اسد ملتانی کی ادبی خدمات۔اسلم ملک

جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
اگرمعدے میں ہو تیرے گرانی
تو جھٹ پی سونف یا ادرک کا پانی
گر خوں کم بنے بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے، شلغم زیادہ!

’’ آسان نسخے‘‘ کے عنوان سے یہ نظم سیکڑوں بار چھپ چکی ہے ، لیکن اکثر شاعر نامعلوم درج ہوتا ہے یا کوئی غلط نام ۔ بے شمار حکیموں نے اسے خوش خط لکھوا کر اپنے مطب، کلینک پرآویزاں کیا اور یہ نظم ان کی ہی مشہور ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظم کسی حکیم کی نہیں، ایک بیوروکریٹ کی ہے۔ لیکن وہ محض بیورو کریٹ نہیں تھے ، اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر اورماہرِ اقبالیات تھے۔ اس نظم کی وجہ سے لوگ ان کے نام کے ساتھ حکیم بھی لکھنے لگے۔ حالانکہ یہ سب کچھ محض مطالعے اور سیانوں کی صحبت سے اخذ کیا۔ یہ نظم پہلی بار مجید لاہوری کے رسالے ’’نمکدان‘‘ میں شائع ہوئی۔ اصل نظم کے سولہ اشعار ہیں لیکن لوگ اضافے کرتے رہے ہیں۔

یہ شاعر محمد اسد خان، اسد ملتانی 13 دسمبر 1902 کو ملتان کے ایک علمی ادبی شیرانی پٹھان خاندان کے ہاں کڑی افغاناں میں اپنے آبائی گھر طاقِ اسحاق میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد غلام قادر خان ضلع ملتان کے دفتر میں کلرک تھے علمِ نجوم میں ملکہ حاصل تھا ۔ اسد ملتانی نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن ہائی اسکول سے حاصل کی ۔جو بعد ازاں ایمرسن کالج کے نام سے مشہور ہوا۔1921 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔اُن دنوں علامہ اقبال وہاں فلسفے کے پروفیسر تھے۔اسی دور سے جناب ِ اسد کا علامہ اقبال سے فکری اور روحانی تعلق پیدا ہوا ۔ کہتے تھے
شعر میں حضرتِ اقبال کا پیرو ہونا
ہے اگر جُرم تو بیشک اسد اقبالی ہے!

علامہ اقبال نے انہیں ” افسر الشعراء” کا خطاب بھی دیا۔
1922 میں اپنے بھائی محمد اکرم خان کے ساتھ مل کر ملتان سے روزنامہ’’ شمس ‘‘ کا اجراء کیا اور مطبع الشمس قائم کیا( یہ دونوں بھائی شیرانی برادران کے نام سے مشہور تھے) ۔بعد میں انہوں نے”ندائے افغان” بھی جاری کیا۔محمد اسد خان نے 1924 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ملتان میں اسلامیہ ہائی اسکول میں بطور انگلش ٹیچر مامور ہوئے۔1926 میں انڈین پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوکر وائسرائے ہند کے پولیٹیکل آفس میں سپریٹنڈنٹ مقرر ہوئے ۔قیام دہلی اور شملہ میں رہا۔ قیامِ پاکستان کے بعد دارالحکومت کراچی میں اسسٹنٹ سیکرٹری بنے اور ڈپٹی سیکرٹری خارجہ کے عہدے تک پہنچے ۔

1955 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے کر اپنے وطن ملتان واپس آکر علمی ادبی کام کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ اسی دوران دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ ہوا ۔عبوری دارالحکومت راولپنڈی تھا۔ راولپنڈی پہنچے لیکن صرف سترہ دن بعد 17 نومبر 1959 کو حرکت ِ قلب بند ہونےسے انتقال کر گئے ۔انہیں ملتان میں ان کے آبائی قبرستان حسن پروانہ میں سپردِ خاک کیا گیا ۔ان کے قریبی دوست مولانا احتشام الحق تھانوی کراچی سے خصوصی طور پر نمازِ جنازہ پڑھانے ملتان تشریف لائے۔

جناب ِ اسد ملتانی کی وفات کے وقت تین بیٹیاں اور دو بیٹے حیات تھے ۔اب سب کی وفات ہوچکی ہے ۔ان کی منجھلی صاحبزادی محترمہ فرزانہ شیرانی اردو اور سرایئکی شاعرہ اور افسانہ نگار تھیں ۔محض اڑتالیس برس کی عمر میں وفات پا گیئں۔ بہاولپور میں مدفن ہے ۔ان کی بڑی صاحبزادی محترمہ شائستہ خانم شیرانی معروف ناول نگار مظہر کلیم کی اہلیہ تھیں۔

جنابِ اسد ملتانی کا کلام ا ن کی حیات میں یکجا نہیں ہو پایا البتہ دو کتابچے شائع ہوئے ۔ایک مرثیہ اقبال جو علامہ اقبال کی وفات پر شایع ہوا دوسرا تحفۂ حرم جو 1954 میں سفرِ حج پر لکھی جانے والی اردو اور سرایئکی نعتوں اور حمدیہ کلام پر مشتمل ہے ۔ ان کا کلام روزنامہ زمیندار ، معارف اعظم گڑھ ، طلوعِ اسلام ، فاران ، ماہِ نو اور نمکدان میں شائع ہوتا رہا

شعری مجموعے مشارق اور تحفہ حرم ان کی وفات کے بعد مرتب کیے گئے۔کلیات ِ اسد ملتانی شوکت حسین بخاری اور اقبالیاتِ اسد ملتانی پروفیسر جعفر بلوچ نے مرتب کی۔ اسد ملتانی کے بارے میں اسد ملتانی۔۔ فکرو فن (پروفیسرعبدالباقی) اورمحمد اسد خان ملتانی ۔۔فکرِ اقبال کا نمائندہ شاعر ( پروفیسر مختار ظفر ) اہم کتابیں ہیں۔

 

 

اسد ملتانی کے کچھ اشعار۔۔۔

رہیں نہ رند یہ زاہد کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں!

تو دیکھ ترے دل میں ہے سوز طلب کتنا
مت پو چھ دعاؤں میں یہ بے اثری کیوں ہے!

اے گل جو بہار آئی ہے وقت خود آرائی
یہ رنگ جنوں کیسا یہ جامہ دری کیوں ہے!

واعظ کوجو عادت ہے پیچیدہ بیانی کی
حیراں ہے کہ رندوں کی ہر بات کھری کیوں ہے!

اسدؔ ساقی کی ہے دوہری عنایت
شراب کہنہ ڈالی جام نو میں

بہت تھے ہم زباں لیکن جو دیکھا
نہ نکلا ایک بھی ہمدرد سو میں

اسرار اگر سمجھے دنیا کی ہر اک شے کے
خود اپنی حقیقت سے یہ بے خبری کیوں ہے!

الفت کو اسدؔ کتنا آسان سمجھتا تھا
اب نالۂ شب کیوں ہے آہ سحری کیوں ہے!

مشہور نظم”آسان نسخے”

جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے

اگر تجھ کو لگے جاڑے میں سردی
تو استعمال کر انڈے کی زردی

اگرمعدے میں ہو تیرے گرانی
تو جھٹ پی سونف یا ادرک کا پانی

اگر خوں کم بنے بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے ،شلغم زیادہ

جو بد ہضمی میں تو چاہے افاقہ
تو دو اِک وقت کا کر لے تو فاقہ

جو ہو پیچش تو پیچ اس طرح کس لے
ملا کر دودھ میں لیموں کا رس لے

جگرکے بل پہ ہے انسان جیتا
اگر ضعفِ جگر ہو کھا پپیتا

جگر میں ہو اگر گرمی، دہی کھا
اگر آنتو ں میں خشکی ہے تو گھی کھا

تھکن سے ہوں اگرعضلات ڈھیلے
تو فورا دودھ گرما گرم پی لے

جو طاقت میں کمی ہوتی ہو محسوس
تومصری کی ڈلی ملتان کی چوس

زیادہ گر دماغی ہے تیرا کام
تو کھا تو شہد کے ہمراہ بادام

اگر ہو دل کی کمزوری کا احساس
تومربہ آملہ کھا اور انناس

جو دکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی کے غرارے

اگر ہے درد سے دانتوں کے بےکل
تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مل

اگر گرمی کی شدت ہو زیادہ
تو شربت پی بجائے آبِ سادہ

جو ہے افکارِ دنیا سے پریشاں
نمکداں پڑھ نمکداں پڑھ نمکداں

Advertisements
julia rana solicitors london

[ ماہنامہ ’’ نمکدان‘‘ کراچی ، فروری مارچ 1955 ]

 

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply