• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • گجرات میں انتخاب کرانا کیوں نہیں چاہتی بی جے پی؟ ۔ڈاکٹر اسلم جاوید

گجرات میں انتخاب کرانا کیوں نہیں چاہتی بی جے پی؟ ۔ڈاکٹر اسلم جاوید

جمعرات کو چیف الیکشن کمشنر نے میڈیا سے خطاب کے دوران بتا یا کہ گجرات کے سات اضلاع میں سیلاب کی وجہ سے حالات سازگار نہیں ہیں۔ لہذاگجرات حکومت نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ ریاست میں جلدی انتخابات نہ کرائے۔انتخابی کمیشن کے اس بیان کے بعد چاروں جانب ہنگامے کھڑے ہوگئے ہیں، کوئی انتخابی کمیشن کو حکومت کے اشارے کا محتاج قرار دے رہا ہے تو کوئی راست طور پر حکو مت ہند اور بی جے پی کو اس مدعے پر کٹہرے میں کھڑا کرنے کے جتن میں مصروف ہے، یعنی کہ جتنی منہ اتنی باتیں۔ اگر بظاہر دیکھا جائے تو انتخابی کمیشن کے اس بیان میں تکنیکی کی طور پر کوئی جان نہیں ہے اور گجرات میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کہیں پربھی آج ایسے حالات نہیں ہیں کہ جہاں سڑک پر پانی بہ رہا ہو،آمدو رفت موقوف اور شہریوں کی زندگی داؤ پر لگی ہو۔ اصولاً ایسے ہنگامی حالات یا جنگی صورت حال میں ہی اس اہم ترین سیاسی اور خالص جمہوری عمل کووقتی طور پرآگے پیچھے کیا جاسکتا ہے۔

اس نوعیت کی بے شمار مثالیں دوسری ریاستوں میں موجود ہیں جہاں سیلاب کی قیامت خیزی کے باوجودانتخابی کمیشن نے ووٹنگ کرائی ہے۔آسام سے لیکر کشمیر تک متعدد ایسی ریاستیں سامنے ہیں جہاں انتخابی کمیشن نے نامساعد حالات میں بھی انتخابی عمل کو موقوف نہیں ہونے دیا۔ گزشتہ2015کی ہی بات لے لیجئے بہار کے نشیبی علاقے حسب تاریخ شدید سیلاب کی زد میں تھے، ویسے اس غریب ریاست کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نیپا ل کے پڑوس میں ہے اور اسی وجہ سے حکومت نیپال اور چین کے متحدہ آبی حملے نامعلوم طریقے سے بہار کے باشندوں کیلئے قیامت کا سامان فراہم کرتے رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ایک بار نشیب میں پھیل جانے کے بعد یہ سیلابی پانی اگرچہ اپنی دھار کھودیتے ہیں، مگر اس کی زدمیں آکر ٹوٹ جانے والے راستے اور بے نام نشان ہوجانے والے اہم ترین گز ر گاہوں کے پل زمیں بوس ہوجایا کرتے ہیں جو کبھی کبھی اپنے پرسان حال کی راہ تکتے بے سروسامانی کے فسانوں کو برسوں سناتے رہتے ہیں۔ یہ راستے اپنی پیٹھ پر گزرنے والے نیتاؤں، اقتدار نشین مابدولتوں کو افسرشاہی کی انسانیت دشمنی اورترقی کی فکر سے عدم دل چسپی کی داستان دلخراش سناتے رہتے ہیں۔

غالباً یہ بات ملک کے سارے حساس اور باشعور ہندوستا نیوں کو بخوبی یاد ہوگی کہ 2010میں کوسی نے کیسی تباہی مچائی تھی، کس طرح سے سیمانچل کی ہزاروں بستیوں کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔خبریں تو یہاں تک ہیں کہ کوسی کے دامن میں کئی ایسی بستیاں بھی تھیں جو آئی سیلاب میں آئے ہوئے ریت کے بلند ٹیلوں میں زندہ درگور ہو چکی ہیں۔ ان تمام صورت حال کے باوجود کیا بہار میں انتخابی کمیشن نے کسی حکومت کی ہدایت پر پریس کانفرنس منعقد کرکے ایسا بیان دیا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے وہاں ہر طرف ہو ہو کا عالم ہے،درجنوں راستے بھی مسدود ہیں، لہذا وہاں حکومت نے یہ ہدایت دی ہے کہ فوری طور پرا نتخابات کوملتوی کردیا جایے۔ یا یوپی اے حکومت کے دور اقتدار میں انتخابی کمیشن پر اس طرح کسی کی مٹھی میں قید کسمسانے کا الزام لگا یا گیا تھا کہ وہ بے بس اور بے دست و پا ہوچکا ہے؟

آج جبکہ گجرات حکومت کی ہدایت پر انتخاب ٹالنے کیلئے کمیشن کو باضابطہ طور سے پریس کانفرنس منعقد کرکے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ وزیر اعلیٰ روپانی کا حکم ہے کہ سیلاب کی وجہ سے حا لا ت موافق نہیں ہیں، لہذ انتخابی عمل کو ابھی مؤ خر کردیا جائے۔ساری دنیامیں ہندوستان کے ا نتخابی کمیشن کی خودمختاری اور آزادی کا عتراف کیاجاتا رہاہے اور اب تک اس کی کار کردگی پر ہرجانب سے تعریف تحسین کی جاتی رہی ہے۔مگر آج موجودہ حکومت کے دور میں انتخابی کمیشن کی آزادی اور خود مختاری پر قینچی چلانے کی مجرمانہ کوشش ہورہی ہے، اسے ساری دنیا اپنی کھلی آ نکھوں سے دیکھ رہی ہے۔

سوال یہ ہے کمیشن کی ایسی کارکردگی پر اس کی ماضی میں بنائی گئی ساکھ قائم کیسے رہ سکے گی، کیا دنیا میں اس کی شفافیت اور خود مختاری کے ترانے پہلے کی طرح گائے جاسکیں گے۔یہ چند اہم سوال ہیں جس پر آنے وقت میں انتخابی کمیشن کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے گا اور کوئی جواب اس سے نہیں بن پڑے گا۔ اب ہر جانب انتخابات کی تاریخیں ٹالنے پر الیکشن کمیشن کے ساتھ مرکزی حکومت پر نشانہ سادھا جانے لگا ہے۔ حزب اختلاف کا الزام ہے کہ انتخابی کمیشن کی جانب سے یہ بیان وزیر اعظم نریندر مودی کے اشارے پر دیا گیا ہے اور وہ اپنی سہولت کیلئے اس اہم اور جمہوری ادارے کو بے دست وپا کررہے ہیں۔ مخالفین کے یہ الزامات بے جابھی نہیں لگتے۔ اگربغور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں مرکزی یا ریاستی حکومتوں کی عوام مخالف پالیسیوں کے نتیجے میں عوام شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے ریاست کے عام باشندوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔

لہذا ایسے حالات میں اگر انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا جاتا ہے تو حکومت کے ذریعہ عوام کو لبھانے اور گمراہ کرنے والے سنگ بنیادو(شیلا نیاس) جیسے حربے اور ترقیاتی اسکیموں کو بھنانے کی ترکیب بے معنی ہوکر رہ جائے گی اور انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد ریاست میں کسی بھی لیڈر کو ’’جملے بازی‘‘ کی آزادی نہیں مل سکے گی، لہذا وہ عوام کے درمیان کیا لے کر جائیں گے۔ ایسا کوئی بھی تحفہ بی جے پی کی جھولی موجود نہیں ہے جس سے انتخابات میں وہ عوام کو اپنی جانب مائل کرسکے۔اسی کے ساتھ گئورکشا کے نام پر دلتو اور اقلیتوں کے قتل اور ان کی تذلیل کی وجہ سے دلتوں میں بی جے پی نفرت کا جو ماحول اور غصہ بناہوا ہے، اس غصے اور نفرت کو کیسے کم کیا جاسکے۔ اگر ہماچل پردیش میں اسمبلی انتخابات کیلئے تاریخوں کا اعلان نہیں کیاجاتا تو شاید بی جے پی اور انتخابی کمیشن کیخلاف اس حدتک تنقیدوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا۔

اطلا عات کے مطابق انتخابی کمیشن نے ہماچل پردیش میں اسمبلی انتخابات کے لئے تاریخوں کا اعلان کردیا ہے۔ جمعہ کے روز یعنی مورخہ13اکتوبر2017کو چیف الیکشن کمشنر اچل کمار جیوتی نے ہما چل پردیش میں انتخابا ت کی تاریخوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی تمام 68 اسمبلی نشستوں پر 9 نومبر کو انتخابات کرایے جائیں گے اور 18 دسمبر کو ووٹوں کی گنتی کرائی جائے گی۔حالانکہ پہلے سے یہ کہا جارہا تھا کہ ہماچل پردیش اور گجرات میں انتخابات کا اعلان ایک ہی بار ہوگا اور دونوں ریاستوں میں ایک سا تھ ہی پولنگ کرائی جائے گی۔مگر جمعہ کے دن انتخابی کمیشن نے جواعلان کیا اور گجرات میں انتخاب ٹالنے کا اشا رہ دیا، اس کے بعد ہر طرف سے تبصرے اور تنقیدیں شروع ہوگئی، صورت حال یہ ہے کہ مرکزی حکومت بیک فٹ پر آ گئی ہے اور اسے اپنی سبکی مٹانے کیلئے بے جا اور بے بنیاد بہانوں کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔

چنانچہ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اپنی پارٹی کے دفاع میں مائک سنبھال لیا اور کہا کہ 2017-2012 اور کے اسمبلی انتخابات میں ہماچل پردیش اور گجرات میں ایک ماہ سے زیادہ کا فرق تھا۔ روی شنکر پرساد نے کہاکہ کانگریس کو مجھے ایک بات کہنی ہے، آئینی ادارے پرکانگریس کا سوال اٹھانا غلط ہے۔روی شنکر پرساد کو شاید یہ بات معلوم نہیں ہے کہ حالیہ کارکردگی کی وجہ سے انتخابی کیشن پر صرف کانگریس پارٹی ہی تنقید نہیں کررہی ہے، بلکہ ملک وبیرون ملک کے سیاسی تجزیہ نگاران،انتخابی ماہرین اور سماجی خدمات پر مامور حقوق جمہوریت کیلئے کام کرنے والے ادارے بھی انتخابی کمیشن کے اس عمل کو سیاست اور دباؤ سے متاثر بتا رہے ہیں۔ بہر حال گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہ کئے جانے سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ اس وقت پوری بی جے پی گجرات فتح کرنے کی مہم میں جٹی ہوئی ہے۔بڑے بڑے اعلانات ہورہے ہیں اور انتخابی شیلا نیاسوں کی باڑھ آ ئی ہوئی ہے،جس سے مودی جی کو امید ہے کہ وہ عوام کی توجہ بھٹکانے میں کا میاب ہوجائیں گے۔چونکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی دونوں نے آنے والے انتخابات میں بازی مارنے کیلئے اپنی عزت داؤ پر لگا رکھی ہے اور دونوں ہی لیڈران بازی مار لینے کی فراق میں ہیں۔ انتخابات ٹالنے کی ایک انتہائی اہم وجہ ایک اور بھی ہے مودی جی نے چند ماہ پہلے ہی ممبئی سے گجرات تک بلیٹ ٹرین چلانے کا اعلان کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معاہدہ کے مطابق سوا لاکھ کروڑ کے اس منصوبے میں جاپان بطور قرض ایک فیصد سے بھی کم شرح سود پر 80ہزار کروڑ روپے ہندوستان کو دینے والا تھا۔ مگر بے ضابطگیوں اور کئی قسم کی بدعنوانیوں کو دیکھنے کے بعد جاپان نے رقم جاری کرنے کے عمل کو ابھی موقوف کردیا ہے۔دوسری طرف بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کے نامعلوم طریقے سے املاک میں اضافہ کرنے کا معاملہ ابھی بھی گردش میں ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر ایسے حالات میں جب نوٹ منسوخی اور جی ایس ٹی جیسے انتہائی حوصلہ شکن فیصلوں کی وجہ سے ملک بھرمیں مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔بے تحاشہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، سیکڑوں کمپنیاں بند ہورہی ہیں اور درجنوں صنعت کار وسرمایہ کار اپنے پیسے دوسرے ملکوں میں لگارہے ہیں، پھربھی امت شاہ کے بیٹے کی آمدنی میں 16ہزار گناہ اضافہ کیسے ہوا۔انتخابات ٹالنے کے پیچھے اصل محرکات یہی ہیں۔ اسی وجہ سے بی جے پی کو یہ خوف ہوگیا ہے اگرابھی انتخابات کاتاریخوں کا اعلان ہوگیا تو گجرات پر قائم بی جے پی کی بادشاہت ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گی۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply