چھری مار کا جوابی خط ۔سید عارف مصطفیٰ

معروف چھری مار کا یہ مبینہ خط ایک مظلوم شوہر کے نام ہے جو اس نے چھری مار کو ناظم آباد سے لکھا تھا کہ جناب کبھی آپ کا ادھر بھی گزر ہوجائے تو میری بگڑی بھی بن جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجانب
رکن انجمن مظلوم شوہران ناظم آباد

صبح صبح آپ کا درد انگیز مراسلہ پڑھا تو یقین جانیے کہ ایک آنکھ بھر آئی کیونکہ دوسری میں‌ وہی غصہ بھرا ہوا تھا کہ جس کے تحت میں چھری لیے گھومتا ہوں‌۔ جناب مجھے آپ کے خانگی حالات پہ بہت افسوس ہےاور میں آپ کے دکھوں کا قیاس کرسکتا ہوں لیکن آپ قطعی طور پہ میرے دکھوں کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ جو مجھےان نصف درجن مسمات سے بھائی صاحب کہنے کی صورت پہنچتے ہیں کہ کبھی جنہوں نے مجھے شرمگیں و سرمگیں نظروں سے آنکھ بھر بھر کے بھی دیکھا تھا لیکن چند نوکری نہ ملنے اور کچھ نوکری چھوٹ جانے کی بناء پہ میرا انتظار نہ کرسکیں حالانکہ ان ہی میں سے چند نوکری نہ ملنے کا سبب بھی تھیں کہ عین اسی وقت اپنے ہی کاموں میں لگائے رکھتی تھیں کہ جس وقت میں نوکری تلاش کی جاسکتی تھی اور اسی طرح چند کی وجہ سے ملی ہوئی نوکری چھوٹ گئی کہ انہی اوقات میں ان کے اہلخانہ پیہم اپنے کاموں کے لیے بلا بھیجتے تھے ۔۔۔ اورپھر بالائے ستم یہ کہ ان کے موذی والدین نے مجھ مظلوم ہی سے ان کے بیاہ کا ٹینٹ بھی لگوایا اور کرسیاں بھی بچھوائیں اور ناچار ان سے منگنی کے لیے خریدی گئی انگوٹھیوں کو مجھے مناسب رعایت سےان کے نئے منگیتروں کو فروخت کرنا پڑا۔

اور اب تو صورتحال قطعی ناقابل برداشت ہوگئی ہے کیونکہ آناً فانا پیدا ہوئے ان کے دو درجن بچے مجھے ماموں ماموں پکارکےمیرے اندر سلگتی چنگاریوں کو مسلسل پھونکے جاتے ہیں ۔اب ایسے میں جی تو یہ چاہتا ہے کہ خود کو چھری مار لوں ، یا انہیں چھری ماردوں‌ لیکن پہلا آپشن تو رقیبوں کے کام آجانے والی بات ہے اور میں اتنا پاگل نہیں کہ خود تو میوہ شاہ میں‌ جا لیٹوں‌اور رقیبوں کو میوہ کھانے کا کھلا موقع فراہم کروں‌ ۔۔۔ اور ادھر میری سابق معشوقاؤں نے بھی کچھ کچھ میری اس بیزاری اورغصے کو بھانپ لیا ہے اور شاید اسی لیے گھر سے نہ نکلنے کی قسم ہی کھا لی ہے چنانچہ اب میں صحیح ہدف ہاتھ آجانے تک مسلسل نیٹ پریکٹس کیے جارہا ہوں اور اسٹینڈ بائی انتقام سے کام چلارہا ہوں‌ اور اسی لیے چھری چلارہا ہوں لیکن گھونپ نہیں رہا ۔۔۔

اب تو یہ عالم ہے کہ رستے میں جاتی بیبیاں کسی اور ہی سیارے کی مخلوق دکھتی ہیں کیونکہ بغیر آستینوں کی قمیضیں دیکھنے کو نہیں ملتیں اور سر بھی یوں پورے اسکارف سے ڈھکے ملتے ہیں‌کہ ہر وقت وعظ کی محفل سے آتی جاتی معلوم ہوتی ہیں۔ لگے ہاتھوں میں نے اس کام میں تجارتی پہلو بھی شامل کرلیا ہے تاکہ انتقام کی گاڑی بھی رواں‌ رہے اور میرے خرچے بھی چلتے رہیں ۔۔۔ اسی لیے میں‌ نے ابھی خود کو گلستان جوہر اور گلشن تک اس لیے محدود کیا ہوا ہے کہ خوف پھیلا کر یہاں کی جائیداد کی قیمتیں‌ گروادوں اور ڈیفنس و کلفٹن کی گرتی قیمتوں میں اٹھان اور استحکام پیدا ہوسکے کہ جس کے لیے مجھے وہاں کے پراپرٹی ایجنٹس نے بھری رقوم دے رکھی ہیں ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد علاقہ وار گھومتے گھماتے ایک نہ ایک روز میری چھری کی زد میں بالآخر ناظم آباد کو بھی آنا ہے ۔

میرے مظلوم اور نکمے شوہر بھائی بس ذرا حوصلے سے رہیں‌ کیونکہ میرے پاس اس وقت چھری مارنے کے آرڈروں‌ کا تانتا بندھا ہوا ہے اور یوں‌ لگتا ہے کہ میں‌ بیچارہ اکیلا ہی سارے شہر کی ضرورت ہوں‌ اور سبھی شہر والے آفت زدگانِ بیگم و متاثرینِ محبوبان میں‌ سے ہیں‌۔۔۔ اگر ایسا ہی رش رہا تو قوی خدشہ ہے کہ مجھے یہ ڈھیروں‌آرڈر نپٹانا مشکل ہوجائے گا اور اسی لیے میں سوچ رہا ہوں‌ کہ اب اس کام کی چند فرنچائز کھول لوں‌ تاکہ کچھ بیروزگار لوگوں‌ کا بھلا ہوجائے اور انہیں محفوظ پیشہ ہاتھ لگ سکے اور ویسے بھی پورے سال جاری رہنے والا کام ہے ۔ محفوظ‌ اس لیے کہا کیونکہ اس مہربان پولیس کے ہوتے ہماری حفاظت کا مسئلہ پیدا نہیں ہوسکتا بس مٹھی بند کرکے مصافحہ ہی تو کرنا ہوتا ہے ۔
آخر میں یہ فرمائش بھی کر رہا ہوں‌ کہ اگر آپ کی نظر میں چند کام کے لوگ ہوں‌ تو مجھے ضرور آگاہ کیجیئے گا کیونکہ ایک دوسرے کے کام آنے کا نام ہی تو انسانیت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیراندیش
آپ کا دوست چھری مار !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply