیل راندھاوا نے بھی یہ کتاب اسی لئے اتنے چاؤ سبھاؤ  سے آپ کو پیش کی تھی اس میں اس کا کوئی ذاتی لالچ شامل نہیں تھا ہاں ایک لالچ تھا کہ ہماری اس اجتماعی شناخت کا علم جب سلیم صافی جیسے تجربہ کار صحافی اور اینکر کوہو گا تو شاید وہ کسی 23 مارچ،14اگست، 6ستمبر کو ہماری اس اجتماعی شناخت کا ذکر کر دے۔ آپ کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کو کتاب دینے سے لے کر یہ تقریباً سال سوا تک سہیل نے کتنی اُمید اور آس پر گزارا ہو گا یہ اُمید 20جولائی2018ءسے بہت پہلے شروع ہوئی ہوگی۔ جب سہیل نے یہ سوچا ہو گا کہ مجھے سلیم صافی کو یہ کتاب دینی ہے، پھر جب آپ نے یہ کتاب خوشی سے اس سے وصول کر لی ہو گی۔ تب سے وہ انتظار میں ہو گا کہ کسی کالم میں چند لائنیں 23مارچ کو ذکر ،14اگست کو کوئی حوالہ یا پھر6ستمبر کو کچھ ان کے بارے میں جو کبھی گمنام تھے لیکن اب گمنام نہیں رہے ہیں گوکہ میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل ہوں کہ سہیل راندھاوا جیسے پوری دنیا میں پھیلے پاکستانی مسیحیوں کو اس اجتماعی شناخت کے بارے میں پہلے معلومات اپنے بچوں تک پہنچانی چاہیے۔ پھر دو چار سال بعد یہ معلومات وہ خود اس معاشرے کے دیگر سلیم صافیوں تک پہنچائے گے لیکن دھرتی کے ان بچوں کے اس جوش و جذبہ کو آپ جیسا کوئی غیر مسیحی شائد سمجھ ہی نہیں سکتا۔ جویہ 2013ءمیں پہلی دفعہ ان مسیحی شہداءغازیوں اور محافظان وطن کے دفاع پاکستان جس کے کردار پر منظر عام پر آنے سے یہ محسوس کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے تعلیم ،صحت و صفائی کے بارے میں ان کی خدمات کو کبھی کبھی سراہا جاتا تھا۔ جب کہ پاکستانی مسیحیوں کا ملک و قوم اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے ہر شعبے میں حصہ ہے۔ گو کہ تعلیم صحت و صفائی کے ذکر سے حساس دل مسیحی خوش ہونے کی بجائے کڑتے زیادہ تھے کہ تعلیم ہم لوگوں کو دیتے رہے اور صحت میں اپنے لئے ہم صرف نرسنگ اسٹاف تک ہی محدود رہے اور صفائی کو ویسے ہی برصغیر میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر کوئی کیا فخر محسوس کرے؟

ایسے ماحول میں جب کہ آپ کے جنگ گروپ کے سینئرصحافی سہیل وڑائچ نے 49 سیکنڈ ، ایک دفعہ اپنے ٹی وی پروگرام میں اور ایک دفعہ حامد میر صاحب نے اپنے کالم میں پاکستانی مسیحیوں کی اس شناخت کو اُجاگر کیا تھا ان دونوں کے پاکستانی مسیحی بڑے شکر گزار ہیں۔لیکن یہ شہید، غازی اور محافظان وطن49 سیکنڈ اور ایک کالم سے کہیں زیادہ کے یہ حق دار ہیں۔ لیکن کیا کریں۔

چند طالع آزما جرنیلوں، سیاسی اشرافیہ کی ہوس زرو اقتدار اور بین الاقوامی استعمار کی سازشوں نے معاملہ یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ ہمارے بہت سارے پاکستانی اپنے محافظوں کا نام لینا بھی گناہ کبیرا تصور کرتے ہیں اور ایسے ماحول میں یہ مسیحی محافظان وطن آپ جیسے جمہوریت پسندوں کی نظر میں کیسے معتبر ہو سکتے ہیں۔

خیر یہ ایک ایسا موضع ہے جو روز رات ہمیں سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور مشرف جیسے آمروں کی سرپرستی میں جنم لینے والی جمہوری فکروں کے موجودہ وارث رٹاتے ہیں۔
لیکن اس کا نتیجہ کوئی نہیں نکلتا نہ موجودہ مفاد پرست اشرافیہ ہار مانتی ہے ۔نہ اس نظام سے سابقہ مفادات حاصل کرنے والے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اس لاحاصل بحث پر ہمیں نشے کی طرح لگا دیا گیا ہے۔ اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ جب تک آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک ان جمہوری ملاکھڑوں سے مستفید نہیں ہو جاتے اکثر پاکستانیوں کو تو نیند بھی نہیں آتی۔ گو کہ ان سیاسی ملاکھڑوں میں جمہوریت کے ثمرات اب تک عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچے ؟ جیسے سادہ سوالوں کی بجائے چند گھرانوں کے مفادات کی بات زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن کیونکہ یہ سارا کھیل جمہوریت کی آڑ میں کھیلاجاتا ہے۔
اس لئے میں بھی اسی طرح کے ایک جمہوری مسئلے کی طرف آپ توجہ دلوانا چاہتا ہوں کہ کس طرح غیر مسلمان پاکستانیوں کے ساتھ قیام پاکستان سے لے کر اب انتخابی نظام کے نام پر مذاق کیا گیا ہے ۔

گو کہ ارسطو کے دیس سے نکلنے والی جمہوریت اپنا ارتقائی سفر طے کرتے مغرب میں تو خلق خدا کے لئے آسانیوں کا باعث بن رہی ہے لیکن وطن عزیز میں اس کا ارتقائی سفر چارسدہ، ڈیرہ اسماعیل خان، بنی گالا، رائے ونڈ، لاڑکانہ اور عزیز آباد و دیگر ایسے مراکز پر آ کر جیسے رک سا گیا ہے اور لگتا یوں ہے جیسے ان جمہوری مراکز پر پہنچ کر جمہوریت اپنے سیر شدہ نقطہ انتہا پر پہنچ گئی ہے۔

اس کے باوجود بھی آپ جیسے سینکڑوں روز رات 8سے 12 بجے تک جمہوری قدروں کی آبیاری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جو کہ قابل قدر کوشش ہے اور آپ لوگوں کے ساتھ ہی اول الذکر جمہوری مراکز کے نمائندے بھی شب وروز اپنا تن من دھن اس ملک کے تقریباً 21کروڑ لوگوں کو جمہوریت کے ثمرات پہنچانے پر خرچ کر رہے ہیں۔ لیکن نتائج آ پ کے سامنے ہیں۔ بقول جالب
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

بنیادی انسانی ضروریات کوتو چھوڑیں میرا اس خط کے ذریعے آپ تک یہ گلہ پہنچانے کا مقصد ہے۔جمہوری اقدار کے یہ سارے مراکز اور دیگر غیر جمہوری مراکز مل کر بھی اس ملک کے تقریباً78 لاکھ غیر مسلمان پاکستانیوں کو ایک ڈھنگ کا انتخابی نظام نہیں دے سکے ۔
میں آپ کو مختلف ادوار میں ان 78 لاکھ دھرتی واسیوں پر تھوپے گئے انتخابی نظام پر میں آپ کو اپنا ایک مقالہ نما خط” غیر مسلمان پاکستانیوں کے نام “اور ایک مضمون ”جمہوری غلام“ بھیج رہا ہوں۔ امید ہے آپ اسے سہیل راندھاوا کے تحفے کی طرح نظر انداز نہیں کریں گے اور اسے پڑھیں گے اوراگر آپ کو اس مسئلے کی شدت کا احساس ہو تو ضرور اپنے پروگرام یا کالم میں اس پر بات کریں گے۔

باقی اگر آپ سمجھتے ہیں اس جمہوریت پر چند گھرانوں کے علاوہ دوسرے پاکستانیوں کا بھی حق ہے اور ان کے مسائل کو بھی اجاگر ہونا چاہیے اور ان ترجیحات میں کبھی ان 78 لاکھ پاکستانیوں کا نمبر بھی آ جائے اور آپ ان 78لاکھ کے مسائل کو سمجھنا چاہتے ہوں تو سہیل راندھاوا سے کیئے گا وہ آپ کو اس سلسلے کی ایک کتاب ”دھرتی جائے کیوں پرائے“ بھی خوشی سے دے گا۔جس سے آپ کو اس ملک کے غیر مسلمان پاکستانیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب موقعوں اور ان کی کمزوریوں کے علاوہ ان کی توانائیوں کا اندازہ بھی بخوبی ہوجائے گا اور پھر آپ ان کے مسائل پر بہتر بات کر سکتے ہیں۔
شکریہ

والسلام

اعظم معراج

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں  تابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔