کیا حکومت مائنس ہو رہی ہے ؟۔۔محمد اسد شاہ

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے محترمہ مریم نواز کے حالیہ انٹرویو نے ملکی سیاست میں اتنی ہلچل مچا دی ہے کہ حکومتی بزرج مہروں کو کوئی ٹھوس اور مستند جواب تک سجھائی نہیں دے رہا – محترمہ نے واضح طور یہ کہہ دیا کہ وہ اس حکومت سے قطعاً بات نہیں کرنا چاہتیں جو ان کے خیال میں جعلی اور کٹھ پتلی ہے – اس کی بجائے اگر ضرورت پڑی تو وہ فوج کے ساتھ آئین کے دائرہ کار میں رہ کر ، اور عوام کے سامنے مکالمہ کرنے پر سوچ سکتی ہیں – ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چھپ چھپا کر فوج سے کوئی بات نہیں کرنا چاہیں گی – ان شرائط پر ہی بس نہیں ، بل کہ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ فوج سے یہ کھلم کھلا مذاکرات بھی تب ہوں گے جب “جعلی” حکومت نہیں رہے گی – کیوں کہ یہ حکومت ان کے خیال میں ، مکالمے اور قومی یک جہتی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے –

محترمہ کے انٹرویو سے ہونے والی ملک گیر ہلچل کوئی اچنبھے کی بات نہیں – گزشتہ تین سالوں سے ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ محترمہ مریم نواز کا بیانیہ ، بلکہ ہر بیان عوام پوری توجہ سے سنتے ، اور اس پر ردعمل دیتے ہیں – ایوانوں ، دفاتر اور گھریلو بیٹھکوں میں ، ہر جگہ ان کے ہر بیان پر بحثیں شروع ہو جاتی ہیں – ان کی اس اہمیت کی بنیادی وجہ وہ پس منظر ہے جس نے انھیں عملی سیاست کے میدان میں آنے پر مجبور کیا – 1999 سے اب تک ، ان کے والد محمد نواز شریف کو بعض حلقوں کی طرف سے مسلسل جس سخت مخالفت کا سامنا ہے وہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں – اس دوران وہ تیسری بار وزیراعظم بھی منتخب ہوئے لیکن انھیں تب بھی کام کرنے کے لیے وہ ماحول نہیں ملا جو کسی حکومت کو کام کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے – اس کے باوجود انھوں نے اپنی کارکردگی نہ صرف ملکی ، بلکہ عالمی سطح پر بھی منوائی – ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے خلاف میڈیا اور عوام سمیت ہر جگہ انتہائی تحقیر آمیز مخالفت بہت منظم انداز میں جاری رکھی گئی – حتیٰ کہ انھیں سرکاری ملازمین کی ایک جے آئی ٹی کے سامنے سو بار سے بھی زیادہ پیش ہونے پر مجبور کر دیا گیا – اس جے آئی ٹی کی تشکیل اور ہیئت پر بھی بہت سے سوالات اٹھے جن کا جواب تاریخ کے ذمے واجب الادا قرض ہے –

میاں صاحب نے بھی وزیراعظم ہونے کا استثنیٰ استعمال کرنے کی بجائے پیش ہونے کو ترجیح دی ، جو ہماری ملکی تاریخ کی منفرد اور قابلِ قدر مثال ہے – ورنہ آصف علی زرداری ، عمران خان اور عارف علوی سمیت سب ہی استثنیٰ سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں – بلکہ عمران خان تو وزیراعظم بننے سے پہلے بھی عدالتوں میں پیش ہونے سے پرہیز کرتے آئے ہیں – 2014 سے اب تک فارن فنڈنگ کیس ، ہیلی کاپٹر کیس ، بنی گالہ محل کیس ، پارلیمنٹ حملہ کیس وغیرہ میں بار بار طلب کیے جانے کے باوجود وہ کبھی کسی عدالت میں پیش نہیں ہوئے – جب کہ وہ وزیر اعظم بھی نہیں تھے – صرف نواز شریف ہی ہیں جنھوں نے وزیر اعظم ہونے کے باوجود “آئینی استثنیٰ” کا فائدہ اٹھانے کی بجائے پیشیاں بھگتنے کو ترجیح دی – ان کی صاحب زادی محترمہ مریم نواز ، اور صاحب زادے حسین نواز بھی اسی طرح پیشیاں بھگتتے رہے – پھر ایک منفرد واقعہ یہ بھی ہوا کہ پارلیمنٹ کی رکن نہ ہونے کے باوجود محترمہ کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا گیا – اس طویل اور ختم نہ ہونے والے سلسلے نے محترمہ کو عملی سیاسی میدان میں اترنے پر مجبور کر دیا – اور اب یہ حال ہے کہ پارلیمنٹ کی رکن نہ ہونے کے باوجود ان کے ہر بیان ، بل کہ ان کی خاموشی تک کو اتنی ملک گیر اہمیت حاصل ہے کہ بہت سے لوگ جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے –

خیر ، ہم بات کر رہے تھے کہ محترمہ کے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو نے ان کے مخالفین کو بہت پریشان کر دیا ہے – انھوں نے فوراً شور مچا دیا کہ محترمہ نے فوج سے حکومت توڑنے کا مطالبہ کیا ہے – اس پر خوب دھول اڑائی گئی – لیکن جب انٹرویو کی وڈیو سامنے آئی تو اس میں ایسا کوئی جملہ کہیں نہیں ملا – حکومتی ترجمانوں کے اس بے ثبوت شور کے پیچھے شاید وہ خوف ہے جو اب بہت سوں کو نظر آ رہا ہے – مسئلہ یہ ہے کہ محترمہ نے موجودہ حکومت کے ساتھ کسی بھی سطح کے مذاکرات کا راستہ بند کر دیا ہے – اس کی بجائے وہ ان حلقوں سے بات کرنے پر سوچتی نظر آتی ہیں جو ان کے خیال میں موجودہ حکومت کو “مسلط” کرنے کے ذمہ دار ہیں – اس پر طرہ یہ کہ ان مذاکرات کی پیشگی بنیادی شرط یہ رکھی گئی کہ جب تک موجودہ حکومت ختم نہیں ہو گی ، تب تک کسی سے بھی کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے – چناں چہ موجودہ حکومت کے لیے پریشان کن امر یہ ہے کہ اگر واقعی مذکورہ حلقے مذاکرات پر تیار ہو جائیں تو اس حکومت کا کیا بنے گا – حکومت کہاں کھڑی ہو گی ، ہو گی بھی ، یا نہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

غور کیجیے تو حالات کو اس نہج تک پہنچانے کا باعث خود عمران خان کا اپنا انتہا پسندانہ رویہ ہے – پارلیمنٹ سمیت کسی بھی مقام پر وہ اپوزیشن کے کسی شخص سے بات کرنے کو تیار نہیں ہیں – مقدمات تیار کرنے کی مشینیں دن رات چل رہی ہیں – آج ہی ایک ملک گیر سروے سے ظاہر ہوا کہ پاکستان کے 53 فی صد عوام ان مقدمات کو حقیقی نہیں ، بل کہ صرف سیاسی اور انتقامی سمجھتے ہیں – اوپر سے گزشتہ دو سالوں میں غریب عوام پر 14 ہزار ارب ڈالر کا بدترین قرض مزید چڑھانے کے باوجود کارکردگی کے معاملے میں حکومت کا دامن خالی ہے – موجودہ حکومت میں ، پاکستان کی 73 سالہ تاریخ کی بدترین مہنگائی نے عملاً کروڑوں لوگوں کو بے روزگار اور خوار کر دیا ہے – خاں صاحب کے صرف اڑھائی سالوں میں ہی آٹا ، چینی ، دالوں ، گھی ، دودھ ، حتیٰ کہ ادویات تک کی قیمتیں اوسطاً 2 سو فی صد تک بڑھی ہیں – خاں صاحب کے حکمران بننے کے بعد سے بجلی ، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل شرم ناک اور خوف ناک اضافہ ہوتا آ رہا ہے – دوسری طرف حالت یہ ہے کہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے دو سال بعد بھی خاں صاحب ، نواز شریف کا نام لیے بغیر تقریر نہیں کر سکتے – جانے کیوں ، نواز شریف کا نام ان کے دل و دماغ پر سوار ہے ، اور وزیراعظم بن کر بھی آج تک وہ “نواز شریف فوبیا” سے نکل نہیں سکے – پنجاب میں ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ جیسے “نواز شریف کا نام عمران کی چھیڑ بن چکا ہے -” ان کے حامیوں کا بھی یہی حال ہے – یوں لگتا ہے کہ خاں صاحب کے پاس اپنی کارکردگی بتانے کی بجائے یہی راستہ آسان ہے کہ وہ نواز شریف کے خلاف شخصی نفرت کو ہوا دیتے رہیں اور اپنے ووٹرز کو الجھائے رکھیں – اس تہی دامنی کے باوجود خان صاحب اپنے ذاتی مزاج کے مطابق چل رہے ہیں، اور جمہوری سیاسی اصول و اقدار کے برعکس اپوزیشن کے ساتھ سلام کلام کو حرام سمجھتے ہیں – اور شاید اب اپوزیشن بھی ان سے بات کرنے کو حرام قرار دے رہی ہے – ایسے میں ہواؤں کا رخ بتا رہا ہے کہ حالات خاں صاحب کی سیاست و حکومت کے لیے زیادہ عرصہ خوش گوار نہیں رہیں گے – ان کی گورننس اور کارکردگی پرشدید سوالات اٹھ رہے ہیں ، اور ان کی سرپرستی کرنے والے حلقے ان کی ناکامیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر بہت زیادہ محسوس کرنے لگے ہیں – کہیں ایسا تو نہیں کہ نواز شریف کی سیاست کو مائنس کرنے کے اندھے شوق میں خاں صاحب خود اپنی ہی سیاست کو مائنس ہوتا دیکھ رہے ہیں –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا حکومت مائنس ہو رہی ہے ؟۔۔محمد اسد شاہ

  1. اللّٰہ کرے کہ اس سلیکٹڈ نیازی کی حکومت سے پاکستان کو جلد از جلد نجات نصیب ہو – آمین ! تمام باشعور اور باضمیر پاکستانی پریشان ہیں کہ کس جاہل ، نکمے اور کرپٹ شخص کو کس طرح اس ملک پر مسلط کیا گیا ہے – ایسا جاہل وزیراعظم جسے بولنے کی تمیز ہے نہ ملک چلانے کی – تمام کرپٹ لوگ اس کی کابینہ میں شامل ہیں اور یہ کمیشن وصول کر کے انھیں تحفظ دیئے ہوئے ہے – جتنا قرضہ اور جتنی کرپشن عمران نیازی نے اس ملک پر چڑھائی ہے ، اس کی حقیقت جب عوام کے سامنے آئے گی تب لوگ گھبرا جائیں گے –

Leave a Reply