ایک ٹھنڈے مزاج کا شہر۔۔یاسر پیرزادہ

جہاز نے مسقط کے ہوائی اڈے پر اترنے کیلئے پر تولے تو میری نظر نیچے عمارتوں پر پڑی ،زیادہ تر عمارتیں سفید رنگ کی تھیں ، کچھ مٹیالے اور باقی زردی مائل ۔کسی بھی ہوائی اڈے پر اترتے ہوئے میں سب سے پہلے یہی نوٹ کرتا ہوں کہ کہیں مکانات کی چھت پر نیلی ٹنکیاں تو نہیں،اِس سے شہر کے مزاج اور غربت کا کچھ اندازہ ہوجاتا ہے ۔مسقط شہر کو دیکھ کر پہلا احساس یہی ہوا کہ یہ ٹھنڈے مزاج کا شہر ہے ، لوگ شانت ہیں ، عمارتوں کا طرز تعمیر ایسا ہے جیسے صحرا میں مکانات بنے ہوں ، دبئی کے برعکس یہاں بلند و بالا عمارتیں نہیں ہیں ، یوں لگتاہے جیسے پورا شہر سوچ سمجھ کر ڈیزائن کیا گیا ہو، اور حقیقت بھی یہی ہے ، شہر کی مقامی حکومت عمارتوں کے رنگ و روغن اور اُن کی بلندی کے بارے میں خاصی سختی کرتی ہے ، اسی لیے پورے شہر میں آپ کو اجلے اور کھلے پن کا احساس ہوتا ہے۔ اِس کی دوسری وجہ کم آبادی اور وسیع رقبہ ہے ۔ مسقط کی جتنی آبادی ہے، اُس سے زیادہ بچے ہم ہر سال پیدا کرتے ہیں ،اور پچپن لاکھ کی اِس آبادی میں سے بھی نصف لوگ ’خارجی ‘ ہیں، انگریزی میں جنہیں یہاں ex-pat کہتے ہیں ۔

ہم ہوائی اڈے سے باہر نکلے تو محبی قمر ریاض نے ہمارا استقبال کیا، اِس ’نوجوان ‘کی انتظامی صلاحیتیں حیرت انگیز ہیں ،یوں لگتا ہے جیسے اِس نے مینجمنٹ گرو Peter Drucker کی تمام کتابیں گھول کر پی رکھی ہیں، یہ تن تنہا ایسی بڑی تقریبات کا انعقاد کرواتا ہے جس کیلئے کمپنیاں باقاعدہ ایونٹ مینجمنٹ فرم کی خدمات حاصل کرتی ہیں ۔ اُس پر طرہ یہ کہ اِس شخص کی حس مزاح کمال کی ہے، ہر جملے میں کوئی نہ کوئی ایسا چٹکلہ چھوڑتا ہے کہ محفل میں قہقہے بکھر جاتے ہیں ۔قمر ریاض کے ساتھ امیر حمزہ بھی ہمیں ائیر پورٹ پر لینے آئے ، یہ بنیادی طور پر پاکستانی ہیں اور عمان کی وزارت مذہبی امور میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ،انہوں نے عربی چوغہ پہن رکھا تھا ، عمان کا یہ قومی لباس ہے جسے ’دشداش‘ کہتے ہیں، یہ سعودیوں کے لباس سے ذرا سا مختلف ہے ۔امیر حمزہ نے پنجابی میں میرا حال احوال پوچھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے کسی شخص کو عربی لباس میں پنجابی بولتے ہوئے دیکھا ، بے حد لطف آیا۔یار طرحدار گل نوخیز اختر اور اجمل شاہ دین میرے ہمسفر تھے۔ نوخیزنے جب یہ عربی لباس دیکھا تو چھوٹتےہی پوچھاکہ اِس کے نیچے بھی کچھ پہنتے ہیں یا نہیں ۔ امیر حمزہ زیر لب مسکرائے اور بتایا کہ یہ پہننے والے کی مرضی ہے کہ نیچے کچھ پہنا جائے یا نہیں ۔ نوخیز کی اِس جواب سے تسلی نہیں ہوئی اور موصوف اگلے تین دن تک یہی کھوج لگانے کی کوشش کرتے رہے ! بالآخر تیسرے دن ایک عمانی نے نوخیز کو اپنی ٹانگوں سے چوغہ سرکا کر دکھایا کہ نیچے ٹراؤزر پہنا ہے ۔اللہ جانے نوخیز مطمئن ہوا یا نہیں، وہ عمانی البتہ بعد میں کافی دیر تک انہیں ڈھونڈتا رہا۔

عُمان کے لوگ سلطان قابوس کا بہت احترام کرتے ہیں ، وہ پچاس برس تک عمان کے حکمراں رہے ، ایک طرح سے وہ جدید عمان کے بانی ہیں ۔خیر اندیش آمر کی اگر کوئی مثال ممکن ہے تو وہ سلطان قابوس کی ہے۔ عمان میں جمہوریت کا تو کوئی تصور نہیں البتہ ایک ہومیو پیتھک قسم کی اسمبلی ضرور ہے جہاں نمائندے منتخب ہو کر آتے ہیں تاہم کابینہ اور دیگر حکومتی تقرریاں سلطان ہی کرتا ہے ۔ پورے عمان کی مساجد میں جمعے کاایک ہی خطبہ پڑھا جاتا ہے اور کسی قسم کی انتہا پسندی کی اجازت نہیں ، یہاں شراب خانے بھی ہیںاور نائٹ کلب بھی ، مساجد بھی اور مندر، گرجے اور گوردوارے بھی ۔ عورتیں مکمل حجاب میں بھی گھومتی ہیں اور اسکرٹ پہن کر بھی ، لیکن کسی کا اسلام خطرے میں نہیں پڑتا ۔ عمان کوآپ خلیجی ممالک کا ناروے کہہ سکتے ہیں ، جس طرح ناروے نے یورپ میں اپنی غیر جانبداری برقرار رکھی ہوئی ہے اسی طرح عمان نے بھی یہی کوشش کی ہے کہ علاقائی تنازعات سے خود کو پرےرکھے حالانکہ عمان کے ساتھ یمن کی سرحد ہے جہاں جنگ چھڑی ہے مگر عمان نے نہایت دانشمندی سےخود کویمن کی جنگ سے دور رکھا ہوا ہے ۔اسی طرح قطر کے بائیکاٹ کی بھی عمان نے حمایت نہیں کی تھی ۔پاکستان کے ساتھ عمان کے تعلقات بہت اچھے ہیں ، بلوچ بڑی تعداد میں یہاں آباد ہیں ،عمان کی فوج میں ہماری نیوی کے افسران شامل ہیں اور باہمی تعاون بہت زیادہ ہے ۔

اگلے روز ہمارا صلالہ جانے کا پروگرام تھا،یہ شہر مسقط کی طرح بڑا تو نہیں البتہ یہاں عمان کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ ہے۔صلالہ دیکھ کر مجھے کچھ مایوسی ہوئی ، شہرسمندر کے کنارے آباد ہے اور اِس کے کچھ حصےخوبصورت بھی ہیں مگر ایساکوئی حسن نہیں جسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جائے ۔ وادی درباط شہر سے چند میل کے فاصلے پر ہے، یہ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں آبشار اور چشمے ہیںاور چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں ، آج کل بارشوں کا موسم ہے تو یہ پہاڑسر سبز نظر آتے ہیں، اسی موسم میں سیاحوں کی بڑی تعداد صلالہ میں نظر آتی ہے۔خدا کو جان دینی ہے ، بلوچستان کے ساحل اِس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں مگر وہاں شایدکوئی مقامی سیاح بھی نہیں جاتا اور یہاں صلالہ میں ہم نے لوگوں کا اژدھام دیکھا۔ صلالہ کے بارے میں سنا تھاکہ یہاں شداد کی بنائی ہوئی جنت اور سامری جادوگر کا محل بھی ہے مگر اِس بارے میں لوگوں نےبتایا کہ اِس میںفسانہ زیادہ اور حقیقت کم ہے ۔مجھے ذاتی طور پر سامری کا محل دیکھنے کا تجسس تھا مگر پھر یہ سوچ کر ارادہ ملتوی کردیا کہ اپنے پاکستان میں بہت سے سامری ہیں ، چند ایک سے سلام دعا بھی ہے ، کسی دن اُن کا گھر دیکھ آؤں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمان جیسے ملکوں کا ماڈل ہمیں بہت پسند آتا ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ ماڈل اِس لیے کامیاب ہے کہ یہاں تیل کی دولت ہے اور مقامی آبادی فقط ستائیس لاکھ ہےجبکہ ہماری آبادی بائیس کروڑ ہے اور کُل برآمدات رو پیٹ کر تیس ارب ڈالر کی ہیں ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کے گھر میں دو درجن افراد رہتے ہوں اور اُن میں سے ایک کمانے والااور باقی نکمے ہوں اور وہ اپنے اُس ہمسائے کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھے جو تیل کے کنوؤں کا مالک ہو اور اُس کا ایک ہی بچہ ہو جس کی اُس نے پرورش کرنی ہو۔عمان ہمارا ایسا ہی ہمسایہ ہے۔ اگلی منزل اسپین ہے، دیکھتے ہیں وہاں پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply